سندھ میں لگائی جانے والی تازہ آگ کے ذمہ دار ذوالفقار مرزا یا کوئی اور۔۔۔۔۔۔؟

پیپلز پارٹی کے جیالے و سندھ کے صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا نے صوبہ کی کشیدہ صورتحال اور متحدہ کی ناراضگی کو مزید ہوا دینے کے لیئے 13جولائی کی شب جو جذباتی بیان دیا تھا اس پر تقریباََ 12گھنٹے بعد ہی انہوں نے معذرت کرلی جو ایک اچھا عمل ہے لیکن انہوں نے جو زبانی تیر چلایا تھا اس کے نتیجے میں خدشات کے عین مطابق کراچی سمیت پورا سندھ بدھ اور جمعرات کی شب سے آتش و آہن کی لپٹ میں آیا ہوا ہے اور خدشات ہے کہ ذوالفقار مرزا کی لگائی ہوئی اس آگ کو بجھنے میں وقت لگے گا۔

ذوالفقار مرزا نے ” جلتی پر تیل “ ڈالنے کے مترادف بیان پہلی بار نہیں دیا بلکہ وہ اس معاملے میں خاصے تجربہ کار اور بدنام بھی ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے لیئے بہت اہم بھی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی قریب میں انہیں اسی طرح کے بیانات کے نتیجے میں سندھ سے جبری رخصت پر بھیج دیا گیاتھا اور اس مقصد کے لیئے انہیں صوبہ ہی نہیں بلکہ ملک کو کچھ عرصے کے لیئے چھوڑنا پڑا تھا تاہم انہیں صوبائی وزیر کی تنخواہ اور مراعات قومی خزانے سے دی جارہی تھی ۔ ذوالفقار مرزا نے امریکہ روانہ ہوتے ہوئے جو کچھ کہا تھا انہوں نے آنے کے بعد پورا کردیا جس کا خمیازہ نہ صرف کراچی اور سندھ بلکہ ملک کے مختلف شہروں کو بھی بدھ سے بھگتنا پڑرہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پارٹی کا گراف مزید گرانے ، کشیدگی میں اضافہ کرنے اور مہاجروں یا اردو بولنے والوں کی دل آزاری کرنے والے ذوالفقار مرزا جیسی شخصیات کو کیوں پالا جارہا ہے ؟ ان کے خلاف ملک اور صوبہ نہیں تو خود پارٹی کے مفاد میں کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟

متحدہ قومی موومنٹ کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اسی طرح اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین بھی دیگر تمام سیاست دانوں کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں، کوئی تو جادو ہے ان میں کہ وہ کروڑوں لوگوں سے بیک وقت مخاطب ہوتے ہیں اور یہ تمام افراد ان کے لیئے بغیر سوچے سمجھے سب کچھ کرنے کے لیئے بھی تیار ہوجاتے ہیں،بدھ کی رات سے تادم تحریر کراچی اور سندھ کے شہروں کی جوصورتحال ہے وہ ان کے چاہنے والوں کا رد عمل نہیں تو اور کیا ہے؟

متحدہ ایک منظم اور طاقتور تنظیم ہے ، سندہ کے سینئر وزیر نے اپنے بیان سے متحدہ اور اس کے کارکنوں کو نہ صرف اپنی طاقت کے اظہار کا موقع فراہم کیا بلکہ ان کی خاموشی کو کھلا چیلنج دیکر ان کی صفوں کو گرم کردیا اب یہ گرمی ذوالفقار مرزا کی معافی سے اچانک ہی ٹھنڈی ہوتی نظر نہیں آتی ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ اب صرف اردو بولنے والوں کی جماعت نہیں رہی اس میں پنجابی ،پٹھان،بلوچی اور دیگر قوموں کے لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں لیکن ذوالفقار مرزا کے بیان سے خاصی تکلیف مہاجروں یا اردو بولنے والوں کو ہوئی ہے انہوں نے اپنی نازیبا باتوں سے پاکستان بنانے والوں کی اولادوں ،ملک کی کئی اہم شخصیات اور انصار برنی جیسے انسان دوستوں کا دل دکھایا ہے ان کے اس بیان سے لسانی سیاست کو ہوا بھی مل سکتی ہے اس لیئے پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاََ آصف علی زرداری پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر ایسے اقدامات کریں جس سے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ان کی دل آزاری کا مداوا کیا گیا، اگر ایسا کرنے میں پیپلز پارٹی ناکام رہی تو پھر اسے حکومت چھوڑنے کی تیاری مکمل کرلینی چاہئے۔

