یہ وقت اور فضل دین کی باتیں

"پاکستان سے مجھے کوئی شکوہ شکایت نہیں بیٹا.... "مجھے تو اس کے رہنے والوں سے شکایت ہے جو ہر مشکل گھڑی میں ہو کھلاہٹوں کی زد میں یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دھرتی کووہ مورحہِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ خود اسی کا حصہ ہیں یہ ستر سالہ فضل دین تھا جس کی بات نے مجھے لاجواب کردیا تھا جب وہ کہہ رہا تھا تو اُس کا لہجہ بھاری تھا۔ سنجید گی بھی تھی۔ پر بہت تکلیف دہ کرب بھی اُس کی آنکھوں سے جھلکتا تھا۔ جھلکنا بھی چاہیے تھا کہ فضل دین نے وہ پاکستان دیکھا جو اقبال کے خواب کی شکل کاتھا اور یہ پاکستان بھی دیکھ رہا ہے جوکم ازکم اُس خواب سے قطع مکمل نہیں دیکھا تا جو برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود فضل دین مایوس نہیں تھا اُسے دوسروں کی طرح پاکستان سے بھی شکایتیں نہیں تھیں وہ ہماری طرح یہ بھی نہیں کہتا تھاکہ پاکستان نے ہمیں سوائے غربت، مہنگائی اور دکھوں، مصیبتوں کے کیا دیا؟وہ یہ بھی نہیں کہتا تھا کہ "پاکستان کی سا لمیت کو خطرہ ہے؟؟

مجھے حددرجہ حیرانگی تھی کہ کیوں فضل دین اتنے پرآشوب وقت میں بھی دھرتی کو کوئی الزام نہیں دے رہا جبکہ ہر طرف دہشت،خوف، تباہی، بدامتی، ریشہ دوانیاں سر اُٹھا ئے ہوئے ہر ایک کو پریشان کررہی ہیں ملک کی حفاظت کرنے والے.....؟؟

مجھے کچھ وقت محسوس ہوئی کہ بابا جی کاذہنی توازن تو خراب نہیں؟ لیکن مجھے اپنے اس وہم کو تقویت کے لئے کوئی معقول جواز نہ کم سکا۔ پھر کیا میں اور آپ ذہنی طور پر خرابی کا شکار ہیں کہ ہمیں ہر طرف خوف، دہشت، قتل و غارت، کرپشن، بے روزگاری جرائم، افلاس، تباہی کے ہیولے نظر آتے ہیں.....؟؟

یہ طے کرنا کہ کس کا ذہنی توازن خراب ہے میرے لئے گھمبیر تر ہوگیا اور بلآخر کسی قطعی نتیجے سے پہلے اس پہلو ہر غورو خوض کرنا ہی ترک کردیا........فضل دین باباجی کے نام سے سارے محلے کے بابا تھے......کسی دور میں حوالدار تھے اور بہت محب الوطن تھے اب وہ حوالدار تو نہیں رہے لیکن اُن کی محب الوطن میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔

آج جب میں بازار کے لئے نکلی تو کسی نے دوسرے سے کہا: " امریکہ کی نظریں افغانستان کے بعد اب پاکستانیوں پر ہیں۔ ڈرون حملے ایبٹ آباد آپریشن، اسامہ کی پاکستان میں موجودگی اور مہران بیس پر حملے کراچی میں بدامنی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔"

"ہوں “میں نے زیرلب تائید کے انداز میں کہااور مارکیٹ کے اندر چلی آئی۔ کچھ شاپنگ کرنی تھی اور ذہن بھی مسلسل اُلجھ رہا تھاکہ "امریکہ کے بڑھتے ہاتھ کیسے روکے جا سکتے ہیں۔"

