اوے جاگیردارا ،،ڈائیلاگ بازی آخر کب تک!

 ڈائیلاگ بازی فلم میں ہو تو بھلی بھی لگے مگر حقیقی زندگی میں چہ معنی دارد،جھوٹ کی کتنی ہی ملمع کاری کیوں نہ کر لی جائے رہتا جھوٹ ہی ہے ، نتیجہ سواے شرمندگی و ندامت کے کچھ بھی نہیں ،یہ کہنا کہ جھوٹ اس تواتر سے بولو کہ سچ لگے بھلے وقتی طور پر ڈنگ ٹپانے کے کام آ ہی جائے مگر ملمع کاری اترتے دیر ہی کتنی لگتی ہے ،یہی کچھ اپنی تبدیلی کے ساتھ بھی ہوا ،پانامہ میں چار سو لوگوں کے نام تھے کوئی پوچھے باقی تین سو ننانوے کیا ہوئے کہاں گئے کسی کے پاس کوئی علم نہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں آنے کا راستہ بھی جدو جہد والا ہی چنا جاتا تو شاید آج والی حالت نہ ہوتی ،ستر سالوں کا گند والا راگ بھیرویں اپنی جگہ مگر واے حیرت کہ محض تین سال بعد ہی خلق خدا کی جان گلے تک آن پہنچی ،مخلوق کی دہائیاں اور بدعائیں کچھ تو رنگ لائیں گی خدارا وقت ہے سنبھل جائیں اورروٹی ،جی ہاں صرف روٹی کے چند نوالے آسان کر دیں ورنہ پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملنے والا ، اورکچھ نہیں توستر سال والوں سے ہی عبرت پکڑ لیں،زیادہ دور نہیں محض پانچ سات سال پہلے ملک میں جیسے تیسے ہی سہی ایک جمہور ی نظام چل رہا تھا پٹرول گیس اور دیگر ضروریات زندگی عوامی دسترس میں تھیں ،بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے تقریبا نجات مل چکی تھی اور گم چینجر منصوبہ سی پیک اپنی تعمیر کی طرف بھاگا جا رہا تھا کہ نجانے کہاں سے پانامہ آ نکلا پتہ چلا ملک عزیز کے چار سو لوگوں نے دنیا کے دور دراز ملک میں آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں مجھے یقین ہے اتنے شور شرابے اور سواستیاناس کے بعد آج بھی اس ملک کے ستانواے اٹھانوے فی صد عوام کو آف شور کمپنی کا مطلب بھی نہیں سمجھ آیا ہو گا،میڈیا جو عموما ایسی خبروں کی تاک میں رہتا ہے تاک تاک کر حکمرانوں کے نشانے لینے لگا ،(آج وہی میڈیا ایک بار پھر چیخ رہا ہے)پتہ لگا ملک کے منتخب وزیر اعظم نے بھی آف شور کمپنی بنا رکھی ہے معاملہ عدالت میں گیا پانامہ کی بجاے اقامہ سامنے آ گیا اور بیٹے کی کمپنی میں نوکری کی مگر تنخوا ہ کیوں نہیں لی ،صاحب بہادر کو معزز عدلیہ نے گھر کی راہ دکھائی ملک سیاسی بحران کاشکار ہو گیا ،دوسری طرف سے اوے جاگیردارا اوئے میں کسے نوں نہیں چھڈاں گا کی آواز لگی اس سے بہت پہلے دو چچا زاد بھائیوں نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا ،بڑا کزن پہلے نکلا اور چھوٹا بھائی اپنا جلوس لیکر بعد میں اس کے پیچھے پیچھے چلا راستے میں پتہ نہیں کیسے پتہ لگا کہ چھوٹے نے پہلے پہنچنا تھا بڑا اپنا جلوس لیکر پہلے کیوں نکل کھڑا ہوا ،لہٰذا فیصلہ ہوا کہ بڑا مندرہ کے مقام پر رک جائے گا اور چھوٹا پیچھے سے اپنا بڑا جلوس لیکر بڑے کے چھوٹے جلوس کو کراس کر جائے گا ،سو ایسا ہی ہوا بڑا مندرہ کے مقام پر رک گیااور چھوٹا سائیڈ سے نکل گیا اور پہلے جا کر ڈی چوک میں جا کر