امن کے پیامبروں کا یومِ تاسیس

میرا ماننا ہے بلکہ یقینِ مصمم ہے کہ اقوام کو بنانے اور بگاڑنے والے اس معاشرے کے استاد اور طلبہ ہیں۔ میری نظر میں یہ ہی دو طبقات ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے معاشرے کے اجزائے ترکیبی کو ترتیب دیتے ہیں۔استاد جس قدر دیانت داری سے طلبہ اور قوم کے معماروں کی ذہن سازی کریں گے اسی قدر معتدل، دانش مند اور با وقار اس قوم کے نوجوان ہوں گے۔ میرے معاشرے کاا لمیہ یہ ہے کہ پاکستا ن کے قیام کے بعد سے ہی دو قوتیں اپنے عروج پہ رہیں اور انہوں نے سر چوٹی کا زور لگایا کہ وہ اپنے اپنے مقاصد یں کامیاب ہوں اور اس کا نتیجہ سوائے اس بات کے کہ قوم کے نوجوانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچا اور وہ کبھی بھی یک قلب و جاں ہو کر اپنے مستقبل، اپنے سے آگے آنے والوں کے مستقبل اور معاشرے میں اپنے مثبت کردار کے بارے میں نہ سوچ سکے۔طلبہ یو نینز کو تو اس ملک کی سیاست کھا گئی حالانکہ ہمارا آئین آرٹیکل 17میں اس قوم کے نوجوانوں کو اجازت دیتا ہے کہ
''every citizen shall have the right to form associations or unions.

مگریہاں دہائیوں سے طلبہ اپنی یونینز کی بجالی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور حیرت کی جاء یہ ہے کہ تبدیلی سرکار بھی اس پہ تا حال خاموشی پہ ہی اکتفا کیئے ہوئے ہے۔طلبہ کو یونینز بنانے کی اجازات نہ ملی تو ملکِ پاکستان میں بہت سی طلبہ تنظیموں، جماعتوں اور تحریکوں نے جنم لیا۔ مگر مقام پھر افسوس کا ہی رہا کہ طلبہ بھی لسانی، جغرافیائی اور سیاسی کانٹ چھانٹ کا شکار رہے، اور ان طلبہ تنظیموں کی وجہ سے ہی طلبہ کے مثبت اور معتدل کردار کی بجائے انتہا پسند تنظیموں نے عروج پایا اور بلاشبہ طلبہ کا وقار مجروح ہوا۔سیکولر اور مذہبی انتہاؤں کو چھوتی تنظیموں میں اس معاشرے میں اک معتدل تنظیم کا قیام اپنے آپ میں اک نعمت ہے۔ لیکن مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کا قیام، اور اس کے بنیادی نظرئیے میں Traditional Rationalisجیسی تھیوری کا شامل ہونا، اسے دو انتہاؤں سے نکال کر دین و دنیا کے لئے اک درمیانی راستہ دکھاتی ہے۔مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ نے ہمیشہ پہلی ترجیح پہ طلبہ میں ان کے فراٗئض کی آگاہی کو اجاگر کیا اور پھر ان کے حقوق سے متعلق آگاہی اور ان حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کا راستہ دکھایا۔

محمد احسان اللہ سنبل کی جانب سے ترتیب دیئے گئے کتابچے ''راہنمائے کارکن'' میں وہ اپنے ممبران اور کارکنان کے لئے ہدایات درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
''مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ آپ کو زندگی کے مقصد سے آشنا کرنا چاہتی ہے ایک انسان اور حیوان میں فرق صرف مقصدیتِ زندگی کا شعور اور اس میں عمل پیرا ہونا ہے۔یہ تمام کائنات چرند پرند نباتات، پھل پھول، کھانے پینے کی اشیاء کی ایک مقصد ہے اور وہ مقصد انسان کی ضروریات کو پوار کرنا ہے اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام کائنات کا مقصد بنی نوع انسان کی خدمت کرنا ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقڈصد کیا ہے؟ کیا اللہ نے بغیر مقصد کے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا۔ ایک انسان باپ کی پشت سے ہوتا ہوا 9ماہ رحمِ مادر میں رہنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس کا بچپن گزرتا ہے، پھر لڑکپن، نوجوانی،ادیڑ عمرے، بڑھاپا اور پھر قبر میں جا سوتا ہے۔ یہ تمام ارتقائی مراحل اللہ نے محض کھانے پینے رہنے اور سونے کے لئے ترتیب نہیں دیئے بلکہ انسان کی زندی کا ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام کائنات کا مقصد بنی نوعِ انسان کی خدم کرنا ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد سراپا بندگی ہونا ہے اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ آپ کو ہمہ وقت مخلوقِ خدا کی خدمت میں دیکھنا چاہتی ہے طلبہ حقوق کی جدوجہد سے لے کر ایک فلاحی معاشرے کے قیام کی جدوجہد اس کے اہداف ہیں۔''