مجھے تو ابھی تک یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ اسامہ بن لادن راتوں رات کیسے سرزمین پاکستان میں پیدا کر لیا گیااور اس پیدائش پر امریکہ نے اپنے کمانڈوز آپریشن کے ذریعے جو ہلا گلہ کیا وہ اک ایساڈرامہ تھا جس کی سمجھ میری ناقص عقل سے باہر ہے۔ ایک ایسا شخص جو مطلوب ترین ہے وہ بقول امریکہ کے گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستان میں مقیم ہے۔ اور........... امریکہ کو پانچ سال گزر جانے کے بعد خیال
آیا کہ آپریشن کرکے اسامہ بن لادن جیسے خطرناک ترین انسان کو ابدی نیند سُلا دیا جائے ۔۔۔۔ کافی دلچسپی ہے اس میں گھڑت اسٹوری میں سب سے زیادہ دلچسپ اور کسی حد تک مضحکہ خیز بات اس ( من گھڑت اسٹوری) میں اسامہ بن لادن کے جسدِ خاکی کو سمندر برد کیا جانا تھا اور یہی اس فرضی کہانی میں وہ ٹرن تھا جس نے امریکی من گھڑت اسٹوری کے پلاٹ کو خاصا کمزور کردیا.....اس کو بھی جانے دیجئے تو ایک اور پہلو اس اسٹوری میں بدمزگی پیدا کرتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی موت کے بعد میڈیا کو جو تصاویر دکھائیں گئیں وہ بھی دونمبر تھیں۔۔۔۔

ویسے امریکہ جیسے نمبر ون کو دو نمبری زیب نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔

اس سارے عمل میں جو بات مثبت تھی وہ یہ کہ امریکہ خاصا صابر ملک ہے کیونکہ بچارا پورے پانچ سال سے صبر کررہا تھا کہ 2 مئی2011ءکا سورج طلوع ہو ور وہ اپنی پٹاری سے اسامہ بن لادن کو نکالے۔۔۔۔۔ ابھی اس پٹاری سے اسامہ نکلا ہی تھا کہ امریکہ نے پٹاری سمیت اسامہ کو سمندر برد کردیا۔۔۔۔۔۔

واہ کیا بات ہے۔۔ ویل ڈن۔۔! ویسے امریکہ کو میرا مخلصا نہ مشورہ ہے کہ اگر آئندہ کہانی ہی گھڑی ہوتو ہمارے ایک وزیر صاحب سے مل لیں وہ بھی بہت ماہر ہیں کہانیاں گھٹرنے کے۔۔۔۔۔

عالمی میڈیا نے بھی اس واقعے کو تنقید کانشانہ بنایا کہ 2001ءمیں اسامہ بن لادن ا جہان فانی سے کوچ کرچکے تھے لیکن اسکے ساتھ میڈیا نے پاکستان کے امیچ"Image" کو بہت خراب کیا، دنیا ہم پر انگلیاں اُٹھا اُٹھا کر ہنستی رہی۔

لیکن کسی نے امریکہ کو ٹھوس ثبوت پیش کرنے کو نہ کہا۔

پاکستان دہشت گردی کے خلا ف لاکھ قربانیوں کے باوجود بے آبرو رہا۔ ڈورن حملوں میں مرتے ہیں تو بے گناہ میرے لوگ، بم دھماکوں سے گھرا جڑتے ہیں تو میرے لوگوں کے پھر ابھی"ہم دہشت گرد"

یہ سوال تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ جواب کا متقاضی رہے گا۔۔۔

دکاندار نے مجھے لان کے چند نئے پرنٹ دکھائے تھے، لیکن میں اپنی سوچوں کے تانے بانے میں الجھی ہوئی تھی کہ دکاندارکو مجھے دوبارہ مخاطب کرنا پڑا۔

"بہن۔۔ نہیں لینا تو ہمارا ٹائم تو خراب نہ کرو۔۔۔ بی بی جاﺅ آپ۔۔۔ دکاندار ناراضگی سے کہتا کپڑے کے وہ تھان سمیٹنے لگا جو میری توجہ سے تاحال محروم تھے میں خاموشی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ دل ہی بوجھل تھا کہ
"یہ سب پاکستان کے ساتھ ہی کیوں۔۔۔۔۔"

ابھی 22مئی کی بات ہے کہ چھ لوگوں نے مہران بس پر حملہ کردیا او ر ساری دنیا نے ہماری غفلتوں کی خوب داد دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا ملک ہے جس کی آزادی، خودمختاری، سا لمیت تک محفوظ نہیں۔۔۔"اس واقعے سے دنیا کی نظروں میں جو پاکستان کی انسلٹ ہوئی وہ اپنی جگہ دکھ کی بات ہے لیکن اس کے پس ِپردہ امریکی عزائم بہت خطرناک ہے۔۔۔۔ وہ پاکستان پر قبضے کے لئے اپنے مہرے رکھنے اورچالیں چلنے کے عمل میں تیزی سے مصروف ہے۔ اور ایک ہمارے حکمران ہیں کہ ہربار "سیکیورٹی لیس"کوجواز بنا کر روایتی چال چلنے کے عادی۔۔۔۔

