سیاسی نظام کے تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں ۔
اس عمارت کو مستحکم کرنے کی خاطر ذرائع ابلاغ کو چوتھا ستون لگا یا گیا۔ یہ
چوتھا ستون چونکہ سرکاری نہیں بلکہ عوام کی آواز ہونے کے سبب زیادہ قابل
اعتماد تھا لیکن یہ اگلے وقتوں کی بات ہے۔ فی الحال گودی میڈیا کا معاملہ
چائے سے گرم کیتلی کا ہوگیا ہے اور زیادہ سے زیادہ اشتہار کی خاطر سرکاری
ذرائع ابلاغ سے زیادہ حکومت کا وفادار اور چاپلوس بن چکا ہے۔ خیر سیاسی
نظام کی بہتر کارکردگی کے لیے ان سارے ستونوں کا ایک دوسرے کے اثر سے یعنی
مقننہ جس کے پاس حکومت کی طاقت ہوتی ہے، اس کے تسلط سے انتظامیہ اور عدلیہ
کا آزاد ہونا ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں
تقرر کے لیے جسٹس عقیل قریشی کا نام محض اس لیے ہذف کیا گیا کیونکہ انہوں
نے ۲۰۱۰ ء میں وزیر داخلہ امیت شاہ کو پولس کی تحویل میں دینے کا فیصلہ
سنایا تھا حالانکہ سینیرٹی میں وہ دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کو الگ کرکے ۸
جونیر ججوں کا نام تجویز کردیا گیا ہے۔ جسٹس آر ایف نریمن کا اصرار تھا اس
لیے ان کی سبکدوشی کے بعد یہ ناانصافی کی گئی۔ اپنے ججوں کے تقرر میں اس
قدر مجبور سپریم کورٹ پر سرکاری دباو کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اس حقیقت سے قطع نظر پچھلے ہفتے 26 ؍اگست (2021) کے دن عدالت عظمیٰ نے ایک
معطل آئی پی ایس افسر کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کرنے کا ایک اہم فیصلہ
سنایا ۔ چھتیس گڑھ حکومت نے سینئر آئی پی ایس افسر گرجندر پال کو ملک سے
غداری اور آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ ملکیت جمع کرنے کے مجرمانہ
معاملات میں معطل کررکھا ہے۔اس پر چیف جسٹس این وی رمن اور جسٹس سوریہ کانت
کی بنچ نے ریاستی پولیس کو انہیں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ
حکومت بدلنے پر کسی افسر کے خلاف ملک سے غداری کے معاملے دائر کردینا ایک
’پریشان کن روش‘ ہے۔ بنچ کے مطابق پولیس محکمہ بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔
اس معاملے کو سیاست سے جوڑتے ہوئے کہا گیا کہ جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار
میں ہوتی ہے تو پولیس افسران اس (برسراقتدار) پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں۔ پھر
جب کوئی دوسری نئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو حکومت پولیس افسران کے خلاف
کارروائی کرتی ہے۔ اس سنگین صورتحال کا دوٹوک اعتراف کرنے کے بعد عدالتِ
عظمیٰ نے اسے روکنے پر زور دیا۔
کانگریس کی قیادت والی چھتیس گڑھ حکومت کے خلاف جس دن یہ فیصلہ آیا اس کے
اگلے ہی اترپردیش کی یوگی سرکار نے سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر کو
لکھنو میں گرفتار کرلیا اور ان پر عصمت دری سے متاثرہ لڑکی کو خودکشی
پرمنصوبہ بند طریقہ سے اکسا نے کا الزام لگا دیا گیا۔ اس طرح سپریم کورٹ کے
اس ریمارک کی تصدیق ہوگئی جس میں مذکورہ صورتحال کے لیے خود پولس محکمہ ذمہ
دار ٹھہرایا گیا کیونکہ یہ مقدمہ ایس ایس آئی دیاشنکر دویدی کی شکایت پر
درج کیا گیا ہے۔ امیتابھ ٹھاکر کی گرفتاری دراصل ایک طویل تنازع کی اگلی
کڑی ہے۔ پانچ ماہ قبل 23؍مارچ ( 2021) کو انہیں جبراً سبکدوش کردیا گیا تھا
۔ امیتابھ ٹھاکر کو ان کی عدم کارکردگی کی بنا ء پر نہیں بلکہ وہ اکثر مفاد
عامہ کےمسائل اٹھاتے رہے ہیں اور ان کی زوجہ ایڈوکیٹ نوتن ٹھاکر بھی کئی
معاملوں میں اپنی مداخلت کے سبب سرخیوں میں رہتی ہیں اس لیے ہٹایا گیا ۔ ان
کے علاوہ آئی پی ایس راجیش شنکر اور راجیش کرشن کو بھی تین مہینے کی پیشگی
تنخواہ دے کر ریٹائر کردیا گیا ۔
ایک آئی جی رینک کے افسر امیتابھ ٹھاکر کے ساتھ یہ زیادتی قابلِ تشویش ہے
۔یہ دیگر باضمیر افسران کے لیےزباں بندی کی ڈھکی چھپی دھمکی ہے۔ جہاں تک ڈی
آئی جی (اسٹیبشلمنٹ) کا معاملہ ہےان پر بدنام زمانہ دیوریا شیلٹر ہوم میں
مشتبہ کردار ادا کرنے کا الزام ہے اس لیے ان کو ہٹائے جانے پر لوگوں کو
