مادر جمہوریت کلثوم نواز کی عظیم سیاسی جدوجہد

مشرف دور میں جمہوریت کے لئے زبردست جدوجہد کرنے والی، شاندار تعلیمی ریکارڈ، نرم رو گفتگو اور گرم رو جستجو کی حامل باہمت خاتون بیگم کلثوم نواز کی آج برسی تیسری منائی جارہی ہے

سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے 29 مارچ 1950ء کو لاہور میں ڈاکٹر محمد حفیظ کے گھر میں آنکھ کھولی، رستم زمان گاماں پہلوان کی نواسی تھیں۔کلثوم نواز نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی، شادی لاہور کے متمول صنعتی گھرانے کے فرد محمد نواز شریف سے ہوئی، چار بچے مریم نواز، اسما نواز، حسین نواز اور حسن نواز ہیں۔کلثوم نواز کے شوہر نواز شریف 2 بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور 3 مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے، اس دوران آزمائشیں بھی آئیں، بیگم کلثوم نواز ہمیشہ ان کے لئے مضبوطی کا باعث بنیں۔شعر و شاعری اور ادب سے شغف رکھنے والی گھریلو خاتون بیگم کلثوم نواز اس وقت ایک مضبوط اعصاب کی حامل سیاستدان کے طور پر سامنے آئیں، جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا، انہیں مسلم لیگ ن کی صدر بنایا گیا۔

یہ ایک حقیقت ھے کہ شریف فیملی کی کسی خاتون نے انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ بیگم کلثوم نواز شریف فیملی کی واحد خاتون ہیں جو اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے انتخابی عمل سے گزر یں۔ بیگم کلثوم نواز مشہور زمانہ گاما پہلوان کی پوتی ہیں ’بیگم کلثوم نواز نے یکم جولائی 1950 کو اندورن لاہور کے کشمیری گھرانے میں حفیظ بٹ کے ہاں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مدرستہ البنات سے حاصل کی، جبکہ میٹرک لیڈی گریفن اسکول سے کیا۔ انہوں نے ایف ایس سی اسلامیہ کالج سے کیا اور اسلامیہ کالج سے ہی 1970 ئی میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ادب سے گہرا لگاؤ ہونے کے باعث انہوں نے 1972 میں فارمین کالج سے اردو لٹریچر میں بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے اردو شاعری میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔ تعلیم کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف سے ان کی منگنی ہوگئی۔

یگم کلثوم نواز کے بھائی عبدالطیف کی شادی بھی شریف خاندان میں ہوئی اور یہی رشتہ داری دو اپریل 1971 میں نواز شریف سے ان کی شادی کا سبب بنی۔ اور بیگم کلثوم کے ہاتھوں میں مہندی اور نواز شریف کے ماتھے پر سہرا سجا اور دونوں نے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا ’نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کے دو بیٹے حسن اور حسین نواز، جبکہ دو بیٹیاں مریم نواز اور اسما نواز ہیں‘ کلثوم نواز کو عملی سیاست سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ خاتون خانہ ہونے کو ترجیح دیتی رہیں، بیگم کلثوم نواز اپنے شوہر نواز شریف سے ایک سال چھوٹی تھیں، نواز شریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990 کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993 تک برقرار رہا۔ وہ 17 فروری 1997 ئی کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں ’12 اکتوبر 1999 ئی کو جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا‘ نواز شریف سے عہدہ چھینا تو جانثار فصلی بٹیروں نے بھی آشیانے بدل لیے۔ امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم نواز کو تنہا اپنے شوہر کے حق میں آواز اٹھانا پڑی انہوں نے نہ صرف شوہر کی رہائی کے لئے عدالت سے رجوع کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو بھی سہارا دیا۔ انہوں 1999ء میں مسلم لیگ ن کی پارٹی کی قیادت سنبھالی، لیگی کارکنوں کو متحرک کیا اور آمر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں، نواز شریف کی گرفتاری کے خلاف انہوں نے کاروان تحفظ پاکستان ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کی بناء پر انہیں 8 جولائی 2000 کو نظر بند کر دیا گیا۔

بیگم کلثوم نواز لیگی کارکنوں کے ہمراہ جیل روڈ انڈر پاس پہنچ گئیں جہاں سے پولیس ان کی گاڑی کو کرین کے ذریعے جی او آر لے گئی اور وہاں انہیں گرفتار کیا گیا، وہ 2002 میں پارٹی قیادت سے الگ ہو گئیں ’جون 2013 ئی میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017 تک ہی رہ سکا۔ پانامہ سکینڈل میں سپریم کورٹ کے حکم پر نواز شریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ انہیں این اے 120 سے ڈی سیٹ کردیا گیا۔

ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی اہلیہ کو میدان میں اتار دیا۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہونے کے باعث 17 اگست کو لندن روانہ ہوئیں جس کے باعث این اے 120 سے انتخابی مہم چلانے کا بیڑہ بیٹی مریم نواز نے اٹھایا اور وہ کامیاب بھی ہوئیں مگرقومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف لینے سے قاصر رہیں۔

محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ کی شخصیت کے حوالے سے 11 ستمبر کا دن ایک ایسا دن ھے جب بیگم کلثوم نواز گزشتہ برس اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات جن حالات میں ہوئی انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین اور اخلاقی اقداروں کی پامالی کا بدترین دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک عورت لندن میں بستر مرگ پر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھی اور پاکستان میں میڈیا اور عمران خان کے پیروکار اس عورت کی بیماری کا مذاق اڑا رہے تھے۔ کبھی انکی بیماری کو ڈھونگ قرار دیا جاتا اور کبھی سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کا بہانہ۔ ایک جانب کلثوم نواز کی بیماری کو عمران خان اور ان کے حواریوں نے تماشا بنائے رکھا تھا، جبکہ دوسری جانب اس کے خاوند نوازشریف اور دختر مریم نواز کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ نوازشریف اور مریم نواز ہفتے میں ایک بار کلثوم نواز سے فون پر چند منٹ بات کرسکتے تھے اور بے بسی سے دعائیں کرنے کے علاوہ ان کے پاس دوسرا راستہ کوئی نہیں تھا۔ یاد رہے نواز شریف اس وقت چاہتے تو بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو جواز بنا کر مریم سمیت لندن میں قیام کرسکتے تھے۔ آخری ساعتوں میں نوازشریف اپنی شریک حیات اور مریم نواز اپنی ماں کے ساتھ موجود رہ سکتے تھے۔ لیکن ان دونوں باپ بیٹی نے پاکستان آکر اپنی عزت اور نظریے کی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔

بیگم کلثوم نواز وفات تک اس بات سے لاعلم رہیں کہ ان کا خاوند اور ان کی چہیتی بیٹی پاکستان میں پابند سلاسل تھے۔ دوسری جانب نوازشریف اور مریم نواز جب تک جیئیں گے اس بوجھ اور دکھ کے ساتھ جیئیں گے کہ وہ آخری ایام بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بتا نہ پائے۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر طنز کے نشتر برساتے عمران خان کے اندھے عقیدت مند اور اس ملک کی مقتدر قوتیں جن کی انا کی تسکین سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کی صورت میں ہی ہوتی ہے، انہیں شاید ادراک نہیں کہ بیگم کلثوم نواز نے وفات سے پہلے اپنی پرچھائیں مریم نواز کی صورت میں تیار کی اور اسے باپ کے شانہ بشانہ مقتدر قوتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے والی بہادر عورت بنا ڈالا۔ وہ لڑائی جو بیگم کلثوم نواز نے مشرف کی آمریت کے خلاف ببانگ دہل شروع کی تھی اور جس کے خوف سے مشرف نے پسپا ہوکر نوازشریف کو سولی پر چڑھانے کے بجائے جلاوطنی کا راستہ دینے پر مجبور کیا تھا، آج بھی جاری و ساری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز اس جہان فانی میں نہیں ہیں لیکن ان کی پرچھائیں مریم نواز آج بھی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اپنی ماں کی مانند مریم نواز نے بھی پابند سلاسل ہونے سے قبل اہنی دلیری اور اپنے سیاسی بیانیے کے بل بوتے پر مقتدر قوتوں کو پسپائی پر مجبور کردیا۔

پنجاب کی دھرتی جو قیام پاکستان سے اطاعت و فرمانبرداری کی سیاست کےلیے مشہور تھی، وہاں سے ایک کلثوم نواز جیسی عورت کا جنم لینا انتہائی اچھنبے کی بات ہے جو مقتدر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ مریم نواز کو اعصابی طور پر مضبوط بنانے اور سیاسی سمجھ بوجھ دینے کا سہرا مرحومہ بیگم کلثوم نواز کے سر جاتا ہے جنہوں نے 2007 میں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد فوراً بعد بھانپ لیا تھا کہ ان کے خاوند کو مقتدر قوتیں ڈکٹیشن لیے بنا چلنے نہیں دیں گی اور ڈکٹیشن لینا ان کے خاوند نوے کی دہائی میں ہی چھوڑ چکے تھے۔ مسلم لیگ نواز میں چوہدری نثار جیسے سفید ہاتھیوں کو بھی مرحومہ کلثوم نواز پہچان چکی تھیں، اس لیے بے حد کاوشوں کے بعد انہوں نے مریم کو میدان میں باپ کی رفاقت کےلیے اتارا اور وقت نے ثابت کردیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔

