اسٹیٹ بینک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اندرونی قرض کل قرض
کا 68فیصد ہے، بیرونی قرض پاکستان کے کل قرض کا 32فیصد ہے، مالی سال
2019میں پاکستان کا قرض 31ہزار 78ارب روپے تھا،پاکستان کا قرض جون 2021تک
38070ارب روپے تک پہنچ گیا، سال 2019ء سے ہر سال پاکستان کے قرض میں 10فیصد
اضافہ ہوا گذشتہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کا قرض 5فیصد بڑھا،
گذشتہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں قرض کا حجم 36ہزار 84ارب روپے
تھا،اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کا طویل المدتی قرض کل قرض کا 12ہزار
29ارب روپے ہے، پاکستان کے بانڈز کا قرض 15ہزار 457ارب روپے ہے، پاکستان کے
ذمے سرمایہ کاری بانڈز کا قرض 14ہزار 950ارب روپے ہے۔تحریک انصاف کاالیکشن
سے پہلے ایجنڈاہی مہنگائی ختم کرنااورعوامی مسائل کی ہی بات ہوتی اورایسے
محسوس ہوتاتھاخان صاحب کے پاس جو ٹیم ہے وہ اتنی اہل ہے کہ آتے ہیں ملک کے
قرض اتاردیں گے معیشت اتنی مضبوط ہوجائے گی کہ ہم امریکہ بھارت چین بلکہ
پوری دنیاکوقرضہ دیں گے اورباہرکے ممالک سے بے روزگارلوگ ہمارے ملک میں
نوکری لینے آئیں گے اورہمارے ملک میں غربت کی شرح صفرپرآجائے گی مگراب
ہرکوئی تبدیلی اورتبدیلی کے دعویداروں کوکوستانظرآتاہے روزگارتونہ ملاعوام
کو لنگر خانوں پر لگا کر داد وصول کی جا رہی ہے۔کیونکہ عوام میں قوت خریدکی
بات ہو تو اشیا و خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ چینی جو
تین سال قبل صرف پچاس روپے کلو میں دستیاب تھی نامنہادانصافین کی حکومت آتے
ہی چینی کو ایسے پر لگے ہیں کہ اس وقت سو روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی
ہے۔آئے روز ادویات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں جس سے واضع ہوتاہے حکمران
ہمارے کتنے ہمدردہیں ہرماہ بجلی کے بلوں میں اضافہ ایک گھمبیرمسئلہ
بنتاجارہاہے پیٹرول جس کیلئے خان کے پالیسی میکرلائیوجلسوں میں کیلکولیٹر
اٹھا کر حساب بتاتے تھے اب وہی سوسے نیچے آنے کی کوشش نہیں کرتادس روپے
بڑھاتے ہیں توعوام کے احتجاج اورواویلاکے بعد2روپے کم کردیاجاتاہے اورگھی
یا آئل کی بات کریں تو کوکنگ آئل جو تین سال قبل 150 سے لے کر 160 روپے فی
لیٹر ملتا تھا اب 300 روپے سے لے کر 320 تک جا پہنچا ہے۔ اس طرح آٹا جو تین
سال قبل چالیس روپے کلو مل رہا تھا اس وقت اس کی قیمت بھی دوگنی ہو چکی ہے
اور آٹا 75 روپے سے لے کر 80 روپے فی کلو میں ملتا ہے۔پولٹری مصنوعات دودھ
مکھن کریم مچھلی گندم مکئی دھی پنیر شہد سبزیاں پھل خشک میوہ جات منرل واٹر
آئس کریم پالتو جانوروں کی خوراک کی قیمتیں بڑھانا ظلم ہی نہیں بیہودہ حرکت
بھی ہے بجلی کی گھریلو مصنوعات اور سٹیل کی قیمتوں کو بڑھانا بھی احمقانہ
حرکت ہے حکمران طبقات کے ہی تمام چینی کے کارخانے ہیں برآمدات پر وہ سبسڈی
کے ذریعے اربوں کماتے ہیں پھر بھی عوام کی پہنچ سے چینی دور ہے اور دیہاتی
لوگ بدستور گڑ شکر استعمال کرتے ہیں ۔گندم پڑی خراب ہورہی ہے گوداموں اور
کھلے آسمان تلے بنائے گئے ۔دالوں کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو
چکا ہے کہ عام آدمی کیلئے اب دال روٹی پوری کرنا بھی دشواورہوچکاہے۔عالمی
رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت بے روزگار افراد کی تعداد ستر لاکھ سے
تجاوز کر چکی ہے۔
حکمران اقتدارکے تین برس گزرنے کے جشن منارہے ہیں اور تین برس کی کارکردگی
پر حکومت نے بڑی تقریب رکھی جس میں انہوں نے تین سال کے دوران اپنی
کارکردگی کی تشہیر بھی کی اور بتایا کہ ملک میں مہنگائی نہ ہونے کے برابر
ہے بلکہ تین سال میں خوشحالی کا وہ دور دورہ ہے اورلوگ کہہ رہے ہیں اگلے
پچاس سال تک عمران خان وزیراعظم ہونگے۔ تین سال پہلے عوام کی قوت خرید کتنی
تھی اور اب کتنی ہے یہ کوئی نہیں بتاتا اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ
ریکارڈ تعداد میں موٹر سائیکلیں بک گئیں، گاڑیاں بک گئیں، لیکن کوئی یہ بھی
تو بتائے کہ کتنے کروڑ لوگ ایسے ہیں جو نہ تو گاڑی خرید سکتے ہیں اور نہ
موٹر سائیکل خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ وہ ہیں جو
مہنگائی کی وجہ سے اپنی گاڑیاں بیچ کر موٹر سائیکلیں خرید رہے ہیں اور جن
کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں ان کے پاس کچھ نہیں رہالاکھوں لوگ بیروزگارہوگئے
ہیں۔
حکومت سے جب مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں سوال کیاجائے تو وہ پچھلی
حکومتوں کوقصوروارٹھہراتی ہے مگریہ بھول چکی ہے کہ ان کے وعدے 90دن میں
پورے کرنے کے تھے اب تین سال گزرچکے ہیں۔ حکومتی اعلانات اور اقدامات کے
دعوے اپنی جگہ لیکن عوام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوکم نہ کیاگیاتوحکومت
کیلئے اچھاسائن نہیں ہوگا۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا عوام ہی بااختیارہے؟ حکومت عوام کی یا
اشرافیہ کی؟مگرمہنگائی بے روزگاری اورلاقانونیت کی وجہ سے عوام نراش نظرآتی
ہے۔اب چونکہ نئے انتخابات نزدیک آتے جارہے ہیں اس سے قبل سرمایہ کی چھینا
جھپٹی کا غلیظ عمل شروع ہو گا سبھی قسم کے ممبران اسمبلی آئندہ منتخب ہونے
کے لیے ڈھیروں سرمایہ اور مال و دولت جمع کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ آئندہ
پھر ووٹوں کی خریداری کرکے منتخب ہوسکیں اس لیے بجٹ کے ذریعے کھانے پینے
سمیت سینکڑوں اشیاء پر ٹیکس عائد کرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آیاہے اس سے
غربت میں بستے ہوئے نچلے طبقات کو سانس لینا تومحال ہوچکاہے موجودہ
حکمرانوں کی 2018 کی انتخابی مہم میں لگائے گئے نعرے اور وعدے کہ اگر ہم
اقتدار میں آگئے تو قیمتیں 1999کی سطح پر لے آئیں گے۔اب اگرکانوں میں وہ
تقریرسنائی دیں تواپنے موبائل توڑنے کوجی کرتاہے حکمران خودفیصلہ کریں ان
سابق نعروں پر رتی برابر بھی عمل ہوا ؟ہرگز نہیں۔
|