طالبان حکومت کا آئین ،خلافت سے بادشاہت تک۰۰۰؟

افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کو ابھی تک کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ طالبان نے اسلامی امارات افغانستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا تھا لیکن عالمی سطح پر طالبان حکومت کو کسی ملک کی جانب سے تسلیمنہ کئے جانے کے بعد شاید طالبان عبوری حکومت کو مصلحت پسندی یا وقت و حالات مطابق حکومتی سرگرمیوں کے نفاذ میں کچھ بدلاؤکرنا پڑرہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہیکہ حالات کے پیشِ نظر طالبان عبوری حکومت نے افغانستان کے آخری موروثی بادشاہ ظاہر شاہ کے دورکے آئین کے نفاذ کا عارضی طور پراعلان کرکے عالمی ردّعمل کو جانچنے کی کوشش کی ہے۔ قطر، چین، پاکستان، روس ، ترکی کی جانب سے طالبان کا پُر امن افغانستان پر دوبارہ قبضہ اس بات کی طرف اشارہ کررہا تھا کہ یہ ممالک سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کر لینگے، لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔ 15؍ اگسٹ کو طالبان نے جس طرح کابل پر بغیر خون خرابے کے قبضہ کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا یہاں تک امریکہ جیسا سوپر پاور ملک بھی جس نے افغانستان کے کم و بیش تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج کی تربیت کی تھی ، افغان فوج بھی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دی اور امریکہ کو احساس ہوا کہ انہوں نے افغان فوج کی طاقت و قوت اور تربیت کے سلسلہ میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ اس سلسلہ میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’’طالبان کے افغانستان پر تیز رفتار قبضے نے امریکہ کو حیران کرکے رکھ دیا تھا‘‘۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل 28؍ ستمبر کو امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے دیئے گئے بیان میں لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’’افغان فوج جسے ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے ٹریننگ دی تھی‘ (اس طرح) بکھر جائے گی ، اور اکثر مقامات پر ایک گولی چلائے بغیر قبضہ ہم سب کو حیران کردیاتھا‘‘۔ واضح رہیکہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوج کے اعلیٰ افسران طویل ترین فوجی مشن کے خاتمے اور انخلا سے متعلق گواہی دینے پہلے مرتبہ کانگریس کے سامنے منگل کو پیش ہوئے تھے۔ امریکی وزیر دفاع نے اس موقع پر مزید کہا کہ’ ’ ہم نے ریاست کی تعمیر میں مدد فراہم کی لیکن ہم قوم کی تشکیل نہ کرسکے‘‘۔ان کا کہنا تھاکہ ’’امریکہ نے افغان فوج کو سازو سامان اور جہاز فراہم کئے اور انہیں استعمال کرنے کی مہارت بھی دی۔ ان برسوں میں افغان فوجی بہادری سے بھی لڑے، ہزاروں کی تعداد میں افغان فوجی اور پولیس افسر ہلاک ہوئے ، لیکن آخر میں ہم انہیں جیتنے کی خواہش نہیں دے سکے‘‘۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’’امریکہ پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھاکہ سینئر افسران میں کس حد تک کرپشن اور ناقص قیادت پائی جاتی ہے‘۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہیکہ جیسا کہ امریکی وزیردفاع کے مطابق افغان سینئر افسران میں کس قدر کرپشن اور ناقص قیادت ہے اس سلسلہ میں ایک طرف کرپشن کا مسئلہ اور ناقص قیادت ہوسکتا ہے کہ لیکن یہ بھی حقیقت ہیکہ افواج کے اعلیٰ و نچلے سطے کے اہلکار اس بات کو محسوس کرکے ہتھیار ڈال سکتے ہیں یا خاموشی سے طالبان کو اپنے اپنے علاقوں کا قبضہ دے دیئے کیونکہ ملک میں کم از کم طالبان کے دورِ اقتدار میں امن و سلامتی قائم ہوجائے ۔ کیونکہ جس طرح امریکہ اور اتحادیوں نے افغان فوج اور عوام کو بے اثر اشرف غنی حکومت کے حوالے کرکے چلے گئے اور پھر پہلے سے ہی طالبان کی کئی علاقوں میں مضبوط گرفت سے اندازہ ہوچکا تھا کہ طالبان کسی نہ کسی طرح افغانستان میں کنٹرول حاصل کرلیں گے ۔ اسی لئے ہوسکتا ہیکہ افغان افواج کے سینئر افسران یا دیگرفوجی عہدیدار طالبان سے جنگ کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے اشرف غنی حکومت کو بے یارومددگار چھوڑکر جانے کے سلسلہ میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے دیئے گئے بیان میں امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ ’’کابل میں حکومت کو بچانے کے لئے 2500امریکی فوجیوں کی ضرورت تھی‘‘۔ کانگریس کے سامنے امریکی فوج قیادت نے تسلیم کیا کہ انہو ں نے افغانسان کی فوج کی حالت سے متعلق غلط اندازہ لگایا تھا، ان کا خیال تھاکہ طالبان کے قبضے سے بچانے کے لئے امریکہ کو ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات رکھنا چاہیے تھا۔ جنرل مارک ملی طالبان کے تعلق سے کہتے ہیں کہ طالبان دہشت گرد تھی اور ہے ،اور انکا کہنا ہیکہ طالبان نے القائدہ کے ساتھ رابطے ختم نہیں کئے۔ اسکے باوجود انکا کہنا ہیکہ ’’انہیں اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں کہ وہ (طالبان) کس سے نمٹ رہے ہیں، تاہم یہ دیکھنا باقی ہیکہ طالبان اپنی طاقت مستحکم کرسکیں گے یا پھر ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ طالبان قیادت نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت قائم کرکے افغان عوام اور عالمی سطح کو یہ بتانے کی کوشش کی ہیکہ ملک میں امن و سلامتی کے لئے طالبان حتی الامکان کوشش کررہے ہیں اور انکی قیادت کی جانب سے جو عام معافی کا اعلان کیا گیا اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا اور بعض مقامات پر طالبان کی کارروائیوں کے خلاف خبریں گردیش کررہی ہیں اس سلسلہ میں طالبان قیادت خبروں کی تصدیق کے بعد ذمہ دار طالبان کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کرچکی ہے ۔ عالمی سطح پر چین، روس ، پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے طالبان پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ افغانستان میں تمام طبقات کو لے کر حکومت تشکیل دیں ۰۰۰۰خواتین کو مختلف شعبہ ہائے حیات میں مراعات کے سلسلہ میں بھی عالمی سطح پر طالبان حکومت پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے ، طالبان قیادت نے کھلے اور صاف الفاظ میں کہا ہیکہ خواتین و لڑکیوں کو شرعی حدود کے مطابق مراعات دیئے جائیں گے۔ افغانستان میں شرعی قوانین کے مطابق طالبان کی حکومت عالمی سطح پر اثر انداز ہوسکتی ہے ، کیونکہ جب کسی بھی معاملہ میں اسلامی احکامات کا نفاذ عمل میں لایا جائے اور سزائیں بھی شرعی قوانین کے مطابق سخت دی جائینگی تو جرائم و مظالم کا سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوجائے گا ۔ گذشتہ دنوں اغواء کرنے والوں کو فائرنگ کے ذریعہ ہلاک کرکے انہیں نشانِ عبرت بنایا گیا تاکہ مزید اغواء کے واقعات نہ ہونے پائے۔اسی طرح افغانستان میں رشوت خوری، چوری وڈکیتی، اغواء اور دیگر کئی خطرناک جرائم کی افغان عوام بات کرتے ہیں اور طالبان کے آجانے کے بعد ملک میں امن وسلامتی کی بحالی اور مظالم کا سلسلہ بند ہونے کی امید لیے ہوئے ہیں۔ طالبان عبوری حکومت کے وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے اسلامی امارت افغانستان میں سابق افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے دور کے آئین کو عارضی طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔منگل 28؍ ستمبر کو طالبان کی وزارت انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیر انصاف نے یہ بات چین کے سفیر وانگ یو کے ساتھ ملاقات میں کہی ہے۔اس ملاقات میں وزیر انصاف نے کہا ہے کہ غیر شرعی اور اسلامی امارت کے اصولوں کے خلاف حصوں کے علاوہ اسلامی امارت سابق بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے دور کے آئین کو نافذ کرے گی۔البتہ آئین میں سے وہ حصے نکالے جائیں گے جو اسلامی شریعت اور اسلامی امارات کے اصولوں کے مخالف ہوں۔افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت کے ابتدائی برسوں میں بھی ظاہر شاہ کے آئین کو نافذ کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ گذشتہ ماہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغانستان کیلئے ایک نئے آئین کی ضرورت ہے جو آزاد افغانستان میں بنایا جائے گا اور اس میں سب کے حقوق درج ہونگے۔طالبان نے کہا تھا کہ وہ شریعت کے مطابق ملک میں نیا آئین نافذ کریں گے۔افغانستان کا موجودہ آئین جنوری 2004 میں بنایا گیا تھا۔ اس آئین کو بنانے کیلئے افغان سیاستدانوں اور عمائدین نے ملک کے طول و عرض میں جرگے منعقد کیے تھے۔افغانوں کے مطابق ان کا موجودہ آئین اسلامی اصولوں کے مطابق ہی ہے۔اب طالبان حکومت نے ظاہر شاہ کے آئین کے نفاذ کی بات کی ہے تو دیکھنا ہیکہ اس پر عالمی سطح سے کیا ردّعمل کا اظہار ہوتا ہے۔

مملکت افغانستان کا آخری خاندانی موروثی بادشاہ نادر شاہ 8؍ نومبر1933میں قتل کردیئے گئے۔ نادر شاہ کے قتل کے چند گھنٹے بعد ہی انکے فرزند ظاہر شاہ کو بادشاہ بنا دیا گیا تھا ۔1946ء تک ظاہر شاہ کی بادشاہت میں ملک کا انتظام ان کے وزراء محمد ہاشم اور شاہ محمود غازی نے چلایا۔ دوسری جنگ عظیم میں ظاہر شاہ نے اپنے ملک کو غیر جانبدار رکھا۔1964ء میں ظاہر شاہ نے ایک نیا آئین متعارف کروایا جس میں شاہی خاندان کے ارکان پر چند حکومتی عہدوں پر تعیناتی پر پابندی عائد کردی گئی تھی، شاہی حکومت میں دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمنٹ، آزادانہ انتخابات، صحافتی آزادی اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی اجازت دی گئی۔ اس سے افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ غیر ملکی امداد کی ملک میں آمد سے افغانستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ بتایا جاتا ہیکہ ظاہر شاہ افعانستان میں اکثر مختلف علاقوں کے دورے کرتے تھے اور غیر ملکی دوروں پر بھی جاتے تھے۔ لیکن ان سب اصلاحات کے باوجود ان کی حکومت خالص پشتون حکومت تھی جس کی وجہ سے دوسری اقوام میں بغاوت کے اثرات بھی نمودار ہوئے۔ خاص کر امریکہ نواز ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حمایت یافتہ قوموں نے بغاوت کیلئے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ اس کے باوجود ظاہر شاہ کے طویل چالیس سالہ دور حکمرانی کو امن، سکیورٹی اور جدید سیاسی اصلاحات کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ چالیس سال پر محیط ان کے دور اقتدار کی اہم باتوں میں خواتین کی تعلیم، انتخابات میں رائے شماری اور صحافتی آزادی شامل ہے۔ظاہر شاہ نے 1973ء میں جب وہ اٹلی کے دورے پر تھے تو ان کے رشتہ کے بھائی سردار محمد داؤد نے ان کا خاندانی تختہ الٹ دیا اور ایک ری پبلکن حکومت قائم کر لی اور اس کا صدر وہ خود بن گیا ۔ افغانستان پر طویل حکومت کرنے والے ظاہر شاہ اٹلی میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔9/11کے بعد جب امریکہ اور اتحادیوں نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو ایک بار پھر ظاہر شاہ سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے ۔ ظاہر شاہ 2002ء میں روم سے کابل واپس پہنچے اور تاریخی لویہ جرگہ کی سربراہی کی۔ بعد ازاں وہ دار الحکومت میں واقع اپنے سابق محل منتقل ہو گئے۔ ان کی اپنے سابق محل میں واپسی لویا جرگے میں طے پانے والے ایک معاہدے کا حصہ تھی۔ انہوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ حامد کرزئی کے مقابل افغانستان کے سربراہ کیلئے مقابلہ نہیں کرینگے۔ اپنے ملک افغانستان آنے کے فوراً بعد انہیں ایک بہت ہی المناک خبر ملی کہ انکی شریک حیات ملکہ حمیرا اٹلی میں دل کا دورہ پرنے سے انتقال کرگئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ظاہر شاہ ملکہ کے انتقال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی دنوں تک کسی سے ملاقات نہ کی۔ ان کے 8 بچے ہیں جن میں سے ایک شاہ محمود ظاہر 2002ء میں 56 سال کی عمر میں روم میں انتقال کر گئے ۔افغانستان کے موروثی بادشاہ ظاہر شاہ15؍ اکتوبر 1914میں پیدا ہوئے اور92سال کی عمر میں23؍ جولائی 2007ء کو کابل میں انتقال ہوا۔

امریکہ سے فضائی حدود کا احترام کرنے کا مطالبہ
افغانستان میں فضائی حدود کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے طالبان حکومت کے عہدیداروں نے امریکہ کی جانب سے افغانستان کی فضائی حدود میں ڈرون بھیجنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ہر ملک اپنی زمینی اور فضائی حدود کا مالک ہوتا ہے لہذا اماراتِ اسلامی افغانستان کی زمین اور فضائی حدود کا سرپرست ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ نے حال ہی میں تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی اور افغانستان کی فضائی حدود میں ڈرون بھیجے۔ طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایسی خلاف ورزیوں کو روک دینا چاہیے۔ امارات اسلامی افغانستان نے تمام ممالک خاص طور پر امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کام کریں۔

خواتین اساتذہ اور طبی کارکنان کا امریکہ سے مطالبہ
افغانستان میں طالبان قبضے کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان کے منجمد کئے گئے اربوں ڈالرز جاری کرنے کیلئے افغان خواتین اساتذہ اور طبی کارکنوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے۔خواتین کا کہنا تھا کہ منجمد کیے گئے اربوں ڈالرز امارات اسلامی افغانستان کو جاری کر دیے جائیں۔ان خواتین کا مزیدکہنا تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی بینکوں اور اداروں سے مالی امداد کی شدید ضرورت ہے۔خاما پریس نیوز ایجنسی کے مطابق 28؍ ستمبر کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران خواتین اساتذہ اور طبی کارکنان نے بین الاقوامی بینکوں اور دیگر اداروں سے کہا ہے کہ انہیں ان کی تنخواہیں دلوانے میں مدد کریں۔نیوز کانفرنس میں خواتین کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی بینکوں اور اداروں سے مالی امداد کی شدید ضرورت ہے تاکہ یہاں نوکریاں جاری رکھی جا سکیں۔افغانستان میں شرح تعلیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ ایسے پروگراموں کی حمایت کریں جو ملک میں شرح تعلیم میں اضافہ کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں عوام سخت اقتصادی حالات سے دوچار ہیں اور انہیں اس سے باہر نکلنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
***
 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.