درج بالا باتیں آپ کو لازما کتابی لگ رہی ہوں۔ نہیں، میں گواہ ہوں کہ کیسے اس طلبہ تحریک نے ہر نہج پہ طلبہ کی راہ نمائی کی اور ڈنڈے کھا کر بھی پر امن رہنا سکھایا۔طلبہ حقوق کی جنگ ہو یا مختلف صوبوں میں طلبہ کے ساتھ ہونے والی بد عنوانیاں، ایک قوم ایک نصاب کے مطالبہ پر عالیشان تحریک کا آغاز کرنا اور قذافی اسٹیڈیم میں طلبہ کا بھرپور پاور شوہو، اور یہ سب در حقیقت ایوانِ بالا کے لئے اک پیغام تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان میں اک نصاب کے رائج میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور مقتدر حلقوں تک اپنی رائے اور آواز بخوبی پہنچائی۔ کتابچے میں درج اک جملہ کہ '' مصطفوی سٹوڈنٹس موومنت آپ کو ہمہ وقت مخلوقِ خدا کی خدمت میں دیکھنا چاہتی ہے۔'' اس کا عملی نمونہ ایم ایس ایم کی لیڈر شپ نے ڈی چوک پہ دکھایا بلکہ وہ اک عظیم مثال قائم کر رہے ہیں جو طلبہ تحریک میں اک انوکھی اور لطیف نمونہ کی حیثیت رکھتی ہوگی۔ نہ تو ایم ایس ایم کی ایگزیکٹو میں سے کسی کا یہ کیس ہے نہ ان کے بچوں میں سے کسی کا یہ مسئلہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے مالی اور علمی بے ضابطگیوں کا طوفان کھڑا کر رکھا ہے اور تقریبا ملک کے دو لاکھ طلبہ کا مستقبل داؤ پہ ہے۔آج کے دن جب آپ یہ آرٹیکل پڑھ رہے ہیں، ان طلبہ کو وہاں MDCAT کے ری کنڈکت کا مطالبہ کرتے ہوئے 14دن ہو چکے ہیں۔ عرفان یوسف کی قیادت میں وہ سب طلبہ اپنے ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر صرف اس قوم کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اگر آپ کہیں کہ اور جماعتیں بھی اس لڑائی میں شریک ہیں تو نہایت ادب سے عرض کرتی چلوں کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر جا کر دھمکی دینے کہ ہم اس بلڈنگ کا گھیراؤ کر لیں گے اور ڈی چوک پہ پولیس کے ہاتھوں ڈنڈے کھانے، ٹانگیں تڑوانے اور چاقو کے وار سہہ کر بھی پر امن رہنے میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ مقتدر حلقوں کو احساس دلانے میں کہ طلبہ اور اس ملک کا مستقبل خطرے میں ہے اور جیل کی سلاخیں توڑنے جیسی دھمکیوں میں مشرق و مغرب سا فاصلہ ہے۔ اور یہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ طلبہ نے اک ٹیسٹ کا ری کندکٹ مانگتے ہوئے ماریں کھائیں، ٹانگیں تڑوائیں اور چاقوؤں کے وار سہے۔ ورنہ پستول اور بارود جیسا غلیظ ہتھیار شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ میں ہی دیکھا گیا ہے۔ یہ اک الگ بحث رہی کہ نوجوانوں کے بل پہ بننے والی تبدیلی سرکار نے نوجوانوں کو کس قدر ذلیل کر کے رکھ دیا ہے اور کیسے ہٹ دھرمی اور بے شرمی سے مسلسل جھوٹ بولتے ان کے وزراء ہر بات سے انکاری ہیں۔ شاید یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ تقریبا دو سال بعد دوبارہ الیکشن میں یہ مقتدرحلقے ہمیں وہی پانچ سال پرانے خواب ہی دکھائیں گے اور یہ سوال آپ سب کے لئے ہے کہ کیا ہم سب بے وقوف بن جائیں گے؟ پھر سے اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پہ لگا دیں گے؟ کیا ہم پھر سے ہینڈسم اور شلوار قمیض کو میرٹ بنا کر ووٹ دیں گے؟ بہرحال یہ اب ہمارے شعور پہ منحصر ہے کہ ہماری کوئی ترجیحات ہیں بھی یا نہیں۔ اور ترقی پذیر ملکوں نے اگر ترقی یافتہ تک کا سفر طے کرنا ہو تو تعلیم، معلم اور متعلم کو ہی پہلی ترجیح دینی چاہیئے۔ لیکن جہاں متعلم اپنی تعلیم کی فکر میں اور مستقبل کے دھیان میں سڑکوں پہ بیٹھے سورج کی کرنوں اور رات کی خنکی میں برسنے والی بارشوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے ڈنڈے بھی کھا چکے ہوں کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ یہ اک ترقی پذیر معاشرہ بھی گنا جا سکتا ہے؟ نہیں۔۔۔ مگر اس سب اندھیرے اور تاریکی میں امید کی اک کرن باقی ہے اور اللہ کرے وہ ہمیشہ کو باقی رہے اور وہ ہے، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، جس طرح ان پر امن طلبہ نے پر امن جدوجہد کرتے ہوئے اپنا ااپ منوایا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود کوئی بھی طلبہ تنظیم شاید ہی پیش کر سکے۔ اس موومنٹ میں خواتین طلبہ اپنا اک الگ مقام رکھتی ہیں اور پر امن معاشرے کے اس جدوجہد کا حصہ ہیں۔ میں اس لیئے اس طلبہ تحریک کو قدیم اور جدید کا حسین امتزاج جانتی ہوں کہ انہوں نے اپنی قدیم روایات کو جدت میں ڈھال کر اپنایا ہے۔ کسی انتہائی اور شدت پسندمذہبی جماعت کی طرح لڑکیوں کو گھروں میں بند کرنے کے قائل نہیں اور نہ ہی کسی سو کالڈ فیمینسٹ پارٹی کی طرح سر سے ردائیں کھینچی جاتیں ہیں۔ بلکہ جیسے حضرت عمرِ فاروق نے شفا بنتِ عبداللہ عدویہ کو مدینہ کے بازار کا نگران مقرر کیا تھا یہاں بھی بیٹیاں اور بہنیں اپنے وقار اوراحترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ ڈی چوک میں برسرِ احتجاج ہیں۔ جیسے حضرے عثمانِ غنی نے امِ کلثوم بنتِ علی ابنِ طالب کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا ملکہ روم کی طرف بالکل اسی طرح یہاں بھی لڑکیاں پورے اعزاز کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوتیں ہیں۔مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کو اپنی تحریک کا لائحہ عمل بنانے کے لئے کبھی کسی اک شخص کے پیچھے تقلید کو نہیں جانا پڑا، بلکہ اس تحریک کی بنیاد رکھنے والے قائد، ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس طلبہ تحریک کو سیرتِ رسولﷺ سے جوڑ کر قدامت اور جدت کا سبق پڑھا کر معتدل راستہ پہ چھوڑ دیا ہے اور یہ سب طلبہ اپنے اعمال اور کردار سے بتاتے ہیں کہ ان کی تربیت واقعتا صحیح ہاتھوں میں ہوئی ہے۔طلبہ کے حقوق کی جنگ لڑتے ڈی چوک پہ بیٹے طلبہ کے لئے کامیابی کی دعائیں کرتے ہوئے فقط اتنا ہی کہوں کی کہ امن کے پیامبروں کو یومِ تاسیس مبارک ہو اور دعا ہے کہ یہ امن ہمارے نسلوں تک سفر کرے اور اک ایسا معاشرے کا آغاز کرے جو اپنی مثال آپ ہو

Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23550 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More