متحدہ قومی موومنٹ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا احتجاج سرکار ی یا نجی املاک کو نقصان سے دوچار کیئے بغیر کرے کیونکہ پہلے ہی ہمارا ملک نقصانات اور تباہی سے دوچار ہے اس لیئے مزید تباہی سے ملک اور قوم برباد ہوجائے گی اور اس کا فائد ہ غیر ملکی اور ملک دشمن قوتوں کو ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسی ملک پہلے ہی ہمارے وطن پر نادیدہ نظریں گاڑے ہوئے ہے ،متحدہ نے شہروں کو بند کردینے والے احتجاج کو نہیں روکا تو ملک کو ناتلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس پر بھی بعض لوگ دشمن ملک کے ایجنڈے کو تکمیل کرنے کا الزام لگاسکتے ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ متحدہ نے اپنے کارکنوں یا عوام کو لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والے احتجاج کی کال نہیں دی تھی لیکن مرزا کے اشتعال انگیز بیان کے بعد کارکنوں کا مشتعل ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔

مگر یہ بات بھی تو اہم ہے کہ بھارت میں ماضی میں جب بھی کچھ ہوا تو کراچی میں بھی دوسرے ہی دن آگ لگادی جاتی رہی، ممبئی میں دو سال قبل اجمل قصاب جسے دہشت گردوں کی کارروائی کے نتیجے میں ممبئی تین دن کے لیئے بند ہوگیا تھا لیکن نہ جانے کیوں کراچی بھی تین دن کے لیے بند کردیا گیاتھا یہ محض اتفاق بھی ہوسکتاہے کہ ممبئی حملے کے فوری بعد کراچی کے اورنگی ٹاؤن میں حالات خراب ہوگئے تھے اور کراچی کواحتجاج کرکے بھی بند کردیا گیاتھا ۔لیکن کل سے پید ا ہونے والی صورتحال کو بھارت کے شہر ممبئی میں گذشتہ روز (بدھ کو) ہونے والے تین دھماکوں کے واقعے سے بھی جوڑا جاسکتا ہے اوراس کے پیچھے ان تمام فریقوں خصوصاََ سندھ کے سینئر وزیر کے ملوث ہونے کا بھی شبہ ظاہر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس بار ساری صورتحال کے وہ ہی تن تنہا ذمہ دار نظر آتے ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی حرکت میں آنے کی ہدایت کی جائے اور پہلے سے موجود اطلاعات کو سامنے رکھ کر مزید تحقیقات کی جائے اور ملوث افراد چاہے وہ کتنے ہی بااثر اور طاقت ور کیوں نہ ہو سخت ترین کاروائی کی جائے کیونکہ یہ ہی وقت کا اولین تقاضہ ہے۔

حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اپنی ترجیحات عوامی امنگوں کے مطابق بنائے نہ کہ ذاتی مفادات کے مطابق ، موجودہ حکومت اس لحاظ سے زیادہ خوش قسمت ہے کہ اسے اپنی ترجیحات کے تعین اور اس پر عمل کرنے کے لئے مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ ماضی میں کسی بھی جمہوری حکومت کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی جس کی وجہ جنرل کیانی ہیں جنہوں نے آرمی چیف کا چارج سنبھالتے ہوئے ہی یہ اعلان کردیا تھا ک وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے فوج صرف وہ ہی کرے گی جو اس کا اپنا کام ہے انہوں نے آرمی کو بھی یہ حکم دے دیا تھا اور فوجیوں کے سیاست دانوں سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن لگتا ہے کہ پاک فوج کی اس پالیسی غلط فائد ہ اٹھایا جارہا ہے اور حکومت عوام کے مسائل کے سدباب کے بجائے اپنے ذاتی ایجنڈے کو مکمل کرنے میں مصروف ہے جبکہ عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے صرف بیان بازی سے کام لے رہیں ہیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165852 views I'm Journalist. .. View More