سوچ سے آگے

ٓ۰۴۹۱ءتا ۷۴۹۱ءکی دھائی میں دو قومی نظریہ پروان پر تھا ایک مسلم اور دوسرا ہندو۔۔۔ اسی نظریہ کی بناءپر پاکستان وجود میں آیا۔ ۔یہ وہ دور تھا جب انگریز واپسی کی راہ لے رہا تھا اور یہاں کے مقامی ہندو سیاستدان یہ سوچے بیٹھے تھے کہ ہم اس خطے میں اپنی اجاراداری اور طاقت کے بل بلوتے پر حکومت بنائیں گے جس میں مسلمانوں کی حق تلفی کرکے ہوئے انہیں نچلی سطح پر پہنچا دیں گے۔ ہندوﺅں کے ان نظریات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی بصارت سے پہچان لیا اور پھر مسلمانوں کے سیاسی ، اقتصادی، مذہبی اور معاشرتی تحفظات کی خاطر ایک الگ پلیٹ فارم بنایا جس کا نام مسلم لیگ رکھا۔اُس وقت کے کچھ مسلم علما، سیاستدان اور بیوروکریٹس نے قائد اعظم کے اس قدم پر تشویش کا اظہار کیا اور اپنی نسبت سے یہ واضع کیا کہ یہاں مسلمان اقتصادی و معاشرتی، مذہبی و ثقافتی پہلو سے پہلے ہی مضبوط ہیں کیونکر ایسے خطے میں جائیں جہاں پر ویرانی و پریشانی موجود ہو اور جو غیر سہولت پر مبنی ہو اور نجانے وہاں کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑے جبکہ یہاں پر شہر ترقی پر گامزن ہیں جہاں مسلمان قوم صنعتوں، کاروبار، تعلیم و صحت اور دیگر معاملات میں بہت بہتر ہیں ۔ سر سید احمد خان کی علمی کاوشوں کے سبب بھارت کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم ہے جہاں سے ہر سال اعلیٰ ترین طالبعلم فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور اپنے حاصل کردہ علم سے عملی طور پر ایک بہترین شہری ثابت ہورہے ہیں جس میں تعلیم، سائنس، طبعیات، کیمیا، جغرافیہ، نفسیات، ارضات، فلکیات، علم المذاہب ، علم اللسانیات کے علاوہ ٹیکنیکی مہارتوں اور تعلم سے بھی مستفیض کیا جارہا ہے جس میں سول انجینئرنگ، میکنیکل انجینئرنگ ، الیکٹریکل انجینئرنگ اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں اور اگر ہندو حاکم بھی بنے تو سب سے بڑی اقلیتی جماعت مسلمان ہی ہونگے بہتر یہی ہے کہ علیحدہ ملک کو نہ بنایا جائے بلکہ اسی خطے میں رہ کر اپنے حقوق طلب کیئے جائیں ۔۔۔ لیکن ایک بڑا طبقہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کے ساتھ تھایہ طبقہ سمجھتا تھا کہ علیحدہ ملک پاکستان جو خالصتاً اسلام کے نام پر معروض وجود میں آرہا ہے جس میں اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب، اسلامی روایات اور اسلامی آئین کی بالا دستی ہوگی اس میں با نسبت بھارت کے پاکستان میں آزادی سے زندگی گزاریں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر اور آزاد ماحول میں ایک بہترین مسلمان ، پاکستانی اور سود مند شہری بنائیں گے گو کہ لاکھوں کی تعداد میں اُس وقت کے مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی جس میں انھوں نے اپنی املاک، جائیداد، مال و اسباب، جانیں ، عزتیں قربان کیں ، اُن سچے تحریک پاکستان کے مجاہدوں کی قربانی سے پاکستان معروض وجود میں آیا ہے جبکہ جس جگہ پاکستان بنا تھا وہاں پر لوگ انگریزوں کے حکم اور طاقت میں دبے ہوئے تھے یہاں اس قدر تحریک متحرک نہیں تھی کہ جس میں جانوں کی قربانیاں پیش کی گئی ہوں۔یہاں کے رہنے والوں کو تحریک پاکستان کی کوششوں کی بناءپر آزادی کا سانس حاصل ہوا ، اسی لیئے موجودہ پاکستان کے صوبوں میں ہجرت کرنے والے آباد ہوئے جبکہ بالخصوص سندھ میں قیام زیادہ ہوا ۔۔۔ سندھ کے خاندانی لوگوں نے مہاجرین پاکستان کو گلے لگایا اور ان کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، اُس وقت کے خاندانی و شرفاء جاگیردار جانتے تھے کہ ان قربان کردہ مہاجرین کا بھی وہی حق ہے جو ہمارا ہے کیونکہ ان مہاجرین کے اس خطے کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا کر صرف اور صرف پاکستان کے وجود میں قربان کردیا حتیٰ کہ جانوں کی پرواہ بھی نہیں کی۔۔۔ آج بھی پاکستان کے بگڑتے سیاسی حالات میں سندھ کے خاندانی و شرفاء مہاجرین پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا مرنا جینا ان کے ساتھ ہے ۔۔۔۔۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کو اللہ ہے صرف ایک سال بعد ہی اپنے پاس بلا لیا۔۔۔ مفتی تقی عثمانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے خواب میں بشارت دی کہ تم محمد علی جناح کی نمازِ جنازہ پڑھانا، اسی لیئے تاریخ گواہ ہے کہ جب قائد اعم محمد علی جناح کا جنازہ رکھا ہوا تھا تو لوگ شش و پنج میں مبتلا تھے کہ کس فرقہ کی نماز پڑھائی جائے ایسے وقت میں مفتی تقی عثمانی آگے بڑھے اور حکم رسول ﷺ کو پورا کیا۔۔۔۔ جس بندہ خدا کیلئے نبی کریم ﷺ نے بشارت دی ہو اُس کے مقام کا کوئی حد کیا جانے۔۔۔!!پاکستان کے وجود میں جن جن لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جو سب کچھ قربان کرکے چلے آئے تھے ان کی حرمت پر ضرب لگانا کسی شرفاءخاندانی لوگوں کا کام نہیں ، ایسے لوگ جو انتخاب رب پر آج تنقید کرتے ہیں وہ یقینا گمراہی میں مبتلا ہیں یا پھر نشے میں اس قدر مدہوش ہیں کہ انہیں اول فول بکنے کی عادت سی ہے ۔ آج پاکستان کے دعوےدار سب بنتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ اس سر زمین پاکستان کیلئے ایسے لوگوں نے کیا قربانی دی ہے یا اس کی تعمیر و ترقی کیلئے کوئی کوششیں بھی کی ہوں ۔ پاکستان اور تحریک پاکستان پر نقطہ چینی کرنے والے پاکستان کے حاسد ہی نہیں بلکہ غدار وطن بھی ہیں اسی لیئے ایسے لوگ دشمنان پاکستان کا بہترین آلہ کار ثابت ہورہے ہیں ۔پاکستان کا کھاتے ہیں ، حکمرانی کرتے ہیں اور اسی وطن کو برا بھلا بھی کہتے ہیں بھلا ایسے لوگوں کو کیوں منتخب کیا جاتا ہے اور انہیں بھاری منصب پر کیوں بٹھایا جاتا ہے ؟؟ یہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ شدید زیادتی ہے۔۔۔۔!!

قائد اعظم کے انتقال کے بعد مخلص رفقائے کار قائد اعظم محمد علی جناح لیاقت علی خان کو چند ہی عرصہ میں شہید کردیا گیا پھر پاکستانی سیاست میں غیر مخلص لوگ داخل ہونے لگے گو کہ ہم نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ بیرونی ممالک کی مداخلت پاکستانی سیاست میں بڑھنے لگی اور سازشوں، منافقوں ، لٹیروں کا راج چل نکلا اس پر المیہ یہ کہ پاکستانی فوج کے سربراہوں نے سیاسی ڈھانچے کو بہتر کرنے کے بجائے مارشلاءکے عذاب سے دوچار کیا اور اس طرح پاکستان الجھنوں، مصیبتوں، ترقیاتی بندشوں کی نظر ہوتا چلا آیا۔ابتدائی ادوار میں اسی الیکشن کے نظام کو بہتری انداز میں اپنایا گیا لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نا اہل سیاستدانوں نے اپنی کامیابی کا راستہ تلاش کرلیا اور جعلی ووٹوں کا اہل لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو آج تک قائم ہے۔ ۔۔کل کے وڈیرے اور صنعت کار آج کے حاکم و وزراءبنے بیٹھے ہیں ان میں تعلیم، شعور، ادب و اخلاق کا فقدان پایا جاتا ہے یہ صرف اپنی ناجائز دولت اور طاقت کے بل بوتے پر کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں ۔۔۔۔ انتظامیہ ہو یا فوج جب ان میں تقرر کا عمل ہوتا ہے تو یہ کمیشن کے سخت ترین مرحلہ سے گزارتے ہیں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کرتے ہیں جبکہ پورے ملک کے چلانے والے ایسے کسی بھی کمیشن کے امتحان سے نہیں گزرتے بلکہ ایک فرسودہ و ناکارہ ووٹنگ کے تحت جعلی ووٹوں، جھگڑے فساد کراکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور وہ کمیشن سے پاس کردہ افسران ان کے حکم کے تابع ہوتے ہیں اور اس طرح ریاست کے نظام میں ابتری آجاتی ہے۔ جب تک سیاستدانوں کی جانچ پڑتال کا نظام مروج نہیں ہوگا اور احتسابی عمل آزادانہ نہیں بنایا جائیگا اس وقت تک سیاست میں کبھی بھی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سلامےی، بقاءاور ترقی کیلئے لازم و ملزوم ہے کہ پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کیلئے مضبوط جامع نظام ہو جس میں بلا امتیاز احتسابی عمل ہو تاکہ کرپشن کو جڑ سے ختم کیا جاسکے اگر حالات یونہی چلتے رہے تو پاکستان میں جلد اقتصادی و معاشیاتی، معاشرتی و اخلاقی بحران جنم لے گا جس نا تلاقی نقصان سے دوچار کریگا اگر ہمارے حکمرانوں جو وطن عزیز و قوم سے مخلص ہیں فی الفور عمل نہ کیا تو عوام کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ ان مخلص سیاستدانوں کو بھی کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ ان کی خاموشی کرپٹ سیاستدانوں کے حوصلے بلند کر رہی ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور متحدہ کے قائد الطاف حسین سیاسی بصارت کے مالک ہیں ان میں لیڈرانہ صلاحتیں موجود ہیں اور یہ دونوں اگر چاہیں تو مل جل کر پاکستان کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں اب دکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور اس قوم کی خاطر صدر پاکستان آصف زرداری اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کس قدر صبر و تحمل ، بردباری اور باہمی تعاون کے ساتھ تعمیر وطن میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اگر ان دو رہنماﺅں نے سنجیدگی سے پاکستان اور پاکستانی قوم کی فلاح و بہبود کے ساتھ اس ملک کی ترقی و کامرانی میں مثبت اقدامات کیئے تو یقینا یہ دونوں بڑی پارٹی ہمیشہ کیلئے قائم و دائم رہیں گی کیونکہ پاکستانی قوم ایسے لیڈروں کی تلاش میں ہیں جو بیانات کے بجائے عملی اقدامات دکھائیں جن میں ذاتی اختلافات نہ ہو اور جن کا مقصد حیات پاکستان اور عوام کی خالصتاً خدمت ہو ۔جو بھی لیڈر عوام کی مثبت سوچ سے بھی آگے مثبت اقدامات کریگا وہی آئیندہ اور ہمیشہ پاکستانی قوم کے دلوں میں گھر کرجائیگا کیونکہ پاکستانی قوم نے الیکشن کے فردسودہ ناکارہ نظام کو رد کردیا ہے اور پاکستانی عوام کا یہ احتجاج بڑھتا جارہا ہے کہ الیکشن کے نظام کو مکمل اسکینگ کے ساتھ کمپیوٹرائز کردیا جائے۔ان حالات میں اب آئندہ الیکشن میں وہی بہتر کامیابیوں سے ہمکنار ہوگا جو حقیقی طور پر عوامی فلاح و بہود کے کام کردکھا۔ متحدہ کو اپنی سیاسی حیثیت کو بہتر بنانے کیلئے بہت محنت کرنی پڑیگی اور کارکنوں کے ساتھ ہمدردوں ، ووٹروں کے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا ، متحدہ قومی مومنٹ میں جن خاندان اور افراد کے گھیرے کو بھی ختم کرنا ہوگا جو عام مستحق ، مظلوم کیلئے رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اگر متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے کارکنوں کے احتسابی عمل کو جاری نہ رکھا تو ان میں انارکی پھیل سکتی ہے کیونکہ قائد تحریک نے ہمیشہ اس جماعت کو منظم رکھا ہے اور کسی کی زیادتی کا فوری نوٹس لینے کا عمل ہے لیکن اب اس میں کچھ سست روی دیکھی جارہی ہے ، کارکنوں کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ جماعت مظلوموں ، حالات کے ستائے لوگوں ،مشکلات میں مبتلا لوگوں اور درمیانے درجہ کے مسائل کو حل کرنی والی واحد جماعت ہے اس جماعت کا جو تقدس ہے اسی کبھی بھی نیچے نہیں آنے دیا جائے، قائد اور رفقائے قائد کاخواب ہے کہ پاکستان کے ہر چپے پر موجود مظلوموں کی فریاد رسی کی جائیگی اور ہر طبقہ اس پلیٹ فارم سے اپنے مسائل حل کرائیگا۔ اسی طرح صدر آصف علی زرداری بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا لازاوال ، مثالی لیڈر ہے اگر یہ دونوں لیڈران یکجا ہوکر خلوص نیت کے ساتھ سیاست اور حکمرانی میں کام کریں تو یقینا پاکستان کا مستبل روشن بن سکتا ہے مگر اس کیلئے دونوں کو عام عوام کا خیال لازمی رکھنا ہوگا۔
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 273820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.