قومی غیرت کی قیمت پر امریکی امداد کیوں

ا مریکہ نے اپنی حسب عادت اور روایات ایک بار پھر اپنے حلیف اور اتحادی پاکستان کی فوجی امداد روک لی ہے روکی جانے والی امداد 80 کروڑ ڈالر بنتی ہےدراصل یہ امداد دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے اخراجات کی صورت میںدی جاتی ہے۔!!امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری امداد کے لیے 2اارب ڈالر مختص کیے تھے۔اب مریکہ نے اس امداد کے حصول کے لیے پاکستان کو کچھ شرائط اور مطالبات پیش کیے ہیں جو ہماری قومی غیرت و حمیت کے منافی ہیں۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے امداد کے روکے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیںجو ہمیں قطعا قبول نہیں ہیں۔ اس بنا ءپر پاکستان کی امداد روکنا پڑی ہے۔کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ مل کر ان الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔اور جب تک یہ معاملات سلجھ نہیں جاتے امریکی امداد بحال نہیں ہوگی۔اس کے علاوہ امریکہ کی یہ بھی ڈیمانڈ ہے کہ پاکستان کو روزانہ کی کارکردگی کی بنیاد پر امداد حاصل کر نا ہوگی۔۔!!! امریکیوں کو شمسی ائر بیس خالی کرنے ،اور ڈورون حملے برداشت نہ کرنے کے جو پیغامات امریکیوں کو دیے گئے تھے ۔ اور پاکستان نے سانحہ ایبٹ آباد کے بعد امریکی فوجییوں کو بے دخل کرنا بھی امریکہ کو ہم پر سخت غصہ ہے۔ ا مریکہ اس بات پر بھی ہم سے نا خوش ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی،خود مختاری کے تحفظ اور عوام کی تمناؤں اور خواہشات کے عین مطابق اقدامات کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسکی مرضی اور اشاروں پر چلتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کرے۔ امداد روکنے کا فیصلہ امریکہ نے اچانک نہیں کیا ۔ اس امریکی رویہ اور فیصلے کی بازگشت کئی ماہ سے سنی جا رہی تھی امریکی چال چلن اس بات کے اشارے دے رہا ہے کہ امریکہ اب ہم کو دوست نہیں ہم کو اپنا زرخرید غلام سمجھتا ہے ۔ لیکن ہماری حکومت اور افواج نے اس امریکی رویہ کوبروقت بھانپ لیا تھا ۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہی چند روز پہلے وزیر اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ ہم اپنی قومی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف کو ئی اقدام برداشت نہیں کریں گے اور اپنے فیصلے خود کریں گئے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکہ کی خفگی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کو یس باس نہیں کہتے۔ ہم ڈکٹیشن لینے سے انکاری ہیں۔اسی لیے امریکہ بول رہا ہے۔ امریکیوں کو شمسی ائر بیس خالی کرنے ،اور ڈرون حملے برداشت نہ کرنے کے جو پیغامات امریکیوں کو دیے گئے تھے ۔امریکہ اس سے نا خوش تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسکی مرضی اور اشاروں پر چلتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیر اعظم کے واضع موقف کے بعد افواج پاکستان کی کورکمانڈرز کانفرنس نے قومی غیرت اور حمیت کے بدلے امریکی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا ہےافواج پاکستان کا یہ فیصلہ قوم کی امنگوں کی صحیح عکاسی اور ترجمانی ہےاسی کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج کے اس عزم کا اعادہ کیاگیا ہے کہ امریکی امداد رکنے سے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشنز پر کوئی اثر نہیں پڑےگاکیونکہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کور کمانڈرز فیصلہ میں مذید دو ٹوک انداز میں کہا گیا ہے کہ ہمیں امریکی امداد کی پرواہ نہیں ہےسابق صدر مارشل لا ایڈمنیسٹریٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی کہتے ہیں ہے کہ امریکی امداد کا روکا جانا دونوں ممالک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب والا پاکستان آج جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے وہ سب آپ کا ہی کیا دھرا ہے۔اگر آپ نائن الیون کے بعد اپنے پاؤں پر ذرا سا بھی زور دیتے تو آج ہم صورت حال سے دوچار نہ ہوتے۔ اس موقع پر امریکہ میں پاکستانی سفیر جناب حسین حقانی کا بیان میری سمجھ میں نہیں آیا کہ امریکی فوجی امداد روکی نہیں گئی بلکہ چند روز کے لیے معطل کی گئی ہےمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جناب حسین حقانی پاکستان کے سفیر ہیں یا امریکہ کے لیے کام کر رہے ہیں !!انہیں پاکستان کی حکومت اور عوام کی ترجمانی کرنی چاہئے نہ کہ امریکہ کی حمایت میں لب کشائی کرنا انہیں زیب دیتا ہے امریکہ کی طرف سے فوجی امداد روکنے کی خبروں کے بعد مشکل کی اس گھڑی میں ایک بار پھر ہمارے دوست عوامی جمہوریہ چین نے ہمارا ساتھ دیا ہےاور بنا کوئی لمحہ ضائع کیے چین نے کہا کہ ہم پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گئےپاکستان کے دوسرے تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ہم بھی کافی عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ جناب والا پاکستان کو باقاعدہ ایک خارجہ پالیسی دیں اور اس خارجہ پالیسی کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی جائے۔اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہم امریکہ سے دشمنی کا راستہ اپنائیں لیکن اتنا ضرور کہیں گئے کہ امریکی مداخلت کے خاتمہ سے ہی ہم اپنے اندرونی اور بیرونی حالات میں سدھار لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی میں دور کے دوست بنانے کی بجائے اپنے پڑوسیوں اور خطے کے دیگر ممالک کو اہمیت دیں اور ان سے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائیں۔جتنی جلد ی ہم خود کو امریکی غلامی سے آزاد کروالیں گئےاتنا ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔کیونکہ امریکہ سے دوستی نے پاکستان کے تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس لپیٹے سے پاکستان کا باہر نکلنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ہمارا پڑوسی اور ہمارے دکھ سکھ کا سا تھی ملک چین نے ایک بار پھر ہمارا ہاتھ تھام کر کہا ہے کہ امریکیوں کی دھونس سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے امریکی امداد بند کرتے ہیں تو کوئی پرواہ نہیں ہم پاکستان کا بھرپور اور مکمل ساتھ دیں گئے اور اسکی ہر ضرورت پوری کریں گے۔حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ عوامی جمہوریہ چین اور ایران سے تعلقات کو بہتر کرتے ہوئے ان دونوں ممالک کی قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اور ان ممالک کے مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھیں ۔انشاءاللہ تعالیٰ باقی ستے خیراں نیں۔
Anwar Abbas Anwar
About the Author: Anwar Abbas Anwar Read More Articles by Anwar Abbas Anwar: 2 Articles with 1542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.