اپنا پڑاو ڈالیا،چھوٹا عوام کو حکمرانوں سے نجات دلانے میدان عمل میں نکلا تو بڑا سانحہ ماڈل ٹاون کے مظلوموں کو انصاف دلانے اورنہ ملنے پر شاہراہ دستو ر پر دفن ہونے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا ،دونوں برادر آگے پیچھے ڈی چوک پہنچے اور مل کر باہر آ او ے جاگیر دارا کی للکار لگانے شروع کر دی،ایک کچھ عرصے بعد کفن سر سے اتار کر گلے میں ڈال کر واپس سدھار گیاشاہراہ دستور پر کھودی گئی قبریں کسی جاگیردارا کی منتظر ہی رہ گئیں جبکہ دوسرا ایک سو چھبیس دن وہیں بیٹھا رہا،جب پنڈی کے شیخ کے بقول لندن پلان کیے گے یہ دونوں دھرنے کام نہ دکھا سکے تو کچھ اور سوچا گیا،پھر اچانک پانامہ سامنے آ گیا اور وزیر اعظم کو گھر جانا پڑ گیا اس کے بعد ایک طرف ماڈل ٹاون انصاف کی ڈیمانڈ جاری رہی تو دوسری طرف قوم کو بتایا گیا کہ کس طرح آپ کا پیسہ لوٹ کر باہر کے ملکوں میں بھیجا گیا اور غریب قوم کا دو سو ارب ڈالر باہر کے ملکوں میں پڑا ہے اور اقتدار میں آتے ہی نہ صرف وہ پیسہ واپس آئے گا بلکہ سارا قرضہ اتار کر سارے چور لٹیرے اندر کر دیے جائیں گے اور پھر اقتدار مل گیا ایک کزن جس نے ماڈل ٹاؤن کا انصاف اور حساب لینا تھا چپ کر کے پتلی گلی سے اپنے نئے ملک کینیڈا نکل گیا جبکہ دوسرے کے کندھوں پر وزارت عظمیٰ آن پڑی ،آتے ہی دو گاڑیاں اور دو ملازم ،وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی ،پروٹوکول کا خاتمہ وی آئی پی کلچر ختم اور نہ جانے کیا کیا سبز باغ کی بھرمار ،جبکہ عمل کسی ایک پر بھی نہیں ہوا جو کہا اسی پر یوٹرن لے لیا ساتھ ہی بتا یا کہ جو اپنی بات سے مکرے نہیں پھرے نہیں وہ تو عظیم لیڈر بن ہی نہیں سکتا،وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنتے بنتے رہ گیا پرانی گاڑیاں بیچ کے اس سے دو گنانئی منگوا لی گئیں چھوٹی کابینہ کی بجائے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنا لی ،سائیکل پر دفتر جانے کی بجائے ہیلی کاپٹر کو ہی سائیکل بنا لیا ،وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا ہوتا عام آدمی کو حسب معمول سابق حکمرانوں کی طرح کیڑے مکوڑے جتنی اہمیت دینا بھی مناسب نہ سمجھاگیا جبکہ پروٹوکول اور ڈر کا یہ عالم ہے کہ صاحب آج تک کسی عید بقرعید یا نمازہ جنازہ تک میں شریک نہیں ہوئے ،حکمرانی کا خاطر خواہ تجربہ نزدیک سے بھی نہیں گذرا تھا سو جتنا پرانا بچا کچھا مال تھا سارا اپنی پٹاری میں ڈال لیا اور حیرت کی بات یہ ہے وہ ان کے سامنے اور یہ ان کے سامنے روز کہتے ہیں پہلے والے چور تھے پہلے والے کھا گئے اور وہ پہلے والے سار ے دل ہی دل میں ہنس رہے ہوتے ہیں ،حکومت میں آئے تین سال ہونے کو ہیں آج بھی روزانہ دن میں تین بارزرداری اور چار بار نواز شریف کو یاد کرتے ہیں ،کسی جلسہ میں ہوں ٹی وی پر یا بیرون ملک تقریر نواز زرداری سے شروع ہو کرانہی پر ختم ،کم از کم اس میں ہی جدت پیدا کر لیتے تو بات تھی ،روز میں این آر او نہیں دوں گا نہیں چھوڑوں گا