ہم ملک کے جس حصے میں رہتے ہیں یہاں خانہ بدوشوں کاآناجانالگارہتاہے اس لئے
ان کے طورطریقوں،عادات اورخیالات سے اگر زیادہ نہیں توسومیں 80فیصدہم ضرور
واقف ہیں۔موسم سرمامیں یہ گرم اورگرمامیں یہ سرد وپہاڑی علاقوں کارخ کرتے
ہیں۔ان کا کوئی مالک ہوتاہے اورنہ ہی ان کاکوئی ٹھکانہ ۔جہاں موسم
اچھااورحالات سازگار لگے یہ وہیں خیمہ وتمبولگاکراپنی دنیاآبادکرلیتے
ہیں۔یہ کھاتے بھی ہیں اورپیتے بھی ۔یہ ہماری جیسی بلکہ ہم سے بھی اچھی
زندگی گزارتے ہیں لیکن پھربھی ان کاکسی سے کوئی لینادینانہیں ہوتا۔کراچی سے
کشمیراورچترال سے پنجاب تک سفرکے دوران ان کااگرکسی کے ساتھ کوئی تعلق قائم
ہوبھی جائے تووہ محض وقتی ہوتاہے۔ان کاتعلق اورکام فقط موسم اورحالات تک
ہوتاہے۔جب موسم بدل اورحالات ناموافق ہوجائیں توپھریہ نہ کسی کے ہوتے ہیں
اورنہ ہی پھران کاکسی کے ساتھ کوئی تعلق باقی رہتاہے۔موسم بدلنے اورحالات
کاکایاپلٹنے پریہ ٹھکانہ بدلنے میں ایک سیکنڈبھی نہیں لگاتے ۔آپ کواگریقین
نہیں آتاتوآپ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھاکردیکھ لیں۔موسم گزرنے اورٹھکانہ
بدلنے کے بعدیہ نہ پرانے والے موسم کویادکرتے ہیں اورنہ ہی پرانے ٹھکانے
وحالات کایہ کوئی ذکرکرتے ہیں۔ویسے تویہ سال میں ایک دوبارہی نظرآتے ہیں
لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کااگرآپ باریک بینی سے مطالعہ کریں تواس میں
صفحے صفحے پریہ آپ کوملیں گے۔سیاسی تاریخ کاکوئی دن اورکوئی صفحہ ان سے
خالی نہیں۔مسلم لیگ ن سے لیکر پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف سے لیکر جماعت
اسلامی اوراے این پی سے لیکرجے یوآئی تک ہرجگہ آج بھی ان کی گونج ہے۔آج بھی
ملک کی سیاست میں ان کی کوئی کمی نہیں۔ملک میں اس وقت ایسی کوئی پارٹی
اورجماعت نہیں جہاں ان کے خیمے اورتمبونصب نہ ہوں۔یہ ہروقت اچھے موسم
اورسازگارحالات کی تاک اورانتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں۔نظران کی بہت
تیزاورسونگھنے کی حس ان کی بے مثال ہوتی ہے ۔کہاں بریانی پک رہی ہے اور
کہاں دال کوابال دیاجارہاہے۔؟یہ ان سے بہترکون جانے۔؟خوشبوکی ایک چھوٹی سی
مہک یا لہراٹھتے ہی یہ اپنابوریابسترخیمے اورتمبوسمیت گول کرکے اسی جگہ
پہنچ جاتے ہیں۔ان میں سے اکثرنے موجودہ دورمیں حکمران پارٹی تحریک انصاف
کوبہتراوراعلیٰ چراگاہ تصورکرکے پڑاؤڈالاہواہے۔ان کے زیراستعمال وہ خیمے
یاتمبوجوکبھی مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جے یوآئی ،اے این پی اورجماعت اسلامی
