(عثمانیوں کا ترکی)
600 سال تک امن، انصاف ، شانتی اور آفاقی نظام کا بول بالا کرنے والی سلطنت
عثمانیہ نے زمان و مکان کی حدود سے ماورا ھو کر ایک تہائی اقوام عالم
کیساتھ امن و سلامتی اور انصاف و مساوات کا برتاؤ کیا۔
زیر نظر تصویر ایشیا و یورپ کا عکس و نظارہ ھے جہاں بیٹھ کر آپ بیک وقت 2
براعظموں کو بیک جنبش دیکھ سکتے اور ڈھلتے سورج کی چلملاتی کرنوں کے دلنشیں
نظاروں سے محظوظ ھو سکتے ھیں۔
اس جگہ کو "چاملی جاہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ھے، یورپ و ایشیا کا سنگم
ھونا اپنی جگہ مسلم ، تاھم اس مقام کی ایک الگ تھلگ خصوصیت بھی ھے۔
یاد رھے کہ خلافت کے سقوط کے بعد مسلمانوں نے جہاں بہت کچھ انفرادی اور
اجتماعی طور پر کھو دیا تھا ، اقدار، اطوار، روایات ، آثار وغیرہ
وغیرہ۔۔۔۔وھیں سب سے بڑا جو مسئلہ سامنے آیا کہ کثیر تعداد میں مساجد کو
پہلے غیر آباد اور بعد میں تقریبا ختم کر دیا گیا۔
گرچہ مساجد کی زمین اور تفصیلات تو پٹوار خانے میں درج تھیں تاھم نام نہاد
سیکولرازم کے متوالوں نے ان مساجد اور خانقاھوں کو مقفل یا غیر آباد کرنے
کا کوئی بھی حربہ ہاتھ سے جانے نا دیا۔ نتیجہ یہ ھوا کہ ھر 10 میں سے
تقریبا 7 مسجدیں غیر آباد یا ویران ھو کر رہ گئیں۔
یہ سلسلہ کئی دھائیوں پر مشتمل ھے جو غیر عربی اذان، ویران مساجد اور
دوھائیاں دیتی خانقاھوں کے ابتلا کا زمانہ تھا، اھل مذھب اپنے ھی دیس میں
گویا مسافر و مہاجر سمجھے جاتے تھے ، رسم الخط کی تبدیلی سے ترک قوم اس قدر
ناآشنا ھوئی کہ قرآن و حدیث کی مبادیات پڑھنے اور سمجھنے تک سے محروم ھو
گئیں۔
بالآخر مشیت ایزدی نے اپنا فیصلہ بدلا اور ترک قوم کو سلیم الفطرت قیادت سے
نوازا گیا، گرچہ قیادت کا بدلاؤ اور اسکے پیچھے چھپی قربانیوں کی اک طویل
داستان الم ھے ، جسکی تفصیل پھر سہی ۔
آمدم بر سر مطلب۔۔۔۔۔۔ چاملی جاہ ایک پہاڑی نما ٹیلہ ھے جو یورپ و ایشیا کو
نا صرف آپس میں ملاتا ھے بلکہ اونچائی پر ھونے کی وجہ سے اس کے دلکش نظارے
اور 3000 سالہ تاریخ کی یادیں انسان کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کیلئے کافی
ھیں۔
بعینہہ اسی مقام پر ترکی کے صدر جناب Recep Tayyip Erdoğan نے 3 سال قبل
ترکی کی سب سے بڑی جامع مسجد کا افتتاح کیا جس کو "چاملی جاہ جامع" کے نام
سے یاد کیا جاتا ھے۔
ناچیز کو اس خوبصورت مسجد میں نماز عصر پڑھنے اور معائنہ کرنے کا موقع ملا،
ماشااللہ ماشااللہ کیا ھی خوبصورت انداز تعمیر ھے، گویا ترک قدیم معمار
سنان نے اپنی روایت اپنی قوم کے معماران میں بھرپور انداز سے منتقل کی ھے۔
یاد رہے۔۔۔۔۔۔۔ ترکی کی مساجد اور طرز تعمیر کا فلسفہ اصلا معمار سنان کے
مرھون منت ھے، جو اپنے فن اور اس خطے کے موسمی تغیرات سے بخوبی واقف تھے،
انہوں نے سینکڑوں سال قبل اس انداز مساجد کی تعمیرات کی بنیاد ڈالی کہ مکبر
یا لاؤڈ اسپیکر نا ھونے کے باوجود عبادت میں مشغول افراد کو امام کی آواز
اور تازہ ھوا کی آمد و رفت سمیت کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
چاملی جاہ جامع مسجد بھی بعینہہ اسی طرز تعمیر پر بنائی گئی ھے ، جہاں پر
خواتین کیلئے علیحدہ سے عبادت کا انتظام و انصرام بھی ھے۔
صفائی کا اھتمام اس قدر کہ یکبارگی دیکھنے پر بے ساختہ ماشااللہ کہے بغیر
رھا نا جائے۔
مسجد کے عقب میں وہ مشہور و سیاحتی ٹیلہ بھی ھے جس کے نام کیساتھ یہ مسجد
معنون ھے، ٹیلے پر بیٹھ کر یورپ و ایشیا کے دونوں اطراف کا نظارہ اور نظروں
کے سامنے آبنائے باسفورس کے رنگ بکھیرتے پانی ، اور پانیوں میں مرغابی کی
طرح تیرتی کشتیوں کا ماحول بھی انسان کی روح کو خوشگوار بنا دیتا ھے۔
اس مسجد کی تعمیر میں جناب صدر رجب طيب اردوغان کو بے تحاشا اندرونی و
بیرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ، تاھم اس اللہ کے بندے نے نا اپنوں کی
تنقید پہ کان دھرے اور نا ھی پرائیوں کی باتوں کو خاطر میں لایا، ملینز آف
ڈالر پہ محیط منصوبہ الحمد للہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
بیک وقت 50,000 سے زائد نمازی یہاں نماز ادا کر سکتے ھیں جس کا ثواب و سہرہ
مذھب پسند ترک ملت اور اسکی قیادت کو جاتا ھے۔
اللہ رب العزت امت کو مخلص اور بہادر قیادت نصیب فرمائے جو اپنی قوم ا امت
مسلمہ کیلئے پوری دنیا میں خیر و بھلائی کا ذریعہ بنے۔
|