وہی جاگیردارا والے ڈائیلاگ اور جب چھوڑنے پر آئے تو پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر جا بھائی جا ،یقین کریں پچاس کے اسٹامپ پیپر پر گلی محلے میں بیٹھا دکاندار سائیکل کرائے پر نہیں دیتا ،جب وہ چلے گئے اور واپس نہیں آتے تو ان کا گارنٹر تو یہیں گھوم رہا کیوں نہیں پکڑ رہے مگر شاید آپ بھی اس اوئے جاگیردار ا میں اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنے ماڈل ٹاون والے آپ کے برادر بزرگ،چلیں ہوسکتا ہے اندرون خانہ کچھ مجبوریاں ہوں مگر خدارا ایک جاگیر دارا کی آواز پٹرول چینی آٹا گھی اور ڈالر مافیا کو بھی لگائیں کہ غریب آدمی کو اب جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ،بہت ہو گیا آپ کا احتساب بہت ہو گئی قرض کی واپسی ،بہت ہوگئی کرپشن ختم اور بہت مل چکی چوروں کو سزا،نیا پاکستان بھی بن چکا اور تبدیلی بھی آ چکی اب خدارا بس کر دیں اور کچھ تھوڑا بہت اس قوم کو گھبرانے کی اجازت دے دیں کیوں آپ ہر پندرہ بیس دن بعد آ کر نصیحت فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے ،لیکن کام اب گھبرانے سے آگے نکل چکا ہے کوئی بچا تو گھبرائے گا یہاں تو یہ ہوا قوم کے ساتھ کہ غضب کیا جو تیرے وعدے پر اعتبار کیا غریب بندہ اور دیاڑی دار بلکہ مڈل کلاس طبقہ بھی اب تو حیران و پریشان ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا دکھائی سجی اور لگائی کھبی گئی لیکن اس سب میں نقصان آپ کا بھی کم نہیں ہوا کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن کا نتیجہ سامنے اگر کچھ شک ہے تو بلدیات کاڈول ڈال کر دیکھ لیں نتائج طبیعت صاف کر دیں گے اب بات کارکردگی پہ منتج ہو گی اور کچھ نہ کچھ تو دکھانا ہی پڑے گی صرف اوے میں کسے نوں نہیں چھڈاں گا کسی کو این اار او نہیں دوں گا سے کام شاید نہیں چلنے والا کیوں کہ ڈائیلاگ بازی فلم میں ہو تو بھلی بھی لگے مگر حقیقی زندگی میں چہ معنی دارد،جھوٹ کی کتنی ہی ملمع کاری کیوں نہ کر لی جائے رہتا جھوٹ ہی ہے ، نتیجہ سواے شرمندگی و ندامت کے کچھ بھی نہیں ،یہ کہنا کہ جھوٹ اس تواتر سے بولو کہ سچ لگے بھلے وقتی طور پر ڈنگ ٹپانے کے کام آ ہی جائے مگر ملمع کاری اترتے دیر ہی کتنی لگتی ہے ،یہی کچھ اپنی تبدیلی کے ساتھ بھی ہوا ،پانامہ میں چار سو لوگوں کے نام تھے کوئی پوچھے باقی تین سو ننانوے کیا ہوئے کہاں گئے کسی کے پاس کوئی علم نہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں آنے کا راستہ بھی جدو جہد والا ہی چنا جاتا تو شاید آج والی حالت نہ ہوتی ،ستر سالوں کا گند والا راگ بھیرویں اپنی جگہ مگر واے حیرت کہ محض تین سال بعد ہی خلق خدا کی جان گلے تک آن پہنچی ،مخلوق کی دہائیاں اور بدعائیں کچھ تو رنگ لائیں گی خدارا وقت ہے سنبھل جائیں اورروٹی ،جی ہاں صرف روٹی کے چند نوالے آسان کر دیں ورنہ پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملنے والا ، اورکچھ نہیں توستر سال والوں سے ہی عبرت پکڑ لیں،،،،،،،