دوہری شہریت رکھنے والوں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ دوہری شہریت کے حامل کسی بھی شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی الیکشن کمیشن نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس مسئلے پر موثر قانون سازی کرےمیرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ فیصلہ نہایت اہم اور دورس نتائج کا حامل ہے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان لوگوں کا راستہ رک جائے گا جوبرس ہا برس سے رہتے تو دیا ر غیر میں ہیں کبھی پاکستان آنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے یہ لوگ اپنے سارے مفادات اور اثاثے وہیں بیرون ممالک میںرکھتے ہیں انہیں کے اداروں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں انہی کا برا بھلا سوچتے ہیں مگر جب کھبی ان کے بیرونی آقاؤں کو ان کی خدمات کی ضرورت پاکستان میں آن پڑتی ہیں تو یہ لوگ واشنگٹن،نیوےارک یا لندن سے سیدھی فلائیٹ پکڑ کر اسلام آباد ( پاکستان ) پہنچ جاتے ہیں حالانکہ ساری عمر ان کے رشتہ دار ان کی شکل دیکھنے کو ترس رہے ہوتے ہیں مگر انہیں کسی خونی رشتے کی پرواہ نہیں ہوتی اطلاعات کے مطابق اپنی موجودہ پارلیمنٹ میں بھی دوہری شہریت کے حامل لوگ موجود ہیں !!لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق اگلے الیکشن سے ہوگااس طرح الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کی زد میں آنے سے موجودہ ارکان پارلیمنٹ بچ گئے ہیںلیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ جو برائی ہے وہ تو برائی ہے ہی اس لیے الیکشن کمیشن کا دوہری شہریت کے حامل ایسے ارکان پارلیمنٹ جو اب بھی رکن اسمبلی یا سینٹ ہیں ان کو اگلے الیکشن تک چھوٹ دینا قرین قیاس اورانصاف نہیں ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بہت ہی عمدہ اور ایک پاکستان دوست فیصلہ کیا ہے ابھی کل کی بات ہے کہ مشرف دور میں جناب شوکت عزیز صاحب ورلڈ بینک سے آئے اور وزیر خزانہ کا منصب سنبھال بیٹھے سینٹ کے رکن بعد میں بنے اور وزیر خزانہ پہلے یار دوستوں نے بڑا کہا کہ جناب مشرف صاحب !یہ موصوف پاکستان کے لیے قطعا سومند نہیں ہیں !!جس دن حکومت تبدیل ہوگی یہ بھی موصوف بھی دستیاب اگلی فلائیٹ سے واشنگٹن اور نیو یارک پرواز کر جائیں گئے لیکن ان ےار دوستوں کی آواز پر کسی نے کان نہ دھرے نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ مشرف کے پاکستان سے بھاگنے سے قبل شوکت عزیز ملک سے فرار ہوگئے تھے!! آج دوربین سے تلا ش کریں یا خوردبین سے ڈوھنڈیں کہیں نہیں نظر آئیں گئے اس سے پیچھے ذرا چلیں تو 1950 کی دہائی میں تو یہاں تک معاملات پہنچ گئے تھے کہ جب بھی کوئی خصوصی پرواز واشنگٹن یا نیویارک سے پاکستان کے لیے اڑتی تو یہاں سمجھ لیا جاتا تھا کہ نئے حکمران تشریف لا رہے ہیں پاکستان کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ جس کا جی چاہتا وہ منہ اٹھا کے حکومت کرنے پاکستان چلا آتا!!! اس دور میں چودہری محمد علی، محمد علی بوگرہ،بہت مشہور ہوئے تھے۔ان دنوں یہ بات عام ہے کہ پاکستان میں محمد علی بوگرہ معین قریشی،ڈاکٹر محبوب الحق،شاہد جاوید برکی اور شوکت عزیز براہ راست امریکی حکم پر پاکستان آئے تھے!! جنرل ضیا ءالحق کے سنہرے دور میں بھی ورلڈ بینک نے ایک تحفہ یعنی ڈاکٹر محبوب الحق پاکستان کے حوالے کیا تھا ڈاکٹر محبوب الحق بھی ورلڈ بینک میں ڈا ئریکٹر تھے یہاں وہ ضیاءالحق کے وزیر خزانہ کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے موصوف کی ایک بیٹی بھی ورلڈ بینک ہی میں خدمات کے لیے مامور تھیں جنرل ضیاءالحق کے دینی عقائد کا پتہ لگانا ہو تو ان کے وزیر خزانہ کی اسلام سے وابستگی کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے اس کے لیے میں یہاں اگر ایک واقعہ تحریر نہ کروں تو زیادتی ہو جائے گی واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب پاکستان کے صدر جناب غلام اسحاق خان نے 6 اگست 1990 کوبے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کی تھی تو اسی دن جنرل ضیا ءالحق کے وزیر خزانہ جناب ڈاکٹر محبوب الحق کی بیٹی کا نکاح ایک ہندو نوجوان سدھیر کمار سے ہورہا تھا یہ نوجوان سدھیر کمار بھی ورلڈ بینک میں ملازم تھا دیکھا صاحبو !!! پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے والے امیر المومینین جنرل ضیاءالحق نے اپنے اسلامی ملک کے مالی معاملات چلانے کے لیے کیسا دیندار بندے کو منتخب کیا تھا جناب ڈاکٹر محبوب الحق نے بطور وزیر خزانہ پاکستان 1982 سے 1988 فرائض سرانجام دیئے اس کا مطلب ہے کہ جب تک جنرل ضیاءالحق پاکستان پر حکمران رہے موصوف بھی وزیر خزانہ رہے پھر جب میاں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اس وقت کے صدر پاکستان جناب غلام اسحاق خان کے ساتھ نہ نبھ سکی تو طے ہوا کہ کسی غیرجانبدار شخصیت کی زیر نگرانی نئے الیکشن منعقد کرائے جائیں تو اس مقصد کےلیے ورلڈ بینک کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا گیا ورلڈ بینک نے ہمیں اپنا ملازم جناب معین قریشی نگران سیٹ اپ کے لیے نگران وزیر اعظم عنایت کیا اس پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک نگران وزیر اعظم کی پاکستان سے الفت اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد موصوف کا شناختی کارڈ بنایا گیا تھا!! یعنی پاکستان کے وزیر اعظم صاحب کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور سبز پاسپورٹ تک نہ تھا میرے خیال میں یوں کہنا بہتر ہوگا کہ موصوف معین قریشی نے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بنواناپسند نہیں کیا تھا لیکن پاکستان کے اصل حکمرانوں (یہودیوں کے سرپرست امریکہ) نے اسے حکم دیا تو وہ فورا دوڑتاچلا آیاصاحبو !! پاکستان کی بد قسمتی کا سفر یہی ختم نہیں ہوتا ایک شاہد جاوید برکی نامی صاحب بھی پاکستان میں خدمات دینے تشریف لائے تھے یہ موصوف بھی ورلڈ بینک کے ہی ملازم تھے!ً!!صاحبو ! دیکھ لیا آپ نے کہ کس طرح ان بدیشیوں نے پاکستان کے میں جینے مرنے والوں کا حق مارا!!!ان ہی بنیادوں پر میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کی نہ صرف حمایت کرتا ہوں بلکہ اس فیصلے کے فوری اطلاق کے حق میں بھی ہوں مگر یہاں ایک مجبوری رکاوٹ بن رہی ہے وہ یہ کہ ابھی حکومت نے اس حوالے سے ضروری قانون سازی کرنی ہےمیری حکومت سے فوری اپیل ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ہی اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرنے کی جانب اپنی توجہ دے خدا آپ کا اقبال بلند کرے !! میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہ بھی گزارش کروں گا کہ وہ عام آدمی کے الیکشن میں حصہ لینے کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرےاگر کوئی عام آدمی الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو اسکے تما م اخراجات حکومت برداشت کرے یا الیکشن کمیشن کیونکہ الیکشن میں حصہ لینا ہر پاکستانی شہری کا بنیادی حق ہےاگر ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا تو دوہری شہریت پر پابندی کا فیصلہ نامکمل ہی رہے گا میں تو الیکشن کمیشن سے یہ بھی مطالبہ کروں گا کہ وہ موجودہ پارلیمنٹ میں بیٹھے دوہری شہریت کے حامل افراد کی فہرست فوری طور پر جاری کرے تاکہ پاکستانی قوم کو پتہ چلے کہ کتنے غیر ملکی پاکستان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیںپاکستان کے یہ ہمدرد بیرون ملک جاتے ہیں اپنے ذاتی کاروباری معاملامات دیکھنے اپنے پیاروں کو ملنے،اپنے مالی مفادات کو دیکھنے مگر اپنے اخراجات پاکستان کے قومی خزانے سے وصول کرتے ہیں کتنے بڑے ہمدرد اور غمخوار ہیں یہ لوگ پا کستان اور پاکستانی قوم کےہوگئی ناںحد حب الوطنی کی اور ہوگئی ناں یاراں دی بلے بلےشائد اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا کہ چوپڑیاں تے نا لے دو دو
Anwar Abbas Anwar
About the Author: Anwar Abbas Anwar Read More Articles by Anwar Abbas Anwar: 2 Articles with 1541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.