کی چھتری تلے نصب ہواکرتے تھے وہی خیمے اورتمبوآج پی ٹی آئی کی چھتری تلے
جابجانظرآرہے ہیں۔ان خیموں اورتمبوؤں کی چمک ودھمک کودیکھ کرپچھلے تین سال
سے تحریک انصاف کے چیئرمین ووزیراعظم عمران خان پھولے نہیں سمارہے ۔ عمران
خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان خیموں اورتمبوؤں کی یہ شان وشوکت،میٹھی
خوشبواورچاندنی کہیں ادھرہی ہمیشہ رہے گی لیکن شائد عمران خان کو سیاسی
خانہ بدوشوں کی تاریخ،اصلیت ،عادات اوراطوارکا علم نہیں۔وزیراعظم یہ نہیں
جانتے کہ خانہ بدوش سیاسی ہوں یاسماجی ۔ان کاکوئی مستقل شہر۔کوئی گاؤں
۔کوئی علاقہ اورکوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔وزیراعظم صاحب اگرخانہ بدوشوں کی
تاریخ سے ذرہ بھی واقف ہوتے تووہ تین سال سے کبھی اس طرح غلط فہمی اورخوش
فہمی کاشکارنہ ہوتے۔نوازشریف اورآصف علی زرداری کوبھی کسی زمانے میں ان
خانہ بدوشوں پربڑانازتھا۔سابق صدپرویزمشرف بھی ایک وقت ان کی بڑی تعریفیں
کرکے خوبیاں بیان کرتے تھے۔پرویزمشرف کے دورمیں توان کے لئے مسلم لیگ ق کے
نام سے باقاعدہ ایک بستی بھی قائم کردی گئی تھی لیکن پھردنیانے دیکھاکہ
موسم بدلنے اورحالات بگڑنے پرپھرانہوں نے اس بستی کاکیاحشرنشرکیا۔جس طرح ان
کے آنے کاپتہ نہیں چلتااسی طرح ان کے نودوگیارہ ہونے کی بھی پھرکسی کوکوئی
خبرنہیں ہوتی ۔اسی لئے ان کے بارے میں یہ کہاجاتاہے کہ یہ آج ہمارے مہمان
ہیں کل آپ ان کے میزبان ہوں گے۔ آج یہ وزیراعظم عمران خان کو،،مائی
باپ،،کانام بھی دیتے ہیں ،ٹی وی ٹاک شو،اخبارات اورسوشل میڈیاپرعمران خان
کوایک مسیحااورایماندارلیڈرکے طورپربھی پیش کررہے ہیں لیکن آپ دیکھیں گے۔جس
دن عمران خان اس ملک کے وزیراعظم نہ رہے اورتحریک انصاف اقتدارمیں نہ رہی
اس دن عمران خان سے بڑاکوئی دشمن اورپی ٹی آئی سے بری کوئی پارٹی ان کے ہاں
نہیں ہوگی۔اسی عمران خان جس کویہ آج ،،مائی باپ،،مسیحااورایماندارکہتے ہوئے
نہیں تھکتے یہ پھراسی عمران خان کوسیاسی نابالغ،لٹیروں کاسربراہ،چوروں
کاکپتان اورنہ جانے کیا کچھ کہیں گے۔ان کے ہاں ،،مائی
باپ،،ایماندار،مسیحااوربہادرصرف اورصرف وقت کاحکمران ہوتاہے۔یہ چڑھتے سورج
کے پجاری ہیں۔جوشخص طاقت سے فارغ اوراقتدارسے باہرہو یہ اس کوگھاس بھی نہیں
ڈالتے۔ان کے لئے ایک دن اورسودن کی دوستی برابرہے۔میاں نواشریف،آصف علی
زرداری،پرویزمشرف،اسفندیارولی،سراج الحق اورمولانافضل الرحمن اگر ان کے
نہیں ہوئے تو وزیراعظم عمران خان پھرکس باغ اورکھیت کی مولی ہیں کہ یہ ان
کے ہوجائیں گے۔؟آپ لکھ کے رکھ لیں ۔جس دن عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی اس
دن مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جے یوآئی،جماعت اسلامی اوردیگرپارٹیوں اورجماعتوں
سے اڑان بھرکرتحریک انصاف میں آنے والے ان ایمانداروں کااپناسیاسی ایمان
بھی پھرباقی نہیں رہے گا۔اقتدارکاسورج غروب ہونے کے بعدعمران خان پھر ان
کوجگہ جگہ دیکھیں گے ،ڈھونڈیں گے لیکن ہرگھراوردرکی خاک چھاننے کے بعدبھی
یہ مخلص ،وفاداراورجانثارکھلاڑی ان کوکہیں نہیں ملیں گے۔2018کے الیکشن کے
لئے پی ٹی آئی ٹکٹس کے لئے اپنے سرپھاڑنے اورخون خشک کرنے والے یہ عوامی
خدمتگارپھرپی ٹی آئی ٹکٹس کوہاتھ لگانابھی پسندنہیں کریں گے۔کپتان کے
وفاداربننے والے یہی ایماندارپھراسی چورنوازشریف اورڈاکوزرداری کے بغل میں
دکھائی دیں گے۔آج یہ عمران خان کے سرکی قسمیں کھاکرنوازشریف اورآصف زرداری
کوگالیاں دے رہے ہیں لیکن کل یہی لوگ نوازشریف اورزرداری کے سرکی قسمیں
کھاکر اسی عمران خان کوہرمسئلے اوربیماری کی جڑقراردینے سے دریغ نہیں کریں
گے۔ان کی بے وفائی،عہدشکنی اوررات گئی بات گئی والی دوستی کی کہانی
یاکہانیاں پرانی بہت پرانی ہیں۔یہ وزیراعظم عمران خان سے پہلے نوازشریف
اورآصف علی زرداری جیسے سیاسی استادوں کوبھی ایک نہیں کئی باربلکہ باربار
ماموں بناچکے ہیں۔اقتدارکے نشے میں آج توعمران خان کی آنکھیں بندہیں لیکن
جب اقتدارہاتھ سے نکلنے کے بعدکپتان کی آنکھیں کھلیں گی توآپ یقین کریں اس
وقت پھرنہ ہوگابانس اورنہ بجے گی بانسری۔ان خانہ بدوشوں کی خاطراپنے کئی
وفاداراورایماندارساتھیوں کودیوارسے لگانے اورملکی سیاست میں انتقام کی
خطرناک آگ بھڑکانے سے وزیراعظم نے اپنااورپارٹی کاکتنانقصان کیا۔؟شائدکہ
وزیراعظم کواب اس کااندازہ نہ ہولیکن جب اقتدارکے مزے ختم ہونے کے بعدیہ
سارے موسمی پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں چلے جائیں گے اورکپتان کی
خوشامدکرنے والاکوئی نہیں رہے گا تب خان کواحساس ہوگاکہ انہوں نے
اپناکتنابڑانقصان کیاہے۔اقتدارکے نشے میں مدہوش وزیراعظم کوبہرحال یہ بات
یادرکھنی چاہیئے کہ ان کے آس پاس یااردگردخانہ بدوشوں کے یہ جوخیمے
اورتمبونصب ہیں ۔آج نہیں توکل یہ ضرورمکینوں سمیت ہوامیں اڑیں گے اورخان
ہزارکوششوں کے باوجود ،،خانہ بدوشوں،،کی اس بستی اوران میں موجودعظیم
ہستیوں کوبچانہیں پائیں گے کیونکہ یہ ،،خانہ بدوش،،نہ تیرے ہیں نہ ان کے
۔یہ نہ پہلے کسی کے کہنے پررکے ہیں نہ آئندہ رکیں گے۔انہیں ہرحال میں
جاناہوتاہے اورجانے والاکبھی رکتانہیں۔میرے کپتان یہ وقت آج نہیں توکل آنے
والاہے آپ لاکھ چاہیں بھی اس کوروک نہیں سکتے۔
|