آہ! سید علی گیلانی بھی چل بسے

کشمیری رہنماسید علی گیلانی طویل علالت کے بعد سری نگر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کی آزادی کشمیر کے لیے کی جانے والے جد و جہد اور کوششیں رہتی دنیا تک یاد رہیں گی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ بھارتی حکمرانوں اور فوج کے ہاتھوں ہر مصیبت جھیلی لیکن کبھی اپنے اصولی موقف پر سودے بازی نہیں کی۔ ان کی زندگی پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو تاریخی احوال کچھ اس طرح ہیں کہ ان کے آباء و اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ شمالی کشمیر کے سوپور قصبے کے ایک متوسط گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو آپ کی پیدائش ہوئی۔ سوپور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے۔ آپ کے والد سید پیر شاہ ایک مزدور تھے جو نہروں وغیرہ کی کھدائی کا کام کرتے تھے۔ شاید کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا کہ ان کا با صلاحیت بیٹا "سید علی گیلانی" ایک دن کشمیری عوام کی آواز بن جائے گا۔ سید علی گیلانی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سرینگر منتقل ہوئے اور سیاست میں قدم رکھا۔ پہلی بار 1962 میں کشمیر کا ایشو اٹھانے پر گرفتار ہوئے اور 13 ماہ قید رہے۔ 1965 میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور 22 ماہ جیل میں رہے، 70 اور 80 کی دہائی میں سید علی گیلانی 3 بار مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن رہے۔ 1987 میں سیاست چھوڑ کر حریت کا راستہ اپنایا۔ 1992 میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی تو سید علی گیلانی اس کا حصہ بن گئے۔ 2004 میں سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی نے تحریک حریت کی بنیاد رکھی۔ آپ نے حریت پسند سرگرمیوں کے باعث 12 سال سے زائد عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی۔

انہوں نے نیک نیتی سے آزادی کشمیر کیلئے اپنا تن من دھن وقف کر دیا تھا۔ وہ جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے۔ سید علی گیلانی محض ایک سیاسی راہنما ہی نہیں تھے بلکہ آپ کی جدوجہد دنیا بھر کے آزادی پسندوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کریم نے آپ کو تحریر و تقریر کی بے پایاں صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا ۔آپ نے ہندوستان کے چپے چپے پر علمی و سیاسی حلقوں، پریس کلبوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے سامنے دین حق کی دعوت اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنا پر مغز موقف احسن انداز میں پیش کیا۔ اس سے بھارتی عوام میں مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کا شعور بیدار ہوا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالمی شہرت کی حامل نوبل انعام یافتہ بھارتی مصنفہ "ارون دتی رائے" جیسی شخصیات بھی کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے حق میں آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح اب بھارت کے اعلی تعلیمی اداروں میں کشمیری عوام کے مطالبہ حق خود ارادیت کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ تو اس میں بھی جناب سید علی گیلانی کے عمدہ، پر اثر اور استدلالی مکالمے کا بنیادی کردار ہے۔ مرحوم گیلانی صاحب ہنگامہ خیز سیاسی و تحریکی مصروفیات کے باوجود 30 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جن میں روداد قفص، صدائے درد، مقتل سے واپسی ، دیدوشنید، فکر اقبال پر شاہکار کتاب “روح دین کا شناسا، پیام آخریں اور خود نوشت سوانح عمری بھی شامل ہیں۔ آخری عمر میں آپ متعدد جسمانی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ کئی میجر آپریشنز ہو چکے تھے۔ ایک گردہ مکمل طور پر اور دوسر ے کا بھی 1/3حصہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ عمر بھی 92 سال سے متجاوز تھی۔ لیکن پھر بھی تا دم آخریں مومنانہ استقامت کے ساتھ بھارتی استعمار کے سامنے چٹان کی طرح ثابت قدم رہے۔ ان کی شخصیت بقول اقبال کچھ اسی کے مصداق تھی کہ

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میر ی طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے

سید علی گیلانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں یا کسی عقوبت خانے میں، اپنے گھر پر نظر بند ہوں یا کہ اب داعی اجل کو لبیک کہہ چکے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کشمیریوں کے دل میں رہتے ہیں۔ ان کی استقامت نے حریت پسندوں کو جینے کا سلیقہ اور موت سے لڑنے کا طریقہ سکھا دیا ہے۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جسے حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

حکومت پاکستان نے حریت رہنما سید علی گیلانی کی وفات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایک دن کے سوگ اور قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سید علی گیلانی کی پاکستان سے لازوال محبت کی وجہ سے ان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر قبرستان لایا گیا۔ سید علی گیلانی نے اپنی تمام عمر لوگوں کے حق خود اردایت کے لیے جدوجہد کی، انہیں بھارت فوج کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ ڈٹے رہے۔ہم ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں،اور انہیں ان کے آخری الفاظ' ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے' کیساتھ یاد کرتے ہیں۔
سید علی گیلانی کچھ اس طرح کا پیغام دے کر اللہ کے حضور پیش ہوگئے ۔۔کہ
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240767 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More