ن کا نقطہ اور شہر اقتدار

شہر اقتدار میں دو دن گزارے، افواہوں کا بازار، خبروں کا مکس کھٹا اچار، صحافت کے اوراق تلے دبا
کاروبار، اسلام کے نام پر داغ لگانے والے بے شمار، مکاراور فنکار لوگوں کے بارے قصے سنے۔ سنتا رہا سنتا اور دیکھتا بھی رہا۔کانوں نے سرگوشی کی کہ اب کچھ اور بھی سننا ہے یا ہم بہرے ہو جائیں۔

اسلام آباد اور پنڈی کو ملانے والی شاہراہ پر سوالوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی اور لال اشارہ بند تھا۔ میں گھنٹوں اس لائن میں لگا دماغ کی ہینڈ بریک کھینچ کر خیالوں کی سیٹ پر ٹیک لگا کر ان سوالوں کو دہرا رہا تھا۔

کیا فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں؟ ایک پیج پر ہیں تو سطریں اوپر نیچے تو نہیں ہو گئی ہیں؟ کیا کچی پنسل سے لکھے گئے الفاظ کو مٹانے کا وقت ہوا چاہتا ہے؟جب صفحہ بھی ایک، الفاظ بھی ایک تو اس صفحے کو فولڈ کرکے پوری کتاب کو اضطراب میں مبتلا کرنے کا فائدہ کیا؟

فوج اور حکومت میں جب برابر کے دو دو نقطے ہیں تو اتنی نکتہ چینی کیوں؟ ایک بزرگ نے پوچھا کہ بیٹا فوج اور حکومت کا تو بہت میٹھا پیار تھا تو اس پیار سے شوگر کسے ہوئی اور اب کس کو کیا کیا پرہیز کرنا ہوگا؟ بزرگ بولے بیٹا شوگر کے مریض کا دل بڑا چاہتا ہے میٹھا کھانے کو حالانکہ اسے پتا ہوتا کہ یہ خطرناک چیز ہے۔ پر پتر دل نہیں رجدا۔ ایک ماسی بولی بیٹا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا نکاح کبھی پکا ہوتا ہی نہیں۔ تیسرے سال تک کاکا نا ہو تو بہو سے بھی سوال ہوتے ہیں۔ حالانکہ سارا قصور اس بے چاری کا بھی نہیں ہوتا۔ جوتے پالش کرنے والا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ صاب جی میں 15 سال سے پنڈی میں جوتے پالش کر رہا ہوں میں تو یہاں گھر نہیں بنا سکا لیکن سنا بہت ہے کہ تین دن جوتے پالش کرو اور پھر عیاشی کرو۔ صاب جی یہ تو جھوٹ ہی ہوگا نا؟ وہ پھر بولا صاب جی شاید کچھ لوگ مجھ سے زیادہ اچھے چمکا لیتے ہوں۔ ہاں صاب کچھ اچھے کاریگر لوگ ہوتے ہیں میں تو بس فریدا موچی ہی رہوں گا جی ساری جندگی(زندگی)۔

پٹرول پمپ پر کھڑا سیلز مین پوچھ رہا تھا کہ پٹرول کا متبادل سائنسدان کیوں نہیں تیار کر رہے؟ دنیا اتنی ترقی کر گئی۔ ساری دنیا میں لگی آگ کے پیچھے پٹرولیم مصنوعات پر قبضے کے قصے ہیں تو آگ پر پٹرول ڈال کر اسے کیسے بجھایا جا سکے گا؟ کیا سائنس اور سائنسدان اس دنیا کو بھسم کرنے والا ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو متبادل ایندھن نہیں بنا سکتے؟

وہ چپ ہوا تو پاس کھڑا رکشے میں پٹرول ڈلوانے والا ڈرائیور بولا مولوی جی ریاضی سمجھو ریاضی۔ میں نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا تو وہ بولا کہ مولوی جی دیکھو نا ایک جمع ایک دو ہوتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی ریاضی میں ایک جمع ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ مجھے ہنسی آئی تو وہ بولا میں بھی ہنستا تھا مولوی جی لیکن جب سے یہ والی ریاضی سیکھی ہے اب رو بھی نہیں سکتا۔

راول جھیل کے نیلے پانی پر نظریں جمائے بابا جوگی نے قہقہہ لگایا اور مجھے دیکھ کر بولا کاکا کہتا ہوں نا کہ نا آیا کر اس شہر بے وفا میں۔ موسم بدلتا ہے تو اس شہر کے لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ کرسیاں بدلتے بدلتے لہجے بدل جاتے ہیں۔ درخت اپنے پتوں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔
یہاں اس موسم میں پڑنے والی شبنم تک کو مسلسل لتاڑا جاتا ہے لیکن وہ بھی دماغوں کو ٹھنڈا نہیں کر پاتی۔ کاکا شبنم کا اثر دماغ پر تب ہوتا ہے جب ننگے پاؤں چلا جائے۔ کاکا بھلا بوٹ پہن کر شبنم کو لتاڑنے سے دماغ تو ٹھنڈے نہیں ہوتے نا۔

پروفیسر صاحب آخری آدمی تھے جو مجھے ملے اور وہ کہہ رہے تھے کہ ایک منٹ دیکھو مسٹر یہ نا تو پہلے والا پاکستان ہے نا خطے کے حالات ایسے۔نہ عوام اب ویسی۔نا ہی کوئی آپشن بچا ہے نہ ہی مزید تجربے کرنے کی سکت۔آپشن بھی ٹائم کے محتاج ہوتے ہیں،ایک منٹ کے لیے غور تو کرو کہ آپشن اور عمران اور خان کا نون آخری ن ہے۔ اس کے علاوہ کے تمام ن ناکام ہوچکے ہیں حتی کہ فضل الرحمن کا نون بھی اس نون کا حصہ بن گیا جس ن کی لیڈر شپ لندن کے ن میں گم ہو چکی ہے۔

البتہ وقت کی سوئیاں دن کے ن والے نقطے کو لتاڑتے ہوئے اسے بھی رات بنا دیتی ہیں۔

میں نