صبح و شام اشیائے ضروریہ بالخصوص غذائی اجناس کی قیمتیں
بڑھ رہی ہیں۔ حکومت بڑھتی قیمتوں پر کنٹرول نہ کر سکی یا کرنا ہی نہیں
چاہتی۔ ایسا حکومت مافیاز کے نرغے میں ہے۔ جو گھی، آٹا، چینی، چاول جیسی
اشیائے خوردنی کی من مانی قیمتیں مقرر کر رہے ہیں۔ دنیا میں پٹرول کی قیمت
کم بھی ہو رہیہو تب بھی یہاں پٹرول ، ڈئزل اور تیل خاکی سمیت بجلی اور گیس
کی قیمتوں میں روایتی اضافہ ہوتا ہے۔ جب پٹرول، بجلی، گیس کی قمیت بڑھتی ہے
تو اس کا اثر ہر چیز پر ہوتا ہے۔ کبھی عمران خان یوں خود اعتراف کر رہے
تھے’’جب پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھ لو آپ کا وزیر اعظم
چور ہے۔‘‘
آج ہر روز ایسا ہو رہا ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔ پاکستانی روپے کی قیمت
کم ہو رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا مطلب ہے کہ بیرونی قرضے بھی تیزی سے
بڑھ رہے ہیں۔ جن کی ادائیگی ڈالرز میں کرنا ہے۔ 31مئی 2018کا دن مسلم لیگ
نواز کی حکومت کا آخری دن تھا۔ اس دن ڈالر کی قدر 115.61روپے تھی۔ آج
ڈالر170روپے کی بلند ترین حدیں پار کر رہا ہے۔11ستمبرکو پڑوس میں طالبان نے
حکومت پھر سنبھالی تو انھوں نے کہا کہ یہاں ڈالر کو مہنگا نہیں کرنا۔ دنیا
کو خوف ہے کہ طالبان کے پاس کھربوں ڈالرز مالیت کا سونا ،چاندی، معدنیات
ہیں، طالبان کے ہوتے ہوئے کوئی غیر ملکی اس دولت کو لوٹ نہیں سکتا۔ دنیا پر
تسلط قائم کرنے کے خواہاں ممالک قدرتی وسائل لوٹنے کے لئے حملے کرتے ہیں،
جنگیں لڑتے ہیں۔ دہشتگردی صرف ایک بہانا ہے۔ اس وقت افغانستان میں فی ڈالر
کی قدر 85افغانی روپے ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ڈالر کے
بجائے اپنی کرنسی میں تجارت کریں گے ۔ اس سے زر مبادلہ میں بچت ہو گی۔
2018میں پاکستانی زرمبادلہ کے زخائر18ارب ڈالر تھے۔آج تین سال بعد یہ20ارب
ڈالر ہو چکے ہیں۔ مگر ان تین سال میں اشیاء کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ
ہوا ہے۔جو20کلو آٹا تین سال پہلے730روپے میں دستیاب تھا، آج وہی 1050میں
ملتا ہے۔ تین سال پہلے55روپے کلو والی چینی آج 105روپے کی ہے۔ تین سال پہلے
گھی 130روپے کا تھا، آج وہی 310روپے کا ہے۔دال ، سبزی، مصالحہ جات ہر چیز
کی قیمت کو پر لگ گئے۔ عمران خان حکومت قیمتوں میں کمی تو دور کی بات ، ان
میں استحکام کی اصطلاح سے بھی بے خبر ہے۔
یوٹلی سٹورز پر عوام سبسڈی سے مستفید ہوتے ہیں ۔ اب ان سٹورز پر بھی اشیاء
کی قیمتیں روزانہ بڑھ رہی ہیں۔11ستمبر کوان سٹورز پر مہنگائی کا جیسے طوفان
آ گیا ہے۔ایک کلو گھی کی قیمت میں 96روپے اضافہ کیا گیا۔ سٹورز کے اپنا
برانڈز غائب کر دیئے گئے ہیں۔ آٹا چینی مہنگا کرنے کے بعد بھی غیر معیاری
فروخت کیا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ آٹا نما چینی کہاں سے درآمد کی گئی ہے۔
لوگ سستے کے چکر اور مجبوری میں ناقص اور غیر معیاری خوراک کھانے پر اکتفا
کر رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن اور مخالفین کو اس کا سب خراب لگتا
ہے۔ مگر یہ حقائق سے راہ فرار کا ایک بڑا اور آزمودہ فارمولہ ہے جسے ہر دور
میں آزمایا جا تا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ دو وقت کی دال روٹی کے چکر
میں سب کچھ بھول چکے ہیں۔ ہر کوئی نفسی نفسی کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر
کوئی زہنی مریض بنتا جا رہا ہے۔ جس کے پاس مال ہے وہ مزید لوٹ مارکرنے کے
داؤ لگاتا ہے۔ کورونا ایک بڑا بہانا بنا۔
لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر نکال لی۔وزیراعظم عمران خان نے کہا تعمیراتی
سرگرمیاں جاری رہیں تا کہ مزدور کی روزی روٹی چلتی رہے۔ مگر کمال یہ کیا کہ
سریا، سیمنٹ کی قیمت بڑھا دی۔ سریا کی قیمت میں ہزاروں روپے فی من کے حساب
سے اضافہ کیا گیا۔ سیمنٹ 200روپے فی بیگ مہنگی کی گئی۔ سریا، سیمنٹ بیچنے
والے دوکاندار رو رہے ہیں۔ روزانہ کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ پھر
فائدہ کسے پہنچایا گیا۔ یہ سٹیل اور سیمنٹ کی فیکٹریاں کن کی ہیں۔ جو بے
لگام ہو کر اور دیدہ دلیری سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ان فیکٹریوں کے مالکان
اورگھی ، چینی ملز کے ناخدا کون ہیں۔ انہیں اس قدر چھوٹ کیوں دی جا رہی ہے۔
انھوں نے کھربوں روپے عوام کی جیبوں سے لوٹ لئے۔ یہ سر عام ڈاکہ زنی ہے۔ یہ
لوگ اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ کوئی نیب، کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔
کوئی از خود نوٹس نہیں لیتا۔
آج مہنگائی کی سونامی چل پڑی ہے۔ کوئی اسے روک نہیں رہا۔ فرض کریں اگر
عمران خان ناتجربہ کار ہیں تو تجربہ کار بیروکریسی کہاں غائب ہو گئی ہے۔ اس
مہنگائی کی سونامیکے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں ہیں۔ انتظامیہ کہاں ہے۔ یہ
طوفان سے پہلے والی خاموشی بھی نہیں۔ عالمی مارکیٹ میں اگر خام تیل کی قیمت
75ڈالر فی بیرل تک پہنچی ہے تو پڑوسی ممالک میں پٹرول کی قیمتیں کیسے کم ہو
رہی ہیں۔یہاں عوام کو کس شعبہ میں ریلیف دیا گیا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بتا
دیں۔ یہ سب غریب سے نوالہ چھین لینے کے کرتب ہیں۔ آٹا مہنگا کیا گیا ہے تو
روٹی کی قیمت بھی بڑھا دی گئی اور اس کے وزن کو بھی بہت کم کر دیا گیا ہے۔
پہلے روٹی چھ روپے میں تھی ، وزن زیادہ تھا۔ اب یہی روٹی 10روپے کی ہے تو
وزن بھی کم ہے۔ جو کوئی پہلے دو روٹی کھاتا تھا، اب بھی وہ دو روٹی پر ہی
گزارہ کرتا ہے ۔ دام زیادہ دے کر بھی وزن کم ہے اور معیار ناقص ہے ۔ اس سے
بھوک بھی نہیں مٹتی، بلکہ بیماری لگتی ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے۔ وزیراعظم عمران
خان کے دور حکومت میں اس کی توقع نہ تھی۔ آپ کہتے ہیں تجربہ نہیں۔ ڈاکٹر
آپریشن کے لئے چوہوں پر تجربے کرتے ہیں۔ کیا آپ نے عوام کو چوہوں سے بھی
بدتر سمجھ لیا ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ گندم، گھی، چینی اور دالوں پر مخصوص
لوگوں کو رعایت دیں گے۔ آپ کے وہ مخصوص بھی ایک مافیا کی شکل میں نمودار
ہوں گے اور سب کچھ ہڑپ کر لیں گے۔ پھر آپ کو یہ اعتراف کرنا پرے گا کہ ہمیں
تو تجربہ ہی نہ تھا۔ ملک کو اس طرح کی تجربہ گاہ نہ بنائیں۔ مخلوق خدا کی
چیخ و پکار سنیں۔ ہم آئے روز سیاست کو ہی لتاڑتے ہیں کیوں کہ ان بنیادی
ایشوز پر بات ہو تو بگڑ جاتی ہے۔ مگر کچھ تو خیال کریں۔ ملک میں پیداوار
میں اضافے کے لئے زرعی اصلاحات بھی نہ کی جا سکیں۔ اس طرف توجہ ہی نہیں۔
مافیا قومی پیداوار بڑھانا ہی نہیں چاہتا۔ ملکی ضروریات کے مطابق پالیسی
بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ زراعت، لائیو سٹاک، صنعت، تجارت، کان کنی جیسے
سیکٹرز پر توجہ دینے کے بجائے صرف مخالفین کو نہ چھوڑیں گے، کی رٹ لگانے سے
ملکی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ کرپشن ختم کرتے کرتے یہ حکومت خود اس
میں پھنس جائے تو کیا ہو گا۔ کسی پر چوری داکی چابت ہو تو اسے پھانسی دیں
مگر اس کی آڑ میں عوام کو پھانسی پر نہ لٹکائیں۔
|