امریکی دوستی کا انتہائی قریب سے
مشاہدہ کرنے والے شہنشاہ ہ ایران رضا شاہ پہلوی نے اپنی بیوی کے ہمراہ
تہران ایر پورٹ سے راہ فرار اختیار کرتے وقت دنیا کو کیا خوب میسج دیا تھا
کہ”آپ امریکہ کے دشمن بن کر تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر دوست بن کر نہیں “ اسی
طرح عربوں کی یہ کہاوت بھی بہت مشہور ہے کہ”اگر آپ امریکہ کے دشمن ہیں تو
وہ آپ کو مہنگے داموں خرید لے گا اور اس کے دوست ہیں تووہ آپ کو مفت میں
مروا دے گا “۔ ہم دیکھ رہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں یہی مندرجہ بالا
مثالیںواقعی سچ ثابت ہو رہی ہیں اوران تعلقات کی تاریخ میں اس وطن کے عوام
کو ماسوائے رسوائی ،بدنامی ، بے عزتی اور بے توقیری کے کچھ ہاتھ نہیں آیا
اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان جب کبھی بھی امریکہ کے قریب ہوا
امریکہ بہادر نے اس سے اپنا مطلب نکالا، اسے یوز کیا اوراپنا مفاد حاصل کر
کے اسے حرف ِ غلط کی طرح بھلا ڈالایا پھر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے
نفرت کے ساتھ پرے پھینک دیا۔آج ایک بار پھر امریکہ نے اپنی بے وفائی اور بے
اعتنائی کی سیاہ تاریخ کو دہراتے ہوئے پاکستان کی فوجی امداد پر پا بندی
عائد کر دی ہے ۔ امریکی صدر باراک اوباما کے چیف آف سٹاف ولیم ڈیلے نے اس
پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے کچھ ایسی غلطیاں سر زد ہوئی
ہیں جن کی بناءپر اس کی امداد روکنا پڑی ، گو کہ امریکہ کی جانب سے اپنے اس
”مخلص دوست“ کی غلطیوں کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ
پاکستان کی جانب سے شمسی ایر بیس خالی کرانے کا مطالبہ اور احتجاج اس کی
اہم وجہ بنا ، مگر کوئی قربان جائے ہماری وفاداری اور وفا شعاری پر کہ ہم
پھر کشکول اٹھائے سی آئی سر براہ لیون پٹینا کے پاس جاپہنچے ہیں اور اس نے
ہمیں پھر یقین دلادیا ہے کہ اگر آپ سیدھے ہوجائیں تو ہم امداد پر دوبارہ
غور کر سکتے ہیں یعنی اپنی گزشتہ تریسٹھ برس کی بے غیرتی والا لبادہ آپ
بدستور ا وڑھے رکھیں تو ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، محب وطن حلقوں کے
خیال میں تو یہ ایک بہترین موقع تھا کہ پاکستان ایسی ”بازاری دوستی“ سے
نجات حاصل کر سکتاتھا ، مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کیوں بھول رہی ہے کہ
امریکہ نے ہر نازک صورتحال پر پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ،
امداد کے دروازے اس پر وا کیے گئے مگر جب پاکستان خود اسی دوستی کی وجہ سے
مشکل میں پھنسا تو اسے اکیلا بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا گیا ۔آئیے اس
”بازاری دوستی“ کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں۔
1965ءمیں پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی امریکہ نے پاکستان کی امداد روک دی
تھی اور 1971 ءمیں جب بھارت نے مشرقی پاکستان میںپاکستانی فوج کو مشکلات سے
دوچار کیا تو اس وقت بھی امریکہ نے ہماری طرف سے رخ پھیر لیا تھا لیکن
ہمارے اس وقت کے نااہل اعلیٰ حکام، جنرل ٹائیگر نیازی کو یہ کہہ کر جھوٹی
تسلیاں دیتے رہے کہ بس آپ ذرا صبر سے کام لیں امریکہ کا بحری بیڑہ آپ کی
امداد کو جلد پہنچ رہا ہے ، پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چند سال بعد
ہم نے امریکہ کے آگے ہاتھ پاﺅں پھیلانے شروع کر دیے اورہم پر رحم کرتے ہوئے
امریکہ بہادر نے امداد بحال کر دی، 1979ءمیں جب پاکستان نے ا یٹمی پروگرام
کے سلسلے میں تگ و تاز شروع کیں تو امداد کا یہ سلسلہ روک دیا گیا اور
عالمی سطح پر اقتصادی میدان میں وطن عزیز کے لیے مشکلا ت کھڑی کی گئیں ،
امداد کا سلسلہ کسی طور بحال ہوا ہی تھا کہ1991ءمیں افغانستان سے روسی
افواج کے انخلاءکے بعدجب امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان سے اپنا مفاد نکل چکا
تو ایک بارپھر ہم پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور پاکستان کو اپنے حال پر
چھوڑ دیاگیا۔ ازاں بعد جب حالات نے پلٹا کھایاتو نائن الیون کے بعد امریکہ
کو اپنے اس ”دیرینہ “اور” بے وقوف“ دوست پاکستان کی یاد آئی اورا س وقت کے
بزدل حکمران صدر پرویز مشرف کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا یا گیا جس میں کافی
حد تک تحکمانہ انداز اپنا کر یہ دھمکی دی گئی کہ اگر اب کی بار آپ نے ہمارا
ساتھ نہ دیا تو پتھر کے دور میں دھکیل دیے جاﺅ گے ، پاکستان کے اس بزدل
”کمانڈو“ نے استعمار کی اس دھمکی سے مرعوب ہو کر وطن عزیز کا چپہ چپہ
امریکہ کے حوالے کر دیا اور افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے ہر
قسم کا تعاون کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر
میں بم حملوں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا جو آج بھی جاری ہے ۔پاکستانی
حکمرانوں کی اس ”وفاداری “کے بدلے میں امریکہ بہادر نے امداد کے دروازے
کھول دیے اور اسے دنیا بھر میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی اور مخلص ترین دوست
ڈکلیئر کروادیا۔نائن الیون سے لے کر آج تک امریکہ کا ساتھ دینے کی پاداش
میں پاکستان کو پینتیس ہزار عام شہریوں اور پانچ ہزار فوجیوں کی قربانی
دینا پڑی مگر نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا ور ہم محض خاک ہی
پھانکتے رہ گئے ۔امریکی حکام کی جانب سے ہر موقع پر پاکستان کے کردار کو شک
کی نظر وں سے دیکھا گیا اور اس کی فوج ، آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کو
طعن و تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنا یا گیا، حال ہی میں وائٹ ہاﺅس کے پریس
سیکرٹری جے کارنی نے صحافیوں سے گفتگوکر تے ہوئے کہا کہ ”پاکستان اور
امریکہ کے تعلقات مثالی نہیں ہیں اور ان میں کافی حد تک پیچیدگیاں پائی
جاتی ہیں، ہم صرف اس لیے پاکستان کے ساتھ چل رہے ہیں کہ القاعدہ و طالبان
کے خاتمے کے لیے پاکستان کا ساتھ بہت ضروری ہے “۔ اب وائٹ ہاﺅس کے اس تازہ
بیان سے امریکہ کی بد نیتی اور چالاکی صاف عیاں ہو رہی ہے مگر ہمارے
حکمرانوں کی ژولیدہ فکر ی اور اخلاقی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ وہ یا تو سوچنے،
سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو چکے ہیں یا پھر دانستہ طور پر عالمی
استعمار کے ایجنٹ کے طور پر ورک کر رہے ہیں اور یہ چند فیصدطبقہ اشرافیہ
پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے کسی انجانی منزل
