پاکستان اور طالبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی
بعض مغربی میڈیا کی جانب سے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان
نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلہ میں تین شرائط رکھی ہیں جن میں سب
سے پہلی شرط مخلوط حکومت یعنی افغانستان میں موجود تمام طبقات کو حکومت میں
نمائندگی دی جائے،دوسری شرط یہ کہ انسانی حقوق کا لحاظ یعنی انسانی حقوق کے
احترام کی یقین دہانی کرائیں، اور تیسری شرط یہ کہ افغانستان کو ایسے دہشت
گردوں کو پناہ دینے کے لئے استعمال نہ کیاجائے جو پاکستان کی سلامتی کے لئے
خطرہ بن سکتے ہیں۔ بی بی سی نمائندہ جان سمپسن جنہوں نے وزیراعظم عمران خان
سے سوال کئے تھے نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا آپ ان تین شرائط کی تکمیل
پر طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں گے ؟ جس پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان
دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر اس بات پر فیصلہ کرے گا کہ طالبان حکومت کو
باضابطہ طور پر تسلیم کیاجائے یا نہیں۔انہوں نے کہاکہ تمام پڑوسی اکھٹے
ہونگے اور دیکھیں گے کہ وہ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔اس طرح وزیر اعظم کا کہنا
تھا کہ انہیں تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ ایک اجتماعی فیصلہ ہوگا۔پاکستانی
وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا غیر
اسلامی ہوگا۔ وزیر اعظم نے اپنے اس خیال کا اظہار کیاکہ طالبان خواتین و
لڑکیوں کو اسکولوں میں جانے کی اجازت دے دینگے۔ یہاں یہ بات واضح رہیکہ
طالبان کی قیادت کا مؤقف ہیکہ خواتین کے حقوق کا احترام اسلامی قانون کے
دائرے میں کیا جائے گا۔ عمران خان بی بی سی نمائندہ جان سمپسن کو دیئے گئے
انٹرویو میں کہا کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد جو بیانات دیئے ہیں وہ
بہت حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں نے کہا جیسا کہ طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان
میں 40سال کے بعد پہلی مرتبہ امن قائم ہوسکتا ہے جس کے لئے ہم امید اور دعا
کرسکتے ہیں کہ آخر کار 40برس بعد افغانستان کے عوام کو امن اور استحکام ملے
گا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان کو وقت دیا جانا چاہیے تاکہ وہ افغانستان
کی صورتحال کو بدل سکیں۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان کس سمت جائے گا یہ
تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن انہو ں نے کہا کہ ’’میری سب سے بڑی پریشانی
اس وقت سر پر کھڑا انسانی بحران ہے ، کیونکہ آپ کو یاد ہے نہ افغانستان کا
75فیصد بجٹ غیر ملکی امداد ہے، اس لئے جب آپ غیر ملکی امداد نکادینگے تو ان
کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہوگا‘‘۔وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان اپنی کی گئی
باتوں پر قائم رہتے ہیں تو یہ ایک نیا آغاز ہوگا۔ عمران خان نے طالبان سے
مطالبہ کیاکہ طالبان حکومت میں دیگر طبقات کی شمولیت کو عملی شکل دیں اگر
ایسا نہ ہوا تو انہیں خدشہ ہے کہ ملک میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے ۔ واضح رہیکہ
گذشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے اشیاء خوردو نوش اور ادویات وغیرہ سے لدے
ہوئے امدادی ٹرکس جس پر پاکستانی پرچم لگا ہوا تھا افغانستان کی سرحد میں
طالبان کی سیکیوریٹی میں داخل ہوئے ۔ اس کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر ایک
ویڈیو کلپ گردیش کرنے لگی کہ ان ٹرکس پر جوپاکستانی پرچم لہرارہا تھا اسے
طالبان نے نکال دیا ۔ اس کی اطلاع جب طالبان اعلیٰ قیادت تک پہنچی تو فوراً
پاکستان سے معافی مانگی گئی اور پرچم نکالنے والے ذمہ داروں کے خلاف سخت
کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات طالبان قیادت کیلئے نہیں
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بگاڑسکتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کا دورِ اقتدار عالمی سطح پر نگاہوں کا محور بنا ہوا
ہے۔بیس سالہ ناکام جنگ سے لوٹتے ہوئے بھی امریکہ نے افغانستان کو معاشی
اعتبار سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ
ہوچکاہے پنجشیر میں احمد مسعود اور سابق نائب صدر امراﷲ صالح نے جس طرح
طالبان سے آخر دم تک لڑنے کا دعویٰ کیا تھا وہ ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق بتایا جاتاہے کہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ
نے انکشاف کیا ہیکہ احمد مسعود کو طالبان نے گرفتار کرکے مہمان قیدی بناکر
رکھا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ طالبان کی اعلیٰ قیادت اپنے حریفوں کے ساتھ معافی
کا اعلان کرچکی ہے اس پر کس حد تک عمل پیرا رہینگے۰۰۰طالبان کے وزیر دفاع
اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے فرزند ملا محمد یعقوب نے تسلیم
کیا ہیکہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے بعض
شہریوں کے ’’انتقامی قتل‘‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ملا یعقوب نے کہا کہ’
اسلامی امارات نے تمام فوجیوں، بدترین مخالفین، ہمیں شہید اور ہراساں کرنے
والے لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور مجاہدین میں کسی کو بھی یہ
حق نہیں کہ اس کی خلاف ورزی کریں اور انتقامی کارروائی کریں‘۔ذرائع ابلاغ
کے مطابق اس 15منٹ کی آڈیو کلپ میں ملا محمد یعقوب نے طالبان جنگجوؤں سے
کہا ہیکہ’ وہ طالبان قیادت سے وفاداری دکھائیں۔ اگر کوئی اپنے چھوٹے سے ذہن
میں کسی خیال کی بنا پر اسلامی امارات کے نظام کی پالیسی کو رد کرتا ہے تو
درحقیقت یہ شخص اس نظام یا اس کے مقاصد کا وفادار نہیں‘۔اب دیکھنا ہیکہ
افغان وزیر دفاع ملا محمدیعقوب کی جانب سے سامنے آنے والے اس بیان کے بعد
طالبان قیادت ان واقعات میں ملوث طالبان جنگجوؤں کے خلاف کیا کارروائی کرتی
ہے۔؟
سہیل شاہین اقوام متحدہ کیلئے افغانستان کے سفیر افغانستان کی طالبان حکومت
نے طالبان کے دوحہ میں مقیم ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کیلئے
افغانستان کا سفیر نامزد کیا ہے۔21؍ ستمبر منگل کو اقوام متحدہ کے اجلاس
میں قطر نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات قائم
رکھیں۔ قطر کے حکمران شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ ان کا بائیکاٹ صرف
تقسیم اور رد عمل کا باعث بنے گا جبکہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی
ہے۔واضح رہیکہ قطر افغانستان کے معاملے میں ایک اہم مصالحت کار کا کردار
ادا کرتا رہا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنے
والا ملک قطر طالبان حکومت کو معاشی حیثیت سے مستحکم کرنے کے لئے کوشاں ہے
کیونکہ افغانستان کے حالات انتہائی خراب ہے، بیس سالہ دور میں کروڑوں ڈالرس
کے خرچے کے باوجود افغان شہریوں کے لئے امریکہ نے کوئی ایسا معاشی ترقی و
خوشحالی کا کام انجام نہیں دیابلکہ جاتے جاتے طالبان کے قبضے کو لے کر
افغانستان کے کروڑہا ڈالرس منجمد کردیئے۔افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی
امیر خان متقی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریس کو مکتوب
لکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع دینے کا مطالبہ کیا
۔ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کی اقوام متحدہ کی نشست کے لئے درخواست
9رکنی کمیٹی کو بھیجی گئی ہے ، اس کمیٹی میں امریکہ، چین ، روس، بہاماس،
بھوٹان، چلی، نامیبیا، سیرالیون اورسویڈن شامل ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس پیر27؍ ستمبر کو ختم ہوجائے گا۔ اس
طرح طالبان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کو اقوام متحدہ سے خطاب کرنا
ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کے سفیر کی
حیثیت سہیل شاہین کو قبول کرلیا جاتا ہے تو یہ ایک اہم پیشرفت ہوگی اور اس
کے بعد عالمی سطح پر طالبان کی حکومت کوتسلیم کرنے کے لئے کئی ممالک آگے
آسکتے ہیں اور فنڈز ملنے کے امکانات روشن ہونگے۔البتہ عالمی سطح پر طالبان
سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہیکہ حکومت میں افغانستان کے دیگر قبائل و طبقات
کو بھی شامل کیا جائے خاص طور پر خواتین کے حقوق اور انکی حکومت میں شمولیت
پر بھی کہا جاسکتا ہے ۔
کیاجوبائیڈن کا عالمی سطح پر قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔؟
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیام ِ امن کے لئے ضروری ہیکہ فلسطین کو
ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اقوام
متحد جنرل اسمبلی سے بطور امریکی صدر اپنے پہلے خطاب میں ان خیالات کا
اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ محفوظ اسرائیل کیلئے فلسطینی ریاست کا قیام
ضروری ہے، افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ سفارتکاری کا نیا دور شروع
کررہا ہے، امریکہ کوئی نئی سرد جنگ نہیں چاہتا۔جوبائیڈن نے کہا کہ ایک خود
مختار اور جمہوری فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے مستقبل کو محفوظ کرنے
کا بہترین طریقہ ہے۔ ہمیں مشرقِ وسطیٰ کے تمام لوگوں کیلئے امن اور
سیکیورٹی والا مستقبل تشکیل دینا ہوگا، امریکہ کے اسرائیل کی سلامتی کیلئے
عزم پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، ہم آزاد یہودی ریاست کے قیام کے حامی
ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے بطور جمہوری یہودی ریاست مستقبل کو محفوظ
بنانے کیلئے ضروری ہے کہ دو ریاستی حل کیا جائے، ہم اس مقصد سے بہت دور ہیں
لیکن ہمیں بہتری کی امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔جوبائیڈن نے چین کا نام لیے
بغیر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایک نئی
سرد جنگ شروع ہو یا دنیا بلاکس میں تقسیم ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ وہ اس بات
پر یقین رکھتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی بھلائی کرنی ہے تو پھر باقی دنیا کے
ساتھ گہرے تعلقات رکھنے ہونگے، ہم نے افغانستان میں 20 سالہ تنازعے کو ختم
کیا ہے۔ اس بے نتیجہ جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہم سفارتکاری کا دور شروع کرنے
جا رہے ہیں جو دنیا بھر کے لوگوں کو سرمایہ کاری کے ذریعے اوپر اٹھائے
گی۔امریکی صدر جوبائیڈن نے جس طرح اپنے خطاب اور افغانستان سے امریکی افواج
کا انخلا عمل میں لایا ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر خون
خرابہ نہیں چاہتے لیکن کیا امریکی صدر جوبائیڈن عالمی سطح پر قیامِ امن کا
خواب شرمندہ تعبیر ہوگا؟
سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ہند ۰۰۰
ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے
کیلئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان دو روزہ دورے پر ہندوستان آئے
ہوئے تھے جن کا استقبال دہلی میں سعودی عرب میں متعین سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف
سعید اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے کیا۔ اس موقع پر 20؍ ستمبر کو وزیر خارجہ
شہزادہ فیصل بن فرحان اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان بات
چیت ہوئی۔اس ملاقات کو ماہرین دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کیلئے
ایک اہم پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے
بعد کئی ممالک کے درمیان تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں۔کورونا وبا کی
وجہ سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان کو عالمی سطح پر الگ کردیا گیا
ہے۔ ہندوستان میں اس سال کے آغاز کے بعد جن حالات کا سامنا رہا ہے اسے دنیا
جانتی ہے ۔اپریل اور مئی میں کووڈ۔19کے پھیلاؤ اور پھر آکسیجن کی کمی کی
وجہ سے ہندوستان کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوچکی تھی ان حالات میں سعودی
عرب نے ہندوستان کو 140ٹن سے زائدطبی آکسیجن فراہم کرکے اہم رول ادا کیا
۔واضح رہیکہ 2019میں دونوں ممالک نے 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ہدف کا
عزم کیا تھا لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ چند برسوں کا سرسری جائزہ لیا
جائے تو ہندوستان میں سعودی سرمایہ کاری 2014میں 50ملین ڈالر تھی اور آج
تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ 2019کے ہدف سے بہت دور ہے۔ سب سے
اہم مسئلہ سعودی عرب میں ہندوستانیوں کی بیروزگاری کا ہے۔ سعودائزیشن کی
وجہ سے لاکھوں تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کردیا جارہا ہے کیونکہ
سعودی عرب میں ویژن 2030کے تحت مرد وخواتین کو کئی مراعات کے ساتھ روزگار
سے مربوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہند،سعودی وزرائے خارجہ کے درمیان
ملاقات مثبت بتائی جارہی ہے ۔ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس
ملاقات کو خوشگوار اور نتیجہ خیز قرار دیا۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک
بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں عہدیداروں نے اکتوبر 2019 میں مودی کے دورہ
سعودی عرب کے دوران دستخط کیے گئے سٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل معاہدے پر عمل
درآمد کا جائزہ لیا اور وبائی امراض سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے’مل
کر کام کرنے‘ پر اتفاق کیا۔ شہزادہ فیصل نے کہا کہ وبا کی وجہ سے درپیش
’چیلنجز‘ کے باوجود انڈیا سعودی عرب کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا
ہے۔وزیر خارجہ ہندمسٹرجے شنکر نے سعودی عرب کیلئے براہ راست پروازوں کی جلد
بحالی پر زور دیا جبکہ دونوں ممالک نے کووڈ 19 سے متعلق تمام چیلنجز پر مل
کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سعودی وزیر
خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ہندوپاک کے درمیان ثالثی کا رول ادا کرنے کا
عندیہ دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ہندوپاک کی جانب سے کوئی اہم جواب منظر عام پر
نہیں آیا۔
****
|