گزشتہ ہفتے وسیب کے مختلف شہر جئے بھٹو کے نعروں سے
گونجتے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے
جنوبی پنجاب کے سات روزہ دورے کے دوران ملتان ، ڈیرہ غازیخان ، لودھراں ،
کہروڑپکا ، میلسی سمیت مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں جلسوں ریلیوں سے خطاب کیا
اس دوران صحافیوں ، دانشوروں سمیت مختلف سیاسی سماجی شخصیات سے ملاقاتیں
کیں۔ بلاول کے وسیب کے دورے کا آخری جلسہ ضلع لیه کی تحصیل کروڑ لعل عیسن
میں تھا اس سے قبل ملتان سے براستہ ہیڈ محمّد والا لیه آتے ہوئے پٹھان ہوٹل
، چوک سرور شہید ، دھوری اڈہ ، چوک اعظم اور فتح پور میں بلاول بھٹو کا
شاندار استقبال کیا گیا جہاں مختلف مقامات پر بلاول نے استقبال کے لیے آنے
والے جیالوں سے مختصر خطابات کئے۔ کروڑ میں اس جلسے کا انعقاد معروف سیاسی
سیہڑ خاندان کی طرف کیا گیا تھا جہاں سابق ایم این اے سردار بہادر خان سیہڑ
نے باقاعدہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ سیہڑ خاندان کا
پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ درینہ تعلق ہے اسی خاندان کے بہرام خان سیہڑ
کو محترمہ بینظیر بھٹو نے بینکنگ کورٹ کا جج مقرر کیا تھا جبکہ ان کے بھائی
جہانگیر خان سیہڑ کو دو مرتبہ ایم این اے کا ٹکٹ دیا گیا۔ جبکہ یہ خاندان
مشرف دور میں مشرف با اقتدار ہونے کے لیے ق لیگ کو پیارا ہو گیا تھا جبکہ
2013 کے انتخابات میں سردار شہاب الدین خان سیہڑ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم
پی اے منتخب ہوئے اور پانچ سال پنجاب میں صوبائی پارلیمانی لیڈر رہے تاہم
2018 کے انتخابات سے قبل ہواؤں رخ دیکھ کر پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار
ہوگئے اب ایک بار پھر ان کا روحجان پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا۔ بلاول کے اس
دورے کے دوران لیه سٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے چوہدری اشفاق
احمد نے بھی پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا جبکہ اس سے قبل مختلف شہروں
میں غیر معروف سیاسی لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا
ایسی صورتحال میں کیا بلاول بھٹو کا جنوبی پنجاب کا دورہ کامیاب رہا یا
ناکام اور کیا دورے کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے یا نہیں۔۔؟
مگر اس سے بڑھ کر میرے لیے حیران کن پہلو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے نظریاتی
جیالے چند الیکٹیبلز کی شمولیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ گو کہ
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بد قسمتی سے وطن عزیز کی سیاست
الیکٹیبلز کے گرد گھومتی ہے اور الیکٹیبلز خاص اشاروں پر گھومتے ہیں۔ جنرل
مشرف نے سپریم کورٹ سے ملنے والے تین سال کے بعد قومی انتخابات کا اعلان
کیا تو راتوں رات جنم لینے والی مسّلم لیگ ق کچھ ایسی مقبول ہوئی کہ اس کا
ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا اور الیکٹیبلز اڑانیں بھر بھر کا ق
لیگ میں شامل ہونے لگے اور جو کمی رہ گئی تھی وہ الیکشن کے بعد پاکستان
پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا کر پوری کر لی گئی جس میں شامل پاکستان پیپلز
پارٹی پنجاب کے 12 سے 15 ایم این ایز نے اپنی جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے
مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ ق کی حمایت کی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال 2013 سے
2018 کے دوران پی ٹی آئی کی تھی ملک بھر سے تمام بڑی جماعتوں سے الیکٹیبلز
تھوک کے حساب سے تحریک انصاف میں شامل ہوتے رہے جبکہ وسیب کے روایتی
الیکٹیبلز بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے صوبہ محاذ کے نام سے گروپ
بنا پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر دی اور بعد ازاں باقاعدہ تحریک انصاف
میں انضمام کر لیا۔ گوکہ کسی بھی جماعت کو چھوڑنا یا کسی بھی جماعت میں
شامل ہونا ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے مگر مفادات کی خاطر پارٹیاں بدلنے
اور اپنے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے کسی بھی طور قابل اعتماد
نہیں ہوسکتے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کی خوشی دیکھ کر حیرت تو
بنتی ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی مدمقابل سیاسی جماعتوں کی نسبت ایک
نظریاتی جماعت ہے جس کا ووٹر آج بھی بھٹو کے نام پر ووٹ دیتا ہے یہ پیپلز
پارٹی ہی تھی جو بڑے بڑے جاگیر دروں کے مقابلے میں کبھی مولا داد خان اور
عبد الرحمان مانی جیسے مڈل کلاس اور سفید پوش لوگوں کو ٹکٹ دے کر نظریات کا
بھرم رکھا کرتی تھی۔ اور پھر پیٹریاٹ ، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف ہر
جماعت میں جانے والے الیکٹیبلز پی پی پی کی کوکھ سے جنم لیتے تھے اور آج پی
پی کے نظریاتی جیالے مفاد پرست الیکٹیبلز کی شمولیت پر سنبھالے نہیں سنبھل
رہے نہیں معلوم نظریات دفن ہوگئے ہیں یا پھر مصلحت آڑے آگئی ہے۔
بلاول کا دورہ اس حوالے سے تو خوش آئند ہے کہ انھوں نے جنوبی پنجاب کا دورہ
کر کے پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر فعال کر دیا اور وسیب کے جیالوں میں ایک
نئی روح پھونک دی لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس دورے کی بنیاد
پر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کوئی معرکہ مار لیں گے تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا
جس کا اندازہ ضمنی انتخابات کے بعد حالیہ دنوں میں ہونے والے کنٹونمنٹ
انتخابات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب
سے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکے اس کے باوجود اگر جنوبی کی قیادت یہ یقین دہانی
کرا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کایا پلٹ دیں گے تو یہ سب سے بڑا دھوکہ
ہوگا کیونکہ مقامی قیادت نے پارٹی کو ڈرائینگ رومز تک محدود کر دیا ہےجس کی
وجہ سے قیادت اور کارکنوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں اس کا ایک ثبوت یہ
ہے کہ کروڑ میں مقامی تنظیم کے بعض عہدیدار اور کارکن اندر جانے سے محروم
رہے۔
جہاں تک وسیب کا تعلق ہے اس خطے نے ہمیشہ پیپلز پارٹی سے محبت کی ہے پی پی
پی نے ہمیشہ سندھ کے بعد سب سے زیادہ سیٹیں جنوبی پنجاب سے حاصل کیں یہی
وجہ ہے محترمہ بینظیر بھٹو سرائیکی وسیب کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتی تھیں
مگر آج حالت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی یہاں سے الیکٹیبلز کی تلاش میں سرگرداں
ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ماضی میں سرائیکی صوبے
اور اس علاقے کے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرتی تو
آج اسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے یہ سبق موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی کہ سورج جب
غروب ہوتا ہے تو سب سے پہلے سایہ ساتھ چھوڑتا ہے اور اقتدار کا سورج غروب
ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ ساتھ چھوڑتے ہیں جو سائے کی طرح ساتھ ہوتے ہیں۔ |