کی جانب لیے جارہاہے۔وائٹ ہاﺅس اور واشنگٹن سے جاری اس قسم کے بیانات سے
صاف واضح ہے کہ امریکہ کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی افغان طالبان سے بری طرح
پٹ چکا ہے اور اب وہ یہ ساری ناکامی پاکستان کے کھاتے میں نہ صرف یہ کہ
ڈالنا چاہتا ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ افغان جنگ اب پوری کی پوری پاکستان
میں منتقل ہو جائے اور اس بھیانک کارروائی کا آغاز نو ، دس سال پیشتر ہی ہو
چکا ہے جب کہ حال ہی میں اس میں شدت کچھ اس طرح سے آئی ہے کہ اب افغان دہشت
گردوں اور شرپسندوں کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کارروائیوں پر اکسا یا
جا چکا ہے جس کا ایک بھیانک منظر ہم دیر بالا میں پاکستانی فوج کی چیک
پوسٹوں پر حملے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں اس پس منظر میں امریکہ کی بد نیتی
صاف نمایاں ہے کہ جس طرح اس نے ویت نام جنگ میں تاریخی شکست فاش کا بدلہ
کمبوڈیا سے لیا تھا اور اسے نشانہ بنایا تھا وہی تاریخ وہ پاکستان کی دھرتی
پر دہرانا چاہتا ہے اور افغان طالبان کے لگائے گئے زخموں کا غصہ پاکستان پر
نکالنا چاہتا ہے ۔ایمن الظواہری کی فاٹا میں موجودگی ، پاکستان کے ایٹمی
اثاثوں کے بارے میں امریکی تحفظات اور اب فوجی امداد کی بندش یہ سب ایسے
اقدامات ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کو اور بھی زیر کیا جائے اور
اس سے ہر ناجائز مطالبہ منواکر اسے درحقیقت شکست و ریخت کے راستے پر گامزن
کیا جائے ۔ صبح و شام امریکہ کی مالا جپنے والے حکمرانوں کو ایک طرف رکھیے
ملک کی دیگر مذہبی ، سیاسی جماعتوں اور عام شہریوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر
ہم کب تک امریکہ کے غلام ان لوگوں کو مسند اقتدار پر براجمان کرتے رہیں گے
اور ان کے ہاتھوں یوں کھلونا بنتے رہیں گے کہ امریکہ ہمارے مفادات کے ساتھ
خطرناک قسم کا ” خونی کھلواڑ “ کرتا چلا جائے گایاپھر ہمیں ٹشو پیپر کی طرح
یوز کرتا رہے گا؟بے غیرتی ، بے ضمیری اور اخلاقی گراوٹ کی بھی تو آخر کوئی
حد متعین ہوتی ہوگی۔۔۔۔ ؟ آخر اس دھرتی کے اصل مالک یہاں کے عوام ایسے
حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کا کیوں نہیں سوچتے جو گزشتہ تریسٹھ برسوں سے
اس دھرتی کے بخیے ادھیڑ رہے ہیں اور انہوں نے اس وطن کو امریکہ کے آگے گروی
رکھ دیا ہے ؟یہ بات بہرحال نوشتہ دیوار ہے کہ اگرگزشتہ نصف صدی سے زائد
عرصہ تک امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا تو آئندہ بھی اس
”کوئلے کی دلالی“میں منہ کالا کرنے کے علاوہ ہمیں کچھ میسر نہیں آئے گا۔ جب
ہم اس راز کو بھی پا چکے کہ دراصل امریکی دوستی ہی ہمیں دلدل کی طرف لے
جارہی ہے اور سارے فساد ، قتل و غارت گری ، افراتفری کی جڑ یہی پاک امریکہ
تعلقات ہی ہیں تو ہم ایسے دوست نما دشمن سے خلاصی کیوں نہیں حاصل کر لیتے
تاکہ قوم کے غلامانہ طرزِ زندگی کی یہ سیاہ اور طویل رات ختم ہو ، ایک روشن
سحر طلوع ہو اور دھرتی پر امن ، محبت ، بھائی چارے کا بول بالا ہو اور ہم
تمام تر نامساعد حالات کا بحیثیت قوم مقابلہ کرکے خود انحصاری کے زینے طے
کرتے ہوئے زوال سے عروج کی جانب عازم سفر ہوں ۔ |