12جولائی 2018ء کو لندن کے’’ ہارلے اسٹریٹ کلینک‘‘ میں ایک سال سے زاید زیرِ علاج، 68 سالہ بیگم کلثوم نواز سے اُن کے شوہر، سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پاکستان واپس آنے سے قبل ملاقات کی، تو اُن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ رفیقِ حیات سے یہ اُن کی آخری ملاقات ہوگی اور 47سالہ رفاقت ٹوٹنے کی خبر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ملے گی۔ کلثوم نواز ایک سال، 25دن کینسر جیسے مُوذی مرض سے نبردآزما رہیں۔ اسپتال میں اُن کا بیش تر وقت نیم بے ہوشی کی حالت ہی میں گزرا۔ انتقال کے بعد ایسی کئی تصاویر، ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں، جن میں آخری ملاقات کے جذباتی مناظر محفوظ تھے۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں نوازشریف، کلثوم نواز سے کہہ رہے ہیں کہ’’ زرا آنکھیں کھولو کلثوم۔۔۔ باؤجی۔۔۔ اللہ آپ کو صحت و تن درستی عطا کرے۔‘‘

اُس موقعے پر نوازشریف کی بیٹی، مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں، جن کا کہنا ہے کہ’’بار بار نام لینے پر امّی نے ایک مرتبہ آنکھیں کھولیں، لیکن کچھ کہنے کی بجائے، اُن کی آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک گئے۔‘‘ لاہور کے متوسّط کشمیری گھرانے میں جنم لینے والی کلثوم نواز زندگی کے غیر معمولی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد، اپنے وطن سے دُور، دیارِ غیر میں 11ستمبر کو مقامی وقت کے مطابق سوا گیارہ بجے زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اُس وقت پاکستان میں سہ پہر کے سوا تین بجے تھے۔ جب اڈیالہ جیل میں قید، میاں نواز شریف اور مریم نواز تک یہ خبر پہنچی ہوگی تو یقیناً بیگم کلثوم نواز سے آخری ملاقات کے کرب انگیز مناظر اُن کی آنکھوں کے سامنے بھی گھومے ھونگے۔ پھر یہ بھی کہ میاں نوازشریف کی آنکھوں میں کئی دہائیوں پر محیط رفاقت کے شب و روز بھی سِمٹ آئے ہوں گے اور اس دَوران پیش آنے والے تلخ و شیریں واقعات نے اُنہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہوگا کہ کس طرح کلثوم تین بار پاکستان کی خاتونِ اوّل رہیں اور جب شریف خاندان پر کڑا وقت آیا، تو ایک گھریلو خاتون نے کس پامَردی سے حالات کا مقابلہ کیا اور پارٹی کو متحد رکھا۔دیکھا جائے، تو کلثوم نواز کی زندگی بھی تلخ اور شیریں واقعات کا مجموعہ تھی۔ اگر آج مریم نواز سیاست میں نہ ہوتیں تو نواز شریف کے پابند سلاسل ہونے کے بعد نواز شریف کا بیانیہ دم توڑ چکا ہوتا اور شاید مسلم لیگ نواز کو نوجوانوں پر مشتمل ووٹ بینک بھی میسر نہ آتا۔

