میں ایک امریکی خاتون ہوں اور
امریکہ کے قلب نیویارک میں پیداہوئی' میری نوجوانی ایک امریکی لڑکی ہی کی
طرح گزری' میرا ایک ہی شوق تھاکہ امریکا کے عظیم شہر کی گلیمربھری زندگی
میں جاذبیت اور دلکشی کی دوڑ میں حصہ لوں لیکن میری نسوانی کوشش جس قد
ربڑھتی جاتی اورجتنا میں بظاہر کامیابیوں کی منزلیں طے کرتی میرے اندرونی
خلاء اور بے اعتمادی میں اسی قدراضافہ ہوتاجاتا' میں ایک شدید قسم کی ذلت
اور حقارت میں اپنے آپ کو ڈوباہوامحسوس کرتی ' میں فیشن کی غلام بن گئی تھی
اورمیرا مصرف بس یہ تھاکہ دوسروں کی آنکھوں اوردلوں کو خوش کردوں' میرا
معیار زندگی جتنا اونچا ہوتا میرا اعتماد اتنا ہی نیچاہوتا' میں نے ان
حقائق سے منہ چرانا چاہا مگر وہ فرار کے ہر موڑ پرمجھ کو منہ چڑانے کیلئے
موجود ہوتے' آخر میں اس زندگی سے تنگ آگئی ' میں نے نشہ کی پناہ لی' کلبوں
اور پارٹیوں میں جاکر دل بہلانا چاہا' مگرسب بے سود' یہ سب تدبیریں ناکام
ہوگئیں تو مذہب بدلے' ایکٹوازم کا سہارالیا' یعنی فلاحی اور اجتماعی
تحریکوں میں لگی' مگر مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی کہ مصداق جس قدر میری
ترقی میں اضافہ ہورہاتھا اور میرا لائف اسٹائل جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا'
میری اندرونی بے اعتمادی کی آگ مجھے جلاتی جارہی تھی' میںنے دیکھا کہ اسلام
اوراسلامی اقداروتہذیب کیخلاف ایک خطرناک اور چوطرفہ حملہ ہوچکاہے اورپھر
بد اور بدنام صلیبی جنگ کا بھی اعلان ہوتاہے' اب تک تو میرے ذہن میں اسلام
کے نام پر صرف چند تصویروں کے نقوش تھے' ترپالوں میں لپٹی عورت ' بیبیوں
کوپیٹتے مرد' گھروں کے پچھلے حصے میں زنان خانے اور دہشت گردی کی دنیا۔
میں ایک سماجی کارکن تھی جو عورتوں کی آزادی کی علمبرداراور دنیا میں لوگوں
کی بہتر زندگی کیلئے کچھ کرناچاہتی تھی' اپنے اس کام کے سلسلے میں میری
ملاقات ایک سینئر سماجی کارکن سے ہوئی جو اس سلسلے میں اچھاکام کرچکاتھا'
وہ بلاکسی تفریق کے سارے انسانوں کیلئے انصاف اور فلاح وبہبود کاداعی تھا'
اس شخص سے ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ انصاف' آزادی اوراحترام' یہ
آفاقی اقدار ہیں۔ اسی طرح اچانک ایک دن میرے سامنے قرآن مقدس آیا' مغرب نے
جس کی بڑی منفی تصویر بنارکھی ہے پہلے تو قرآن کے اسلوب وانداز نے مجھے
متوجہ کیا' پھر اس نے کائنات ' انسان اور زندگی کے حقائق اور عبدومعبود کے
رشتے پر جو روشنی ڈالی ہے اس نے مجھے مسحور کردیا' میں نے دیکھاکہ قرآن نے
اپنی بصیرت کا مخاطب براہ راست انسان اور اس کی روح کوبنایاہے اور آخرکار
وہ لمحہ آگیا جب میں نے سچائی کوتسلیم کرلیا اور جس منزل کیلئے سرگرداں تھی
اور جس سکون کیلئے بیتاب تھی 'مجھے یقین ہوگیاکہ وہ صرف اسلام قبول کرکے ہی
حاصل ہوسکتاہے' میری داخلی بے تابیوں اور اضطراب کا علاج صرف ایمان سے
ہوسکتاہے اور میرے مسائل کا حل مہم جوئی میں نہیں عملی مسلم بننے میں ہے ۔
میں نے ایک برقعہ اور سراور گردن کو ڈھکنے والا اسکارف خرید لیا جوایک مسلم
عورت کا شرعی لباس ہے اب میں اسلامی باوقار لباس کے ساتھ ان راستوں اور ان
دکانوں اور لوگوں کے سامنے سے گزرتی جن کے سامنے کچھ دن پہلے میر اگزر شارٹ
