ایک اور پنڈورابکس کھلنے والاہے باخبرلوگ
خبردارکررہے ہیں کہ یہ کرپشن کی ہوشربا داستانوں پر مشتمل ہوگا جس سے
ہیروکہلانے والے زیرو بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ زیر وزبرہونا کوئی انہونی بات
نہیں عمران خان کی حکومت ماضی کے حکمرانوں کے پیش پڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے
کہ موجودہ حکومت نے ماضی کے میگا پراجیکٹس میں ہونے والی کرپشن کی نئے سرے
کی تحقیقات کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیاہے جس سے بہت سے چہرے بے نقاب ہونے کی
قوی امید ہے اسی کے تناظرمیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی
ترقی کے لئے تمام علاقوں کو یکساں ترقی دینا ہو گی۔ 70سال میں جن علاقوں کو
ترقی سے محروم رکھا گیا انہیں اوپر لے کر آنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح
ہے۔ 2013 میں بنائی جانے والی موٹر ویز کی لاگت آج سے 20کروڑ روپے فی
کلومیٹر زیادہ تھی ہم نے ایف آئی اے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ایسے
منصوبوں کی تحقیقات کرکے قوم کے سامنے ایسی تمام تفصیلات لائے سڑکوں کی
تعمیر میں کرپشن ملک کا سب سے بڑا ڈاکہ ہے۔ سوچیں پچھلی حکومت نے کتنا پیسہ
بنایا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ وسائل کے باوجود دنیا میں
غریب ممالک کی غربت کی بنیادی وجہ یہی کرپشن ہے۔ کرپشن نہ ہوتی تو ملک
خوشحال ہوتا۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا کے مطابق وہ بلوچستان میں جھل
جھاؤ۔بیلہ شاہراہ کی بحالی اور اپ گریڈیشن منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب سے
وزیرا عظم عمرا ن خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے دورمیں بننے والی
سڑکوں کی نسبت ہم20 کروڑ روپے کم لاگت میں سڑکیں بنارہے ہیں، سابق دور میں
سڑکوں کی تعمیر میں کرپشن کی تحقیقات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے
کو پورا مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ سابق دور میں تعمیر ہونے والی مہنگی سڑکوں کی
تحقیقات کرکے حقائق قوم کے سامنے لائے اور قومی سرمائے کے ضیاع کے ذمہ
داروں کا تعین کرے۔ وزیراعظم نے کہا جو حکومتیں اپنی مدت اور انتخابات کو
مد نظر رکھتی ہیں وہ بلوچستان کی ترقی میں دلچسپی لینے کی بجائے جہاں سیاسی
فائدہ زیادہ ہو وہاں ترقی کے لئے اقدامات اٹھاتی رہیں، اسی لئے بلوچستان
پیچھے رہ گیا۔ بلوچستان میں پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے سیاستدان بھی ہیں
جن کی سوچ محض اپنے حلقے کی ترقی اور الیکشن جیتنے کی تھی۔ وزیراعظم نے کہا
کہ احساس پروگرام میں سندھ میں ہماری حکومت نہ ہونے کے باوجود 34 فیصد حصہ
سندھ کو دیا کیونکہ وہاں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جب اپنا
سکورکارڈ دکھائیں تو اس میں سب سے زیادہ ترقی بلوچستان میں ہو۔ وزیراعظم نے
کہا کہ این ایچ اے کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ میں 2013 میں بننے والی
سڑکوں کی فی کلومیٹر لاگت بہت زیادہ تھی خاص طور پر آج جب روپے کے مقابلہ
میں ڈالر کی قیمت اور مہنگائی کو مدنظر رکھا جائے تو2013 میں اتنی زیادہ
لاگت ہونا ظلم ہے۔ اس سے کتنا پیسہ بنایا گیا، اس کی تحقیقات کرکے قوم کے
سامنے لائیں گے۔ اس میں کسی ثبوت کی بھی ضرورت نہیں۔ قوم کو کرپشن سے ہونے
والے نقصان سے آگاہ ہوناچاہیے۔ اس رقم سے کتنے اور منصوبے مکمل کئے جا سکتے
تھے جس سے پسماندگی کا خاتمہ ممکن تھا وزیراعظم عمران خان کا کہناتھا کہ
ملک میں ہمیشہ فری اینڈ فیئر الیکشن کی ضرورت رہی ہے۔ شفاف الیکشن ضروری
ہیں۔ ہم نے پوری دنیا کے بہترین اقدامات کا جائزہ لے لیا ہے۔ قانونی
اصلاحات کو اب ہر صورت مکمل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب کے ساتھ جرم
ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے اسے انصاف نہیں ملے گا۔FIR کے اندراج سے تفتیش تک
نئی اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی ایک طرف وزیرِ اعظم کی ماضی کی حکومتوں
پر گولہ باری ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس نے قوم کو
ہلاکررکھ دیا ہے عدالت ِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ خیبر پی کے میں کرپشن اتنی
زیادہ ہے کہ عوام کو کچھ ڈلیور نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے زلزلہ زدہ
علاقوں میں ترقیاتی کاموں سے متعلق ایرا کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار
دیتے ہوئے تمام منصوبوں کے تصویری شواہد طلب کر لئے۔ سپریم کورٹ میں KPK کے
زلزلہ زدہ علاقوں میں سکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس
گلزار احمد کی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا
کہ قیام سے لیکر اب تک ایرا کیا کر رہا ہے؟۔ 2005 سے اب تک 540 سکول کیوں
نہیں بن سکے؟۔ ایرا کو ملنے والا پیسہ کہاں خرچ ہوا؟۔ ایرا کی رپورٹ صرف
آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، زلزلہ متاثرین کی مدد تو قوم نے کی
تھی ایرا نے کیا کیا؟۔ لوگوں نے تو حج کا پیسہ بھی زلزلہ متاثرین کو دیدیا
تھا۔ ایرا کو ملنے والے 205 ارب روپے کہاں خرچ ہوئے؟۔ آج تک سکول کھلے
آسمان تلے کیوں چل رہے ہیں؟۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں کو تو دو سال میں دوبارہ
بن جانا چاہیے تھا، بین الاقوامی امداد بھی آئی، لوگوں نے بھی پیسہ دیا اور
حکومت نے بھی۔ متاثرہ علاقوں میں تو مثالی ترقی ہونی چاہیے تھی۔ فاضل چیف
جسٹس نے کہا سکول اب بن رہے ہیں 16 سال بچے کیا کرتے رہے؟۔ کتنے بچے سکول
نہ ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے ہونگے۔ جیسی عمارتیں بن رہی ہیں چھ ماہ میں گر
جائیں گی۔ بچوں اور اساتذہ کی زندگیاں خطرے میں لگ رہی ہیں۔ خیبر پی کے میں
کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ عوام کو کچھ ڈلیور نہیں ہو سکتا۔ دوران سماعت
ترقیاتی کام کرنے والے ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگنے کا انکشاف بھی ہوا۔ جسٹس
مظہر عالم میاں خیل نے کہا دہشتگرد ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگ رہے اور
دھمکیاں بھی دے رہے ہیں، کئی ٹھیکیدار بنوں اور ڈی آئی خان میں کام چھوڑ کر
بھاگ گئے ہیں۔
اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگا کہ پاکستان کا سب سے بڑا
مسئلہ کرپشن ہے سرکاری دفاتر میں کوئی بھی کام لئے دئیے بغیرہونا ناممکن ہے
جس بھی ادارے کو کھنگالیں اربوں کھربوں کی کرپشن منہ چرارہی ہوتی ہے اس
بناء پرپاکستان پرمافیازکا ہولڈ ہے جب تک حکومت کرپشن کے خاتمہ کے لئے بے
رحم احتساب اور بلا امتیازایکشن نہیں لے گی کچھ بہترنہیں ہوگا اور آئے روز
کرپشن کی ہوشربا داستانیں ہمارے قومی وقارکو مجروح کرتی رہیں گی۔
|