کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ غیر
ملکی کرنسی کی ڈیکلریشن میں کچھ ہیر پھیر کرنے کے چکر میں ریاض پر کیس ہو
گیا ہے، اُس وقت برما کا قانون تھا کہ کوئی بھی غیر ملکی کسٹم میں ڈیکلئر
کر کے جتنے چاہے ڈالر لا سکتا ہے اور اس کے بدلے وہاں سے ایکسپورٹ کروا
سکتا ہے جس کے بدلے ایکسپورٹر کو ایک واﺅچر ملے گا جس پر وہ امپورٹ کر سگے
گا، لہٰذا یہ صاحب جب بھی بنکاک جاتے وہاں سے پانچ ہزار ڈالر لا کر کسٹم کے
فارم پر ایسے انداز میں لکھتے کہ ایک زیرو بڑھانے کی گنجائش رہے گھر آ کر
پانچ کا پچاس بنا لیتے اور اُس پر امپورٹ کا واﺅچر لے کر اچھے داموں مارکیٹ
میں سیل کر دیتے، اس کام کے لیے انہوں نے فریدہ کے نام سے ایکسپورٹ لائسنس
بنوا رکھا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے دو نمبر کے دھندوں میں بہت
پیسہ بنارہے تھے کہ اچانک اس کیس میں پھنس گئے ،برما میں بھی رشوت خوری عام
ہے جو کام کے نوعیت پر مقرر ہوتی ہے،بعد میں مجھے جب ایک سال بعد وہاں جانے
کا دوبارہ موقع ملا تو فریدہ نے بتایا کہ اُس کیس میں ایک کروڑ کے قریب
رشوت دے کر ان صاحب کی جان چھڑوائی ہے مگر وہ پھر سے اُسی دھندے میں مشغول
ہو گئے ہیں۔
اب ریاض نے فریدہ کے نام سے ایکسپورٹ کم کر کے یعقوب کے نام سے ایک لائسنس
بنوا لیا تھا اور اسی پر بانس کا کام زوروں پر چل رہا تھا ،ایک دن اچانک
پتہ چلا کہ کراچی کسٹم میں اُس کے بانس کے سات کنٹینر پکڑے گئے ہیں جن میں
بانس کے نیچے کوئی دوسرا مال رکھا تھا جس کی اجازت نہیں تھی ، اس وقت میں
برما میں تھا جب شپنگ کمپنی والے نے مجھے بتایا کہ بانس والے بدنام ہو چکے
ہیں لہٰذا یہاں بھی اس کی چیکنگ پر بڑی سختی کی جا رہی ہے ، فریدہ جس نے
کیس کے دوران ریاض کی رہائی کے لیے جان توڑ کوشش کی تھی رہائی کے بعد اُس
سے بھی کام آ ہستہ آہستہ بند کر دیا ،یعقوب بیچارے کے ساتھ بھی دھوکہ کر کے
اُس سے بھی علیحدگی کر لی، مجھے میرے بانس کے کام کرنے والے دوستوں نے کہنا
شروع کر دیا کہ تم نے ایک ایسے آدمی کو کام سکھا کر ہم سب کے لیے ایک مصیبت
کھڑی کر دی ہے جو غیر قانونی کام کر کے اس تجارت کو بدنام کر رہا ہے، اُس
سے ذرا بات تو کرنا چاہیے کہ ایک تو اُس نے تمہارے ساتھ دھوکہ کر کے تمہارا
پیسہ اور کام میں جو منافع ہوا سب ہڑپ کر لیا اوپر سے وہ ایسے غلط کام کر
کے ہمارے کاروبار پر اثر ڈال رہا ہے ،اُسے بلا کر پوچھیں تو سہی ، میں نے
اُن کے کہنے پر ریاض کو فون کر کے اپنے ہوٹل آنے کو کہا جہاں میرے ساتھ چند
پاکستانی بانس کے امپورٹر اور بھی تھے، اُس نے سمجھا شاید میں اسے پھر کام
دینے کی غرض سے بلا رہا ہوں ، وہ ظفیر کو ساتھ لے کر مسکراتے ہوئے کمرے میں
داخل ہوا بڑے اخلاق سے سب سے دعا سلام لینے کے بعد بولا ، فرمائیے میں آپ