میاں نواز شریف سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہیں بیگم کلثوم نواز کی کون سی خوبیاں پسند ہیں۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ ماشاء اللہ بہت خوبیوں کی مالک ہیں ،بڑی جرا ت مند خاتوں ہیں ۔ان کی جو چھپی ہوئی خوبی میرے سامنے میرے جیل جانے کی بعد آئی کہ وہ اس قدر بہادر خاتون ہیں جو میں پہلے تصور نہیں کرتاتھا۔وہ سڑکوں پر بھی نکل گئیں اور جیل میں مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ پیچھے کیا فیصلہ گھر میں ہوچکا ہے۔وہ تو ان کے ،والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے مابین فیصلہ ہوا تھا کہ گھر میں چونکہ مرد اب کوئی نہیں ہے ۔سب یا تو جیلوں میں ہیں یا میرے والد صاحب ہیں جو عمر رسیدہ ہیں تو پھر آپس میں انہوں نے یہی طے کیا کہ کلثوم نواز باہر نکلے ۔جو کام کسی مرد کو کرنا چاہئے تھا وہ ان کے نہ ہونے سے ایک خاتون کو کرنا پڑا ۔پھر وہ باہر نکلیں اور جتنی بہادری سے انہوں نے پاکستان کے غاصب جرنیلی ٹولے کا مقابلہ کیامیرا خیال ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے بلکہ میں کبھی یہ امید نہیں کرتاتھا بلکہ پوری قوم کو بھی اس کی امید نہیں تھی۔12گھنٹے ایک خاتون کیلئے گاڑی میں بیٹھے رہنا بذات خود ایک بہت بڑی بات ہے۔پھر اس کے بعد ڈرنا یا گھبرانا نہیں ،کہیں بھی چلے جانا کسی بھی حالت میں ،یہ تو اپنی زندگی دائو پہ لگانے والی بات تھی۔ میاں نوازشریف کی وفا شعار بیوی نے آمریت کیخلاف دلیرانہ بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی جدوجہد آج تاریخ کا سنہری باب ہے۔ یہ صرف شوہر سے وفا کا معاملہ نہ تھا ملک، پارٹی اورجمہوریت کی سلامتی و بقا بھی اس میں شامل تھی، وہ تنہا نکلی تھی اور قافلہ بنتا گیا۔ کہتے ہیں کہ افراد مر جایا کرتے ہیں لیکن نظریات کبھی نہیں مرا کرتے۔ بیگم کلثوم نواز کی آمریت کے خلاف جدوجہد اور ان کا باد مخالف کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کا نظریہ آج بھی زندہ ہے اور مریم نواز کی صورت میں نئی منزلوں کا سفر طے کر رہا ہے۔

اب بیگم کلثوم نواز کی ہر برس اس ملک کی مقتدر قوتوں اور تحریک انصاف کو یہ یاد دلوایا کرے گی کہ کینسر کے موذی مرض کے خلاف جنگ لڑتی عورت کا مذاق اڑا کر اور اس کی بیماری پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے پستہ قامت ہونے کی محرومیاں مٹانے کی ناکام سعی کرکے شاید کچھ دیر ان کے بے رحم دلوں کو تسکین تو حاصل ہوگئی ہوگی لیکن اس رویے نے جس سیاسی اور سماجی تقسیم کی بنیاد رکھی، اس کو کم کرنا اب پستہ قامت تحریک انصاف کے بس میں نہیں ہے۔ دوسری جانب چونکہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ ایک قد آور شخصیت تھیں، اس لیے مر کر وہ نہ صرف اپنی بیماری کا مذاق اڑانے والوں کی کم ظرفی کو عیاں کرگئیں بلکہ جمہوری جدوجہد کے لگائے گئے پودے کو مریم کی شکل میں قد آور درخت بھی بناگئیں۔

مشکل وقت گزر رھا ھے اور اس مشکل وقت نے ہر صورت گزر ھی جانا ہے، یہ مشکل وقت آسانی میں تبدیل ہوگا کہ تبدیلی ہمیشہ سرشت ٹھہری۔ ایک مشکل دور میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے پہلے مشرف کی آمریت کو للکار کر اور پھر مریم نواز کی صورت میں پنجاب کی جمہوریت سے نابلد دھرتی کو مریم کی صورت میں ایک ایسی بیٹی عطا کی جس نے مختصر سے عرصے میں پنجاب کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا بوجھ اتار دیا اور آنے والے وقت میں اب وہ جمہوریت کا علم تھامے فاتح بھی بن سکتی ہے۔

ماضی قریب میں پانامہ اسکینڈل کے دوران نواز شریف اور ان کے داماد کیپٹن صفدر اور بیٹی مریم نواز کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا اورلندن میں ڈاکٹرز نے 22 اگست 2017 کو بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے مرض کیسنر کی تشخیص کی جس کے بعد ان کی متعدد سرجریز اور کیموتھراپیز ہوئیں۔ اس دوران کئی مرتبہ ان کی طبیعت سنبھل کر پھر خراب ہوئی۔

