میں بھی ان احمقوں میں شامل ہوں جنہوں نے عمران حان کواس
یقین کے ساتھ ووٹ دیا تھا کہ شاید اس ملک کی حالت بدل جائے گی،چوروں
،ڈاکوؤں،رشوت خوروں اور ظالموں سے نجات مل جائے گی۔ لوگوں کی زندگی بہتر ہو
جائے گی، میری حالت بدل جائے گی،اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا، شیر
اور بکری ایک گھاٹ پانی پئیں گے۔ہر طرف خوشحالی ہو گی۔ لوگ اطمینان کا سانس
لیں گے۔ رشوت خور رشوت لینے سے پہلے سوچیں گے۔ جرائم پیشہ لوگ جرم کرنے سے
پہلے کانپ جائیں گے کہ اس کا انجام بہت برا ہو گا۔لوگوں نے انتہائی جذباتی
انداز میں عمران خان کی کمپین کی، کسی دوسرے کی بات سننے کو تیار ہی نہ
ہوئے۔ نوجوان پہلی دفعہ کسی پارٹی کے حق میں اس قدر کھل کر سڑکوں پر آئے۔
انہیں یقین تھا کہ عمران کی قیادت ان کی اس ملک کی تقدیر کو بدل دے گی۔
مگر کیا کروں ان تین سالوں میں سب امیدیں ہوا ہو گئیں ہیں۔میرا یقین منوں
مٹی کے نیچے دفن ہو چکا۔ اس ملک کی حالت آ پ نے بدل دی ہے اور ایسی بدلی ہے
کہ اسے اٹھنے میں شاید سالہا سال لگیں ۔ بہت سے لوگ تو اس قدر مایوسی کا
شکار ہیں کہ انہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے کیا کریں حالات ہی
اتنے خراب ہیں۔لوگوں کی زندگی بہتر کیا ہونی تھی، وہ جو کل تک پیٹ بھر کر
روٹی کھا لیتے تھے اب ایک وقت کی روٹی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔وہ جو ہفتے
میں چھٹی کے دن بچوں کے ساتھ گھر سے باہر کچھ وقت گزار لیتے تھے ، اب معاشی
مجبوریوں کے سبب چھٹی گھر میں حسرت بھری سوچوں میں گزار دیتے۔ آج کے بچے
بھی بہت سیانے ہیں، وہ حالات کی مار کو بہت سمجھتے ہیں، ما ں باپ کی
مجبوریاں جانتے اوران کی حالت پر ترس کھا کر انہیں تنگ نہیں کرتے مگر ان کے
اندر جو جوالا مکھی پکتا ہے وہ ہر چیز کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ تنخواہ دار
طبقے کی تنخوائیں ایک جگہ ٹھہری ہیں دکانداروں کے بزنس انحطاط کا شکار
ہیں،کاروباری طبقہ حد سے زیادہ پریشان ہے۔ سوائے ٹیکسٹائل کے چند کارخانوں
کے ،جن کی حالت بھی بہت اچھی نہیں، کون سی انڈسٹری حرکت میں ہے۔ حکومتی
وزرا مشورہ تو دے رہے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر تنخواہیں بڑھائے مگر کیسے، اگر
یہ اتنا ہی آسان ہے تو حکومت اپنے ملازمین کا خیال پہلے کرے، ان کا کیوں
نہیں سوچا جاتا۔پنشنر تو حد سے زیادہ پریشان ہیں ان کی عمر کے کٹنے میں
دواؤں کا بہت ساتھ اور عمل دخل ہوتا ہے، دوائیں بھی اب معمول سے چار گنا
قیمت پر ملتی ہیں۔ شاید آپ کی اس ترکیب سے ان کی زندگی مختصر ہو جائے اور
یوں پنشنر کافی کم ہو جائیں اور آپ کا خزانے کا بوجھ کم ہو جائے۔لیکن یاد
رہے کہ بوڑھوں کی دعائیں بھی بہت قبول ہوتی ہیں ، ان کی دعاؤں کو منفی نہ
ہونے دیں ورنہ آپ پر بھاری ہوں گی۔
انصاف کی صورت حال بہت خراب ہے ، انصاف فقط چند خاندانوں اور چند وکیلوں تک
محدود ہو گیا ہے ، عدالتوں میں وہی لوگ سنے جاتے اور اپنے مقاصد حاصل کرتے
ہیں جن کے پاس ان بھاری بھرکم وکیلوں کی فیس ہوتی ہے اور خود بھی با اثر
ہوتے ہیں۔ عام آدمی کے لئے انصافی خوش خبریاں تو بہت ہیں عملی طور پر فقط
حوصلہ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔جج عام آدمی اورسستے وکیل کی بات سننے کو
تیار ہی نہیں ہوتے ۔حال ہی میں سپریم کورٹ کے جناب جسٹس اعجاز الاحسن کے
ہائی کورٹ کے ایک فوری فیصلے کے بارے ریمارکس میری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں
کہ ایک با اثر شخص کی درخواست پر اعتراض لگا مگر ایک گھنٹے میں اعتراض بھی
ختم ہو گیا اور کیس سن کر فیصلہ بھی دے دیا گیا، یہ انصاف نہیں انصاف کا
قتل تھا۔یہ فوری فیصلہ اپنی رفتار کے حساب سے لاہور ہائیکورٹ کے پہرے پر
سجا ایک شاندار داغ ہے ۔ سپریم کورٹ کو اس جج کے بارے بھی فیصلہ کرنا ہو گا
جسے کیس سننے اور فیصلہ کرنے میں اس قدر عجلت تھی ۔تاکہ کوئی جج جسے انصاف
کرنا ہوتا ہے، ا ٓئندہ ا س قتل کا شریک کار نہ ہو اور با اثر لوگ اتنی
آسانی سے انصاف کا قتل نہ کر سکیں۔
آپ نے عوام کو جن چوروں اور ڈاکوؤں سے نجات دلانی تھی، ان کی آپ نے کمال
خدمت کی ہے، لوگ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ چور تھے یا ڈاکو تھے مگر آپ سے
بہتر تھے۔ ان کے دور میں زندہ رہنے کا حق توچھینا نہیں گیا تھا۔ اب لوگ ان
کی واپسی کی دعا کر رہے ہیں۔ رشوت آپ نے کم کرنی تھی مگر آپ نے رشوت کو
قانونی شکل دے دی ہے ۔ اب کوئی کام ہو ، رشوت کا ریٹ مقرر ہے۔ سرکاری ملازم
باٹا کے ریٹ کی طرح ہر کام کا ناپ تول کر ریٹ بتاتے اور وصولی کے بعد کام
کرتے ہیں، آپ کے دور میں تو سفارش اور حوالے بھی اپنی قدر کھو چکے ہیں۔دنیا
بھر کے چوروں کو آپ نے مشیروں کی شکل میں اکٹھا کر لیا ہے، زیادہ تر تو
ذہنی اور عملی طور پر نابالغ ہیں مگر آپ کی تعریف اتنے خوبصورت انداز میں
کرتے ہیں کہ آپ کو ان کی خامیاں نظر آ ہی نہیں سکتیں۔ یہ لوگ پاکستان کے
زمینی حقائق سے واقف ہی نہیں، ان کی سوچ ہماری بے بسی اور غربت تک پہنچ ہی
نہیں سکتی۔۔ آپ کے مقامی بھونپو اور ڈھولچی بھی اپنے مفادات کے لئے آپ کو
حقیقت سے بے خبر رکھے ہیں۔ آپ بھی مقامی سوچ اور سمجھ سے عاری ہیں کہ آپ کی
آمدن بھی مقامی نہیں ۔ پچھلے تین سالوں میں آپ کی کاردگی کہیں مثبت نظر
نہیں آتی۔ ان حالات میں میرے جیسے لوگوں کوآ پ سے بھلائی کی کوئی امید
نہیں، اس لئے میں آپ کو الوداع کہہ رہا ہوں۔ یہ صرف میری آواز نہیں، یہ
آواز اس ملک میں ہر طرف سے اٹھ رہی ہے۔ اپوزیشن میں اتنے کس بل نہیں کہ کچھ
کر سکے مگر آپ تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں یکتا ہیں ۔ آپ نے
کبھی غور کیا ہو تو بہتر ہے آج بھی عوام کی آواز سنیں کہ اگر آپ اس ملک کو
چلانے کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تو بہتر ہے آپ خود بھی اپنی جان چھڑائیں اور
الوداع کہہ کر اس ملک کے عوام پر بھی رحم کریں۔
|