لوگوں کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ، میرے ساتھ جو بیوپاری تھے اُن میں سے ایک
نے جب میرے اور اُن کے کاروبار کی شراکت داری کے بارے میں پوچھا تو ، وہ
صاف مکر گیا کہ ان کے ساتھ میرا کوئی کاروبار ہی نہیں ہوا،کچھ سخت سست
الفاط کے بعد جب دو شریف آدمیوں نے اُسے شراکت منوا لی اور حساب کرنے کو
بولا تو اُس نے اپنی جان چھڑانے کے لیے کہا کہ حساب تو کراچی میں میرے
چھوٹے بھائی فیاض کے پاس ہے میں اس سے منگوا کر ان کو دکھا دوں گا ، اس پر
ایک بیوپاری نے اسے زور دے کر ایک بات کہی کہ دیکھو اگر تم ان کے ساتھ اب
تک جو کام ہوا ہے اس کا حساب کر کے نفع نقصان جو بھی ہو،ان کو دے لے کر
پاٹنر شپ ختم کر لو تو تمہارے لیے اچھا ہوگا ورنہ تم جب تک بانس کا کام کرو
گے اس کے نفع کا حساب تمہیں یہاں نہیں تو آخرت میں دینا ہی پڑے گا، اس پر
وہ حساب کرنے کا وعدہ کر کے چلے گئے دو تین دن بعد جب میں نے فون کیا تو
جواب ملا کہ حساب کرنے سے تو میرا ہی پیسہ آپ پر نکلتا ہے،میں نے کہا ٹھیک
ہے آپ حساب لے کر آئیں اور جو آپ کا نکلتا ہے چار آدمیوں کے سامنے میں دینے
کے لیے تیار ہوں،تو فون بند کر دیا، اس پر میں سمجھ گیا کہ بندہ حساب نہیں
کرنا چاہتا بس اس دن کے بعد میں نے بھی تقاضا کرنا چھوڑ دیا کہ”مرنے اور
مکرنے والے کا کوئی علاج نہیں “۔
قارئین انسان دنیا کو حاصل کرنے کے لیے بہت ہیرا پھیری کرتا ہے اور وہ اس
میں بظاہر کامیاب بھی ہو جاتا ہے مگر اس کا اس کی اولاد پر اور اس کی آخرت
پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا اُسے اس وقت پتہ چلتا ہے جب اس کے ہاتھ پاﺅں اس
کا کہنا ماننے سے انکار کر دیتے ہیں،قبر کا بھیانک اندھیرا صاف نظر آنے
لگتا ہے اس کے سامنے اس کی نافرمان اولاد ایسے ایسے کارنامے کرنے لگتی ہے
جسے دیکھ دیکھ کر وہ پل پل مر کے زندہ ہوتا ہے۔
کچھ عرصے بعد 23 مارچ کوجب برما میں موجود تمام پاکستانی اپنی ایمبیسی میں
جمع ہو کریومِ پاکستان مناتے ہیں تو میں نے ریاض کو دیکھا جس کے چہرے پر
ندامت کے آثار تھے کیونکہ اس کمپنی نے بھی اُسے نکال کر پورا کام ظفیر کے
حوالے کر دیا تھا ، طفیر سے بھی ملاقات ہوئی جو ریاض کی جھڑکیوں سے نکل کر
کافی صحت مند ہو گیا تھا،یعقوب بھی ملا جس نے اب ٹیکسی چلانی چھوڑ کر
موبائل فون کی دوکان سجا لی تھی مجھے ایک وزیٹنگ کارڈ تھماتے ہوئے کہنے لگا
انکل ضرور آنا آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، میں سمجھ گیا کہ اس کے پاس
بھی شکائتوں کے ڈھیر ہوں گے۔ سب لوگ ایک دوسرے سے مل رہے تھے خوش ہو رہے
تھے جبکہ ریاض ایک کونے میں اکیلا اپنی ایک دو ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ
بیٹھا دل بہلا رہا تھا۔ |