اتر پردیش کے سابق آئی جی امیتابھ ٹھاکر فی الحال جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ہیں اوران کی زوجہ نوتن ٹھاکر گرفتاری کے خوف سے روپوش
ہیں۔ ان دونوں کی بی جے پی کی کوئی نظریاتی دشمنی نہیں تھی ۔ امیتابھ ٹھاکر
بلا تفریق پارٹی سابقہ حکومتوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ انھوں
نے2015؍ میں اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے خلاف فون پر
دھمکی دینے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ جولائی 2015؍میں امیتابھ ٹھاکر
کو سماجوادی پارٹی کی ریاستی حکومت نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزام میں
معطل کر دیا تھا۔ اس کے بعد اگست میں یوپی کے لوک آیکت جسٹس (ریٹائرڈ) این
کے مہروترا نے وزیر اعلی کو ٹھاکر کے خلاف ای ڈی، ویجلنس محکمہ اور سی بی
آئی کے اینٹی کرپشن ونگ سے جانچ کرانے کا حکم دیا ۔ 13؍ اکتوبر کو ان کے
گومتی نگر میں واقع گھر پر آمدنی سے زیادہ اثاثے کے معاملے میں ویجلنس ٹیم
نے چھاپہ مارا ۔ اس دوران ان کوبیوی سمیت گھر سے نکلنے کو کہا گیا تھا ۔ اس
وقت انہوں نے کہا تھا کہ یہ بے شرمی کی انتہا ہےاور ایسا وزیر اعلی اکھلیش
یادو کے اشارے پر کیا گیا ہے۔
سماجوادی پارٹی کی اس حرکت کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ ایک ماہ بعد امیتابھ
ٹھاکر کی بیوی نوتن ٹھاکر نے بی جے پی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ۔
سماجی کارکن نوتن ٹھاکر نے سیاست میں آنے کے فیصلے کی بنیادی وجہ یہ بتائی
تھی کہ سماج کی خدمت کرنے اور اپنی بات کو مؤثر طریقے پیش کرنے کیلئے ایک
سیاسی پارٹی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بی جے پی میں شامل ہونے کا سبب اس میں
نسل پرستی کا نہ ہونا نیز اس کے اندر داخلی جمہوریت ہے اور یہ مختلف طبقوں
میں امتیاز نہیں برتنا بتایا گیا تھا ۔ اس وقت بی جے پی نے مرکز میں تو
اقتدار سنبھال لیا تھا مگروہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتی تھی اس لیے
غالباً نوتن ٹھاکر جھانسے میں آگئیں ۔ 2017میں اترپردیش کے اندر بی جے پی
کو اقتدار مل گیا اور 2019؍ میں مرکز میں دوبارہ سرکار بن گئی۔ اس کے بعد
اس کے طور طریقوں میں جو زبردست تبدیلی آئی ہے اس کے بعد نوتن کا دماغ
ٹھکانے آگیا ہوگا۔
بی جے پی نے نوتن ٹھاکر سماجی خدمت کا کتنا موقع دیا یہ تو وہی بتا سکتی
ہیں لیکن جہاں تک نسل پرستی کا سوال ہے دلتوں پر ایسا ظلم پہلے کبھی نہیں
ہوا۔ امتیاز و تفریق کی بابت مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو مثال کے طور
پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ داخلی آزادی کا یہ حال ہے کہ وزیر اعلیٰ کسی اور کی
تو دور اپنے نائب وزرائے اعلیٰ کی بھی نہیں سنتے ۔ مجبوراً ارکان سمبلی کو
ایوان میں احتجاج کرنا پڑتا ہے لیکن اس کو بھی نظر انداز کردیا جاتا
ہے۔یوگی سرکار کے ہاتھوں امیتابھ ٹھاکر کے ساتھ ہونے والی حالیہ بدسلوکی کے
بعد امید ہے نوتن ٹھاکر کو دال آٹے کا حال بھاو پتہ چل گیا ہوگا؟ پہلے تو
انہیں جبراً ریٹائر کیا گیا ۔ اس کے بعد گھر میں نظر بند کیا گیا ۔ آگے چل
کر جب پولس گرفتار کرنے کے لیے آئی تو اس کے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا۔ ان
کو زبردستی ایک مجرم کی مانند کھینچ کر پولس کی گاڑی میں ٹھونس کر لے جایا
گیا اور گرفتاری کے کاغذ ات تک نہیں دیئے گئے جس سے عدالتی کارروائی کی
جاسکے۔ یہ ہے تفریق و امتیاز سے بے نیاز داخلی آزادی کا ایک نمونہ؟ ایسی
بڑی بڑی باتیں کرنے سے قبل نوتن ٹھاکر کو سنجیو بھٹ کا انجام دیکھ لینا
چاہیے تھا ۔
امیتابھ ٹھاکر نے اس وقت اپنی اہلیہ سے دو قدم آگے بڑھ کر آر ایس ایس میں
شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ امیتابھ ٹھاکر نے اپنے اس اقدام کے بارے
میں بتایا تھا کہ یہ فیصلہ ایس ایم مشرف کے آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم
قرار دینے کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ مشرف کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے
کہا تھا کہ میں جتنا بھی آر ایس ایس کو جانتا ہوں، یہ قومی سوچ اور ثقافتی
خیالات پر مبنی ایک سماجی تنظیم ہےجو مختلف علاقوں میں کام کررہی ہے۔ ایک
سماجی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم بتانا قابل مذمت ہے اور دہشت گردی کے حقیقی
خطرات سے بھٹکانے کی براہ راست کوشش ہے۔ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کے لئے
خطرناک ہے۔ ایک سابق اعلی ٰ افسر کے رد عمل میں انہوں نے علی الاعلان آر
ایس ایس کے ساتھ منسلک ہونے کا فیصلہ کرکے ریاستی حکومت کو اس بابت مطلع کر
نے کی بات کہی تھی ۔ حیرت کی بات یہ ہے فی الحال امیتابھ ٹھاکر آر ایس ایس
کے بغل بچہ بی جے پی کی دہشت گردی کا شکار ہوگئے ہیں اور دہشت زدہ سنگھ
پریوار میں کوئی ان کی حمایت میں آگے آنے کی جرأت نہیں کرپارہا ہے۔
اکھلیش کے ذریعہ اپنی معطلی کے خلاف امیتابھ ٹھاکر نے عدلیہ سے رجوع کیا
اور لکھنو بنچ کے سینٹرل ایڈمنسٹرٹیو ٹریبونل نے اپریل 2016 میں معطلی کو
رد کرکے اکتوبر 2015 سے تنخواہ سمیت ملازمت پر بحال کر دیا ۔ اس کے بعد ان
کے خوابوں سرکار انے جب انہیں معطل نہیں بلکہ جبراً سبکدوش ہی کردیا تو
امیتابھ ٹھاکر کا دماغ چکرا گیا اور انھوں نے کہا کہ ’’یہ حیرت انگیز ہے۔
مجھے آج دوپہر ہی میں پتہ چلا ہےکہ حکومت کو اب میری ضرورت نہیں ہے۔ میں
اب یہ سوچ رہا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘‘ اس بار انہوں نے2028 تک جاری
رہ سکنے والی ملازمت کو عدالت سے رجوع کرکے بحال کرانے کے بجائےنئی حکمت
عملی بنائی ۔ 14؍ اگست کے دن جبکہ وزیر اعظم ملک کی تقسیم کا دن منارہے تھے
نوتن ٹھاکر نے بتایا کہ امیتابھ آئندہ سال اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر
یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ انہوں نے اس مقابلہ آرائی کو
اصولوں کی لڑائی قرار دیا۔ کاش کہ وہ بتاتیں کہ 6؍ سال قبل ان دونوں نے آر
ایس ایس اور بی جے جے پی جو تعریف و توصیف بیان کی تھی اس کی حقیقت کیا ہے؟
نوتن ٹھاکر نےماضی کے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے یہ الزام لگایا تھا کہ
”شری ادتیہ ناتھ جی نے اپنے دور حکومت میں غیرجمہوری‘ نامناسب‘ جارحانہ او
رامتیازی اقدامات اٹھائے ہیں، لہذا جہا ں کہیں سے شری ادتیہ ناتھ مقابلہ
کریں گے وہاں سے امیتابھ الیکشن لڑیں گے“۔ یوگی ادیتیہ ناتھ چونکہ گورکھپور
سے رکن پارلیمان رہے ہیں اس لیے قوی امکان یہی ہے کہ وہ وہیں سے اسمبلی کا
انتخاب لڑیں ۔ اس لیے 22؍ اگست کو امیتابھ ٹھاکر نے اپنے متوقع حلقۂ
انتخاب میں جانے کا ارادہ کیا تو وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ ڈر گئے۔ اس
کا نتیجہ یہ ہوا کہ گورکھپور روانگی سے قبل گومتی نگر کے سرکل افیسر سمیت
پولیس کی بھاری جمعیت نے ان کو جانے سے منع کردیا ۔ اس کی وجوہات دریافت
کرنے پر بتایا گیا کہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک مخصوصی سماج(مسلمان)
کے غیض وغضب کا انہیں سامنا ہے ۔ ٹھاکر کے پاس اس کا جواب یہ تھاکہ ”ایسی
بات ہے تو یوگی ادتیہ ناتھ کوبھی کہیں نہیں جانا چاہئے کیونکہ ان کی زندگی
کو آئی ایس آئی اور دیگر کئی لوگوں سے خطرہ ہے۔ مگر وہ سکیورٹی انتظامات
کے ساتھ جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں بھی خطرے کے نام پر روکنے کے بجائے سکیورٹی
دینا چاہئے ‘‘۔
یوگی سرکار کی دلیل نہایت بچکانہ تھی کیونکہ امیتابھ ٹھاکر نے یوگی آدتیہ
ناتھ کے خلاف الیکشن لڑنے کااعلان کیا تو اپوزیشن نے اس کا خیر مقدم کیا ۔
سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (ایس بی ایس پی) اور ڈاکٹر محمد ایوب کی پیس
پارٹی نے غیر مشروط حمایت کا باضابطہ اعلان کیا ۔ اروند راج بھر نے لکھا کہ
’’اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف اسمبلی انتخابات لڑنے کا
اعلان کرنے والے سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر اور ان کی اہلیہ سماجی
کارکن نوتن ٹھاکرسے ان کی رہائش گاہ پر پارٹی کے ترجمان کنور اجے سنگھ نے
ملاقات کر کے ایس بی ایس پی کی پالیسی سے آگاہ کرایا اورپارٹی میں شمولیت
کی دعوت دی ۔‘‘اس پر جوش حمایت کی وجہ امیتابھ ٹھاکرکا وہ بیان تھا کہ جس
میں کہا گیا تھا ’’وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی مدت کار میں تمام
غیر جمہوری، شرپسندی، استحصال پر مبنی، مظالم ڈھانے والے اور تقسیم کرنے
والے کام کیے۔ میں اس کی مخالفت میں وزیر اعلیٰ کے خلاف انتخاب لڑوں گا،
پھر چاہے آدتیہ ناتھ جہاں سے بھی الیکشن لڑیں۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ امیتابھ
ٹھاکر کوئی خطرہ ہے نہ حکومت کی اس کی فکر ہے۔ اصل خطرہ یوگی کی کرسی کو ہے
اور اس کے لیے وہ فکرمند ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اس خطرے کو
ٹالنے کی خاطر 27؍ اگست کو حضرت گنج پولیس سے انہیں گرفتار کروادیا ۔
امیتابھ ٹھاکر نے اپنی گرفتاری سے متعلق کہ یوگی ادتیہ ناتھ مجھ جیسے
”چھوٹے فرد“ سے پریشان ہیں ۔ ٹھاکر کے مطابق یہ مضحکہ خیز ہے اوردر حقیقت
جمہوریت کا قتل ہے“۔ یوگی اور مودی کے دورِ اقتدار میں امیتابھ ٹھاکر جیسے
جمہوریت کے قتل پر آنسو بہانے والوں کی خیر نہیں رہتی اور اجے سہاب کو
کہنا پڑتا ہے ؎
جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خندہ زن
اس برہنہ نظام میں ہر آدمی کی خیر
|