خوشی ہوئی ہوگی بلکہ انہیں تو سزا بھی ہونی چاہیے۔ ا سی طرح راجیش کرشن پر
اعظم گڑھ میں ہونے والی پولس تقرری میں دھاندلی کا الزام ہے اس لیے ان سے
بھی کسی کو ہمدردی نہیں ہےلیکن امیتابھ ٹھاکر پر ایسا کوئی سنگین الزام
نہیں تھا بلکہ اتر پردیش حکومت کے چیف سکریٹری برائے داخلہ اونیش اوستھی نے
لکھا تھا کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ مفاد عامہ میں
سروس کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ حکومت کے مطابق یہ تینوں ہی افسران سروس کے
لیے نااہل تھے۔ ایماندار شبیہ کے حامل امیتابھ ٹھاکر کو حکومت کے خلاف کھل
کر بولنے کے سبب معتوب کیا گیا ۔
اس کی ایک مثال پچھلے سال کانپور کے بیکرو گائوں میں 8 پولیس اہلکاروں کو
قتل کرنے والے مفرور مجرم وکاس دوبے کی گرفتار ی کے بعد امیتابھ ٹھاکر کا
بلا خوف و خطر تبصرہ تھا۔ ۹؍ جولائی 2020؍ کو اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے
لکھا تھا ،’’ ، وکاس دوبے نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہوسکتا ہے کہ کل وہ یوپی
پولیس کی حراست سے بھاگنے کی کوشش کرے ، مارا جائے۔ اس طرح وکاس دوبے کا
باب کو بند ہو جائے گا ، لیکن میری نظر میں اصل ضرورت اس سکینڈل سے سامنے
آنے والی یو پی پولیس کی گندگی پر منصفانہ / سخت کارروائی کرنےکی ہے‘‘۔
ٹھاکر کی پیشنگوئی صد فیصد درست نکلی۔ اگلی صبح ضلع ہیڈکوارٹر سے 17
کلومیٹر دور وکاس دوبے کو لانے والی ایس ٹی ایف کی گاڑی پلٹ گئی ۔ دوبے نے
پولیس اہلکار کا پستول چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ وکاس دوبے نے پولیس
پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں اس کو بھون دیا گیا ۔ اس کے بعد ٹھاکر
نے پھر لکھاتھا،’’اتنی کیا ہڑبڑی تھی؟ کسے بچایا جا رہا ہے؟‘‘۔ خیر جسے
بچانا تھا بچا لیا گیا اور آگے چل کر خود امیتابھ ٹھاکر کو پھنسا دیا گیا
۔ اسی خرابی کی جانب پہلے ٹویٹ میں اشارہ کیا گیا تھا۔
اکھلیش نے تو خیر امیتابھ ٹھاکر کے خلاف ساری کارروائی ضابطے کے مطابق کی
تھی اور پر ایسے معمولی الزامات لگائے جن سے وہ بہ آسانی بچ نکلے مگر یوگی
نے بغیر کوئی کاغذ دکھائے ایسے سنگین معاملات میں پھنسایا ہےکہ اب ان کا
بچنا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ امیتابھ ٹھاکر پر عصمت دری کے الزام میں مقید بی
ایس پی رکن پارلیمنٹ اتل رائے کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام ہے ۔ اس معاملے
میں عصمت دری کا شکار اور ہونے والی لڑکی اور اس کے دوست ستیم رائے نے 16
اگست کو سپریم کورٹ کے باہر ایک ویڈیو بنانے کے بعد امیتابھ ٹھاکر پر الزام
لگا کر خود سوزی کرلی تھی۔ آگے چل کر 21؍ اگست کو گواہ ستیم رائے اور 25
؍اگست کو زیادتی کا شکار لڑکی اسپتال میں فوت ہو گئی۔ خودکشی کرنے والوں نے
رکن پارلیمان اتل رائے کے علاوہ امیتابھ ٹھاکر پر 10 نومبر 2020 کو رشوت لے
کر عدالت کے لیے جھوٹے شواہد تیار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس کے ساتھ
ساتھ متاثرہ نے اسے بدنام کرنے کی سازش اور ذہنی اور جسمانی اذیت دے کر
خودکشی پر مجبور کرنے کا الزام لگایا۔
امیتابھ ٹھاکر پر سرکار نے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عصمت دری سے
متاثرہ لڑکی کو منصوبہ بند طریقہ پر خودکشی کے لیے اکسایا ۔ ان سارے
الزامات کے باوجود گجرات میں فساد و انکاونٹر میں ملوث افسران کی طرح انہیں
بچایا جاسکتا تھا لیکن یوگی جی خوفزدہ ہیں کہ کہیں امیتابھ ٹھاکر انہیں
الیکشن ہراکرامیت شاہ کی من مراد پوری نہ کردیں اسی لیے ان کو سنجیو بھٹ کی
مانند پریشان کیا جارہا ہے۔ اپنی گرفتاری کے بارے میں سابق آئی پی ایس
امیتابھ ٹھاکر نے خود ٹویٹ کرکے بتایا کہ 21؍ اگست کو جب انہوں نے اعلان
کیا کہ گورکھپور اور ایودھیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو اس وقت سے ان کو نظر
بند کردیا گیا تھا ۔سنگھ پریوار کے پرانے دلدادہ امیتابھ ٹھاکر پر فی الحال
ثاقب لکھنوی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|