ہمیں اب ابھی اپنی سیاسی بساط کھیلنے کی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہوگی کسی طرح کے حالات میں ہم نے امریکہ کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن کچھ روز قبل ہلیری کلنٹن صاحبہ بھی یہ بتلا گئیں کہ "صاحبو۔۔ امریکہ مطالبات پرکان اور آنکھ بند کرکے عمل کرتے جاﺅ ورنہ۔۔۔۔(امریکہ کو تو پہچانتے ہوناں۔۔۔۔!)

امریکہ اپنے دفاع کےلئے "سب"کرنے کا سرٹیفکٹ رکھتا ہے"ہمارے حکمرانوں نے بے مثل تابعداری کا ازلی مظاہرہ کرتے ہوئے، "جو حکم آقا۔۔۔۔" کہہ کر سرکو جھکا لیا۔

دراصل اُن کو خطرہ ہے کہ امداد نہ ملی تو آسائشات بھری زندگی کدھرسے لا ئینگے۔۔ چائے وطن کاآنچل تارتار ہوتا رہے، انھیںامریکی"خوشامد" اور"جی حضوری" نہیں بھولتی۔۔۔

میں بنا کچھ خریدے و اپس گھر کی طرف آرہی تھی کہ بابا فضل دین اپنی چھڑی کے سہارے چلے آرہے تھے۔

"اوہ باباجی آپ"میں نے یوں کہا جیسے میرے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔

"بیٹی تم۔۔۔۔۔کیسا جارہا ہے تمھارا لکھنا۔۔۔۔!"وہ اپنی ازلی مسکراہٹ لئے شفقت سے بولے۔

"الحمد اللہ باباجی ۔۔۔ لیکن آجکل میں الجھی ہوئی ہوں بہت سے سوال ہیں جن کے جواب ملتے ہیں لیکن تشفی نہیں ہوتی۔۔۔۔ بابا آپ میرے ساتھ چلیں۔ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔؟ میں نے ان سے درخواست کی۔

ضروری بات۔۔۔؟؟ فضل دین بابا نے عجیب سی معنیٰ خیزی سے زور دیتے ہوئے پوچھا پھرخودہی بولے۔

"بیٹی سب سے ضروری بات تویہ ہے کہ "ہم کو دشمنوں سے زیادہ اپنی غفلتوں سے خطرہ ہے۔۔۔"

بابافضل دین کے پاس کہاں سے اتنی معلومات آتی ہیں میں سوچ کر رہ گئی کیونکہ اُن کی ہر بار کی طرح اس بار بھی بات سچی اور دل کو چھو جانے والی تھی۔

"جی بابا۔۔۔ یہی بات ضروری ہے ہمیں اب اپنی غفلتوں کی وادی سے نکل آنا چاہیئے تاکہ اس دھرتی کی آزادی، خودمختاری اور سا لمیت کو نگلنے والے الٹے پاﺅں اپنی اپنی بلوں میں جا گھسیں۔۔۔" میں نے تائید کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔فضل دین بہت خوش تھا میری تائید سے۔۔۔

"بیٹی تم دُعا کرﺅ، بیٹی کی دُعامیں اثر ہوتاہے۔۔"

"جی بابا"لیکن میں کس کس طرح اور کن کن لوگوں کی ہدایت کےلئے دُعامانگوں گی اللہ سے۔۔۔؟؟"

فضل دین میرے اس احمقانہ یا مدبرانہ سوال پر تھوڑا مُسکرائے اور مجھے دیکھتے ہوئے شفقت سے میرے سر پرہاتھ رکھ کر بولے۔

بیٹی تم صرف یہ دُعا مانگوکہ" پاکستان دشمنوں کی لگائی آگ سے اپنی آزادی سا لمیت سمیت خیروعافیت سے نکل آئے۔۔۔"

"آمین"میں نے زیرِ لب کہا اور گھر کو قدم بڑھادیئے کیونکہ یہ سب مجھے لکھنا بھی تھا۔
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.