بیگم کلثوم نواز سے جب ان کے بیٹے حسین نواز کی آخری ملاقات ہوئی تو حسین نواز کا کہنا تھا کہ جب سے ان کو ہوش آیا تھا اور اشاروں سے بات کرنے کے قابل ہوئی تھیں، وہ اکثر مریم نواز اور نواز شریف کے بارے میں پوچھتی تھیں اور کافی فکرمند تھیں، جب ان سے آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز شریف کے بارے میں پوچھا تھا۔

حسین نواز نے کہا کہ انہیں اس بات کا بھی صدمہ تھا کہ ان کے شوہر نواز شریف اور بیٹی مریم نواز ان کے ساتھ نہیں ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ دونوں جیل میں ہیں جبکہ جیل میں ہونے کے بعد دونوں کی ان کے ساتھ زیادہ بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی، بیگم کلثوم نواز دوران علاج ہی 11 ستمبر 2018 کو ہارلے سٹریٹ کلینک میں انتقال کر گئی تھیں ان کی میت وطن واپس لائی گئی اور رائیونڈ لاہور میں ان کی نماز جنازہ معروف عالمی مبلغ مولانا طارق جمیل کی اقتدإ میں ادا کرنے کے بعد سسر مرحوم میاں محمد شریف کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا،

نواز شریف کی شخصیت میں جو سیاسی اور نظریاتی تبدیلی نظر آئی اور جس کا وہ خود ذکر بھی کرتے ھیں، اس تبدیلی میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ اور ان کی بیٹی مریم نواز کا بڑا کردار ہے۔ کلثوم نواز جو ملکی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھتی تھیں۔ وہ سنہ 2017 میں لاہور سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئیں تھیں تاہم اس سے پہلے ہی انہیں بیماری نے آن لیا۔ وہ علاج کے لیے لندن جانے کے بعد واپس نہ لوٹ پائیں۔ میاں نواز شریف کے عدالتِ عالیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد کلثوم نواز صاحبہ براہِ راست سیاست میں حصہ لیتی نظر آ ئیں اور یہی وجہ ھے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انکے پاس جانے کی پبلک میں قیاس رائی عام تھی۔ کلثوم نواز کا شریف خاندان کے تمام اہم فیصلوں میں ہمیشہ بنیادی کردار رہا۔ شریف خاندان میں بیگم کلثوم نواز کا سیاسی تجزیہ اور لوگوں کے بارے میں ان کی رائے ہمیشہ درست ثابت ھوتی رھیں۔ کسی بھی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کلثوم نواز نے کینسر جیسے موذی مرض کے ساتھ بڑی ہمت سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف نواز شریف کو حوصلہ دیا بلکہ اپنی بیٹی مریم نواز کو وہ راہ بھی دکھائی جس پر چل کر وہ آج اپنے والد کا آج سب سے مضبوط سہارا بنی ہوئی ہیں۔ مریم نواز اب پاکستانی سیاست میں سب سے نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں۔

ملکی جمہوریت کے لئے کلثوم نوازشریف صاحبہ کی جدوجہد ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی، آج تین برس مکمل ھوئے اور آج 11 ستمبر کے دن انکی تیسری برسی منائی جارہی ہے

بیگم کلثوم نواز نے اپنی زندگی جس انداز سے گزاری اس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، 3 بار خاتون اول رہنے کے باوجود ہمیشہ سادگی کو اپنا شعار بنایا اور خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کام کیا، مشرف کی آمریت کا مقابلہ اور پارٹی ورکرز کو متحرک کیا۔ دعا ہے اللہ سبحان انکے درجات بلند فرمائے۔ بیگم کلثوم نواز ایک بہادر خاتون تھیں۔ جمہوریت کیلئے ان کا کردار تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ باوقار گھریلو خاتون نے اپنا سیاسی کردار نہایت متانت، وقار اور ثابت قدمی سے ادا کیا۔ بیگم کلثوم نواز ، آمریت کے خلاف جس دلیری سے سینہ سپر ہوئیں وہ تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ مسلم لیگ ن کی خاطر مرحومہ کی شاندار قربانیاں، انکا خاتون اول ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارنا اور خواتین کیلئے فلاحی جدوجہد کرنا ہمیشہ یاد رہے گا۔ مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی جمہوری جدوجہد قابل تعریف اور سیاسی کارکنوں کے لئے قابل تقلید بھی ہے۔ پاکستان اور جمہوریت دونوں بیگم کلثوم نواز کی مقروض ہیں۔ نواز شریف فیملی کو اللہ تعالیٰ دکھ برداشت کرنے کی توفیق دے اور رب کائنات مرحومہ کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمائے، ثم آمین یارب العالمین
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299472 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More