اور شاندار مغربی لباس میں ہوتا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھابس ایک چیز بدلی
ہوئی تھی یعنی میرا اندرونی اطمینان وسکون اورخوداعتمادی اور تحفظ کا
احساس' گویا میں نے ایک آزادی حاصل کرلی تھی۔ میں بڑی خوش تھی کہ ان آنکھوں
میں اب تعجب اور دوری کے آثار تھے' جو پہلے مجھ کو ایسے دیکھتے تھے جیسے
شکاری اپنے شکار کو اور باز ننھی چڑیا کو۔ حجاب نے میرے کندھوں کے ایک بڑے
بوجھ کو ہلکا کردیا' مجھے ایک خاص طرح کی غلامی اور ذلت سے نکال دیا' اب
دوسروں کے دلوں کولبھانے کیلئے میں گھنٹوں میک اپ نہیں کرتی تھی۔ اب میں اس
غلامی سے آزاد تھی' ابھی تک میر اپردہ یہ تھاکہ صرف ہاتھ اورچہرے کو چھوڑ
کر میراپورا جسم ڈھکاہوتامیں نے اپنے شوہر سے (جن سے اسلام قبول کرنے کے
بعد میں نے نکاح کرلیاتھا) مشورہ کیا ' ان کی رائے تھی کہ چہرہ ڈھکنا یعنی
نقاب افضل ہے لازمی نہیں پھر میںنے اپنے شوہر سے کہاکہ میں چہرہ بھی ڈھکنا
چاہتی ہوں ' اس لئے کہ مجھے لگتاہے کہ یہ میرے اﷲ کو زیادہ راضی کرنے والا
عمل ہوگا' وہ مجھے ایک دکان پر لے گئے جہاں میں نے ایک عربی برقعہ خریدا۔
ہدایت یابی کا میرایہ سفر جاری تھاکہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ آزادی کے
علمبرداروں اورنام نہاد انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والوں نے حجاب ونقاب
کیخلاف مہم چھیڑ دی۔ کوئی کہتاہے کہ حجاب عورت پرظلم کی علامت ہے' کوئی
اعتراض کررہاہے کہ یہ اتحاد یکجہتی میں رکاوٹ بن رہاہے اور اب مصر سے کسی
نے یہ کہتے ہوئے سرمیں سرملایاکہ یہ پیچھڑے پن کی نشانی ہے۔ یہ بھی کیسی
منافقت اوردوغلا رویہ ہے کہ اگرکوئی حکومت عورتوں کے لباس کیلئے کچھ ضابطے
بنائے تو مغرب کہتاہے کہ یہ انسانی آزادی کی مخالفت اور حقوق انسانی کی
خلاف ورزی ہے اوراگر عورت اپنے انتخاب سے نقاب اوڑھے تو آپ اس کی آزادیوں
کو سلب کرتے ہیں۔
اب میں بھی فیمنسٹ (عورتوں کے حقوق کی حامی) ہوں' مگرایک مسلم فیمنسٹ جو
مسلم عورتوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی ذمہ داریوں کو اداکریں'
اپنے شوہروں کی ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں' اپنے بچوں کو اس طرح
تربیت دیں کہ وہ استقامت کے ساتھ دین پرجمیں اور اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی
انسانیت کیلئے مینارہ نور بن جائیں' وہ مزید فرماتی ہیں کہ مسلم عورت کو
چاہئے کہ اپنے حجاب ونقاب کیلئے اور حق کی خاطر لڑیں کیونکہ کل تک میں بھی
عریانیت کوہی اپنی آزادی کی علامت سمجھتی تھی لیکن آج مجھے اپنے فحش لباس
کو اتار کر اورمغرب کی دلربا طرز زندگی کو چھوڑ کر اپنے خالق کی معرفت
وبندگی والی ایک باوقار زندگی کو اختیار کرنے سے جو مسرت واطمینان کااحساس
ہواہے میں اس کی کوئی مثال نہیں دے سکتی اور آخر میں میراپیغام ہے ان
عورتوں کو جو اسلامی حجاب کی باوقار وباحیا تہذیب کے بارے میں مغرب کے
قدیم' گھسے پٹے متعصبانہ تصورات کا شکارہیں کہ تمہیں پتہ نہیں تم کیسی عظیم
نعمت سے محروم ہو اورتہذیب کے نامبارک ٹھیکیداروں اور نام نہاد صلیبوں سے
بھی میرایہ کہناہے کہ تم بھی حجاب کو اختیار کرو' اسی میں تمہاری نجات ہے۔ |