کشمیر کے حالیہ انتخابات نے اپو
زیشن کو حواس باختہ کر دیا ہے ۔ ایک ایسا صدر ِ مملکت جسے اپوزیشن،
میڈیا،چند مخصوص اینکرز اور سروے ٹیمیں پاکستان کا انتہائی غیر مقبول صدر
کہہ کر پیش کر رہی تھیں، اسی صدر کے ہاتھوں اپوزیشن کو ذلت آمیز شکست کا
زخم سہنا پڑا ہے۔ زخم بھی ایسا گہرا جس کی ٹیسیں ٹھہر ٹھہر کر اٹھتی ہیں
اور ان کے جسمِ ناتواں کو ناقابلِ برداشت کرب کے حوالے کر دیتی ہیں۔ان کے
وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدم موجودگی میں
آصف علی زرداری کی زیرِ قیادت پی پی پی اتنی شاندار فتح سے ہمکنار ہو
گی۔مسلم لیگ (ن ) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے جس بے جگری اور جوش و
جزبہ سے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم چلائی تھی اس سے میاں صاحب کو امیدِ
واثق تھی کہ مسلم لیگ (ن) پی پی پی کو چاروں شانے چت کر دے گی لیکن جسطرح
کے نتائج سامنے آئے اور میاں صاحب کی بھڑکوں کا جو انجام ہوا وہ سب کے
سامنے ہے۔شیر کی کھال پہن لینے سے کوئی شیر تھوڑا بن جاتا ہے۔سوال یہ نہیں
کہ پی پی پی آزاد کشمیر کے انتخابات میں سرخرو ہو کر نکلی ہے بلکہ اہم بات
یہ ہے کہ پنجاب جہاں پر مسلم لیگ کی حکومت ہے وہاں پر بھی پی پی پی کے
حمائت یافتہ امید وار کامیاب ہو ئے ہیں۔ خادمِ پنجاب میاں محمد شہباز شریف
کے ہو تے ہو ئے کس میں اتنی مجال ہے کہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف
دھاندلی کا تصور کر سکے۔ وہ لوگ جن کی اپنی ساری زندگی دھاندلیوں کے عالمی
ریکارڈ بناتے ہو ئے گزری ہے ان کے خلاف کم از کم دھاندلی کا تصور نہیں کیا
جا سکتا۔ ہاں اگر کسی دوسرے صوبے میں جہاں پر پی پی پی کی حکومتیں ہیں وہاں
پر اس قسم کا الزام لگایا جا سکتا تھا کہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ نے انتظامیہ
کا سہارا لیا ہے اور الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو نے کی کوشش کی ہے
لیکن وہ صوبہ جو سالہا سال سے میاں برادران کی غلامی میں ہے وہاں پر مسلم
لیگ (ن) کو شکست دینے کے معنی یہ ہیں کہ میاں برادران کا کا م تمام ہو چکا
ہے اور اب وہ انتقام پر اتر آئے ہیں اور پوری سیاسی بساط کو لپیٹ دینے کی
سازشوں میں مشغول ہو گئے ہیں۔انھوں نے اصول پسندی کا جو ڈھونگ رچایا ہوا
تھا اس کو پول کھل گیا ہے اور ان کی جمہوریت پسندی کی ملمع سازی سب پر
آشکار ہو گئی ہے۔۔
آزاد کشمیر میں کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کی حکومت تھی جس کے وزیرِ
اعظم سردار عتیق تھے اور ساری انتظامیہ سردار عتیق کے حکم کے تابع تھی لہذا
دھاندلی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ۳۱۰۲ کے انتخابا ت میں جب صدرِ پاکستان
آصف علی زرداری عام انتخا بات کے لئے نگران حکومتیں تشکیل دیں گے تو پھر
اپوزیشن کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہو گا ۔ وہ تو آصف علی زرداری کے خوف سے
الیکشن سے پہلے ہی آدھی مر جائیگی کیو نکہ اس وقت سارے انتظامی امور پی پی
پی کے پاس ہو ں گے اور آصف علی زرداری کی انتخابی حکمتِ عملی اور انتظامی
صلاحیتوں کی دنیا معترف ہے تبھی تو اس نے اپوزیشن کے چھکے چھڑا دئے ہیں ۔
موجودہ اپوزیشن جو اپنی حکومتوں کی موجودگی میں دھاندلی کے الزامات لگانے
سے باز نہیں آرہی وہ صدرِ پاکستان کی تشکیل کردہ نگران حکومتوں کے خلاف کون
کون سے الزامات نہیں لگائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ جب بھی پی پی پی انتخابات
جیتتی ہے تو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دھاندلی کا شور مچا دیا جاتا ہے
اور پی پی پی کی فتح کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئیے کھلے دل سے
اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں کہ پاکستان کے مختلف انتخابات میں پی پی
پی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے کیا کرتی آئی ہے۔۔۔
۷۷۹۱ کے انتخابات واحد انتخابات تھے جو پی پی پی کی نگرانی میں ہوئے لیکن
ان انتخابات میں پی پی پی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔پی پی پی کی جمہوری
حکومت کے خلاف فوج سے سازش کر کے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا
گیا اور آج کے سارے جمہوریت پسند اور جمہوریت کا رونا رونے والے سیاست دان
جنرل ضیاا لحق کی مارشل لائی حکومت کا حصے بنے۔ ۸۸۹۱ کے انتخابات جنرل ضیا
لحق کی باقیات کی زیرِ نگرانی ہو ئے اور ا نہی انتخا بات میں جنرل مرزا
اسلم بیگ ، جنرل حمید گل اور دوسرے بہت سے ضیائی مافیا جر نیلوں نے پی پی
پی کا راستہ روکنے کےلئے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیااور قومی خزانے سے
بھٹو مخالف سیاستدانوں کو فنڈز سے نوازا تا کہ وہ مل کر پی پی پی کا راستہ
روک سکیں۔ ریٹارڈ ائر مارشل خان نے ایجنسیوں کے اس بیہمانہ کردار کے خلاف
ایک پٹیشن دائر کررکھی ہے جس کی آج تک شنوائی نہں ہو ئی ۔ مو جودہ چیف جسٹس
جو سوموٹو ایکشن لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اس پٹیشن کی شنوائی کے با
رے میں بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ٹیلیو یژن، اخبارات رسائل اور
دوسرے بہت سے ذرائع کے ذریعے سے اس پٹیشن کو سننے کےلئے سپرہم کورٹ کو یاد
دہانی کروائی جاتی رہتی ہے لیکن عدالت ٹس سے مس نہیں ہو تی کیونکہ کچھ خفیہ
ہاتھ اس پٹیشن سنے جانے کے حق میں نہیں ہیں اور عدالت انھیں ناراض نہیں کر
سکتی۔
۰۹۹۱ کے انتخابات ایک دفعہ پھر جنرل ضیا لحق کی باقیات کی زیرِ نگرانی ہو
ئے اور اس میں پی پی پی کو ہاتھ باندھ کر ہروایا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان
نے پی پی پی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برخاست کیا اور پھر جنرل
اسلم بیگ، آئی ایس آئی، اسٹیبلشمنٹ اور غلام اسحاق خان نے اسلامی جمہوری
اتحاد کی جیت میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیرِ
اعظم بنے اور پی پی پی کے خلاف ریاسی غنڈہ گردی کا نیا دور شروع ہوا۔ اس ا
نتخاب میں پی پی پی کے حصے میں صرف ۵۴ سیٹیں آئیں لیکن پی پی پی نے پھر بھی
ان نتائج کو قبول کیا اور اسمبلیوں میں اپنا رول ادا کیا۔ کچھ مہینوں نے
بعد نئے آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی کے معاملے پر میاں محمد نواز شریف اور
غلام ا سحاق خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جسکی وجہ سے حکومتی نظام
مفلوج ہو کر رہ گیا۔صدرِ پاکستان غلام ا سحاق خان نے اپنے صوابدیدی
اختیارات کا تحت عبدالوحید کاکڑ کو نیا آرمی چیف نامزد کر دیا جو میاں محمد
نواز شریف کو قبول نہیں تھا لہذا اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوگئی۔ صدرِ
پاکستان غلام ا سحاق خان نے ۸۵ (۲ بی ) کے تحت میاں محمد نواز شریف کی
حکومت کو برخاست کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی حکومت کو بحال کر
کے نئے بحران کو جنم دے دیا۔نئے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑکی مداخلت سے میاں
محمد نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو اپنے اپنے عہدو ںسے مستعفی ہونا
پڑا۔نئے انتخابات کےلئے معین قریشی نگران وزیرِاعظم مقررہوئے اور انکی سر
براہی میں ۳۹۹۱ کے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جسے پی پی پی نے با آسانی جیت
لیا، لیکن ایک سازش کے تحت ایک دفہ پھر پنجاب پی پی پی کے حوالے نہ کیا
گیا۔اسی منتخب شدہ اسمبلی سے پی پی پی نے فاروق احمد لغاری کو صدارتی امید
وار بنا کر ایوانِ صدارت میں بٹھا یا لیکن اس نے پی پی پی سے جس طرح بے
وفائی کی اس کی مثال شائد پاکستان کی تاریخ مین ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔
صدرِ پاکستان فاروق احمد لغاری نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کے نتیجے
میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برخاست کر کے
آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا اور یوں جو نگران حکومتیں تشکیل دی گئیں
ان کا واحد مقصد پی پی پی کا صفایا کرنا قرار پایا۔ ۔
۷۹۹۱ کے انتخابات ایسے انتخابات تھے جس میںبھٹو خاندان کا پاکستانی سیاست
سے مکمل اخراج کا فیصلہ کیا گیا ۔ صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری اور
میاں محمد نواز شریف کے درمیان ا یک خفیہ معاہدہ طے پایا جسکی روح سے
محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیاست سے نا اہل قرار دے دیا جائے گا اور محترمہ بے
نظیر بھٹو کی جگہ صدرِ پاکستان فاروق احمد لغاری پی پی پی کی قیادت سنبھا
لیں گے اور یوں اقتدار ہمیشہ کےلئے بھٹو خاندان کے ہاتھوں سے نکل جائےگا
اور میاں محمد نواز شریف بلا شرکتِ غیرے سیاہ و سفید کے مالک بن
جائینگے۔اسی سازش کو سامنے رکھتے ہوئے ستمبر ۶۹۹۱ میں میر مرتضی بھٹو کا دن
دھاڑے قتل کیا گیا اور نومبر ۶۹۹۱ کو اسی واقعے کو بنیاد بنا کر پی پی پی
کی حکومت توڑ دی گئی۔ ملک معراج خالد کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کیا گیا
اور یہی وہ انتخابات ہیں جس میں میاں صاحب کو ہیوی مینڈیٹ سے نوازا گیا۔
میڈیا پر وہ وہ کہانیاں چلا ئی گئیں کہ انسان دنگ رہ جائے۔پی پی پی نے اس
الیکشن میں صرف ۷۱ نشستیں حا صل کیں اور یوں وفاق کی علامت پی پی پی پی کو
سندھ تک محدود کر کے رکھ دیا گیا۔ یہی وہ الیکشن ہیں جن کے بعد پی پی پی کی
قیادت کا سب سے کڑا امتحان شروع ہوا۔ خفیہ معاہدے کو روبعمل لانے کےلئے سیف
ا لرحمان نے مقامی عدالتوں اور سوٹزر لینڈ میں آصف علی زرداری اور محترمہ
بے نظیر بھٹو کے خلاف مختلف نوع کے بے شمار جھوٹے مقدمات دائر کر دئے تا کہ
پی پی پی کی قیادت کو نا اہل قرار دے کر پی پی پی صدرِ پاکستان سردار فاروق
احمد لغاری کے حوالے کر دی جائے۔ اقتدار کی سازشوں کی انتہا تو دیکھئے کہ
وہی فاروق احمد لغاری جس کےلئے پی پی پی نے دن رات ایک کر کے اسے مسندِ
صدارت پر فائز کیا اسی نے پی پی پی کی شریک چیر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو
کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے ایسے طوفانوں کے حوالے کیا جس سے وہ جانبر
نہ ہو سکی۔یہ وہی سازش ہے جس میں آصف علی زرداری کو اپنی زندگی کے ساڑھے نو
سال لگاتار جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھگتنے پڑے۔
میاں محمد نواز شریف اور صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری کے درمیان
باہمی گٹھ جوڑ کے معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہو ئی تھی کہ دونوں میں
شدید اختلافات شروع ہو گئے۔ صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری اس زعمِ
باطل میں تھے کہ میاں محمد نواز شریف کا ہیوی مینڈیٹ میری کاوشوں کا نتیجہ
ہے جبکہ میاں محمد نواز شریف اس زعمِ باطل کا شکار تھے کہ قوم نے مجھ پر
اعتماد کیا ہے لہذ میاں صاحب نے ۳۷۹۱ کے آئین میں کی گئی تمام جرنیلی
ترامیم کو ۴۱ ویں آئینی ترمیم سے ختم کردیا جسمیں پی پی پی نے میاں صاحب کا
ساتھ دیا ۔صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری اس آئینی ترمیم کو اپنی
سیاسی موت تصور کرتے تھے لہذا اسوقت کے چیف جسٹس سید سجاد احمد شاہ کے
ذریعے نیا سازشی کھیل شروع کیا گیا اور منصوبہ یہ بنا یا گیا کہ آئین میں
کی گئی ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دےکر ۸۵ (۲ب) کو آئین کا حصہ بنا دیا
جائےگا اورپھر ٓصدر لغاری میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو برخاست کر دینگے
۔ جس دن چیف جسٹس سید سجاد احمد شاہ یہ فیصلہ سنانے والے تھے میاں برادران
نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا اور چیف جسٹس سید سجاد احمد شاہ کو بھاگ کر
اپنے چیمبر میں جان بچانی پڑی ۔ اس کے بعد میاں برادراں نے چیف جسٹس سید
سجاد احمد شاہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ماتحت ججوں سے ایک بغاوت برپا کر کے
چیف جسٹس سید سجاد احمد شاہ کو نکال باہر کیا گیا۔چیف جسٹس سید سجاد احمد
شاہ کے بعد صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری کو بھی ذلیل و خوار ہو کر
ایوانِ صدر سے رخصت ہونا پڑا اور یوں میاں صاحب سیاہ سفید کے مالک بن گئے۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے
ٹوٹنے سے پہچانا ۔جب میاں صاحب کی سول آمریت اپنے عروج پر تھی اور وہ کسی
کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے تو ۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کو
جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر میاں صاحب کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر
اقتدار پر قبضہ کر لیا اور میاں برادران کو معافی نامہ لکھ کر ملک سے راہِ
فرار اختیار کرنی پڑی۔۰۱ سال تک صحراﺅں کی خاک چھاننے کے بعد پی پی پی کی
قیادت کے کندھوں پر سوار ہو کر میاں برادران وطن واپس لوٹے لیکن زندگی کے
تلخ تجربات سے کو ئی سبق نہیں سیکھا۔ وہی خرید و فروخت کا نداز وہی لوٹا
کریسی کی عادات، وہی مخالفین پر جھوٹے الزامات۔ وہی نظامِ جمہوریت کے خلاف
سازشیں اور وہی دوسروں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی خوئے بد اور دھاندلی
کے الزامات میں دوسروں کی فتح کو شکست سے تعبیر کرنے کی فطرت۔
جنرل محمد ایوب خان، جنرل یحیی خان ، جنرل ضیا الحق، جنرل مرزا اسلم بیگ
،جنرل پرویز مشرف ، میاں محمد نواز شریف، غلام اسحاق خان اور سردار فاروق
احمد لغاری آ ئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے جیالوں کی محبت کو کوئی مائی کا
لال ختم نہ کر سکا بالکل ویسے ہی جیسے مغلِ اعظم شہنشاہ ا کبر جلالِ شاہی
کے باوجود شہزادہ سلیم کے دل سے انار کلی کی محبت کو ختم نہ سکا ۔انار کلی
کو دیوار میں زندہ چنوا یا دیا گیا لیکن اے محبت زندہ باد کی گونج آج بھی
محبت کی عظمت اور سچائی کا لوہا منواتی ہے۔اگر ایک دفعہ کسی انسان کی محبت
دل میں گھر کر جائے تو پھر ساری حیاتی اس سے دامن بچانا ممکن نہیں ہو تا۔
انسان زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی محبت کی گواہی بھی دیتا ہے اس پر پہرہ
بھی دیتا ہے اور اس سے کنارا کشی کا تصوربھی نہیں کرسکتا ۔ آزاد کشمیر کی
جیت بھٹو سے ایسی ہی لازوال محبت کی دل آویز داستان کا سب سے حسین ورق ہے
لیکن میاں صاحب اور انکے حواریوں کو یہ جیت ہضم نہیں ہو رہی۔پچھلے ۵ ۴
سالوں سے پی پی پی اپنے سیاسی سیاسی مخالفین کی نگر ا ن حکومتوں میں
انتخابات لڑتی آئی ہے اب پی پی پی مخالفین کی باری ہے کہ وہ پی پی پی کی
قائم کردہ نگرا ن حکومتوں میں الیکشن لڑ نے کا نیا تجربہ کریں تا کہ انھیں
اپنی اصلی مقبو لیت کا اندازہ ہو سکے اور جھوٹ اور سچ کا نتارا ہو جائے۔
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور یہ ثابت ہو جانے میں کوئی شک
باقی نہ رہ جا ئے کہ میاں برادران کتنے مقبول ہیں۔ جمہوریت کی سر بلندی
کےلئے پی پی پی ووٹ کے تقدس پر یقین رکھتی ہے لہذا یہ بیلٹ کے تقدس کو نہ
خود مجروح کرے گی اور نہ کسی کو اسے مجروح کرنے کی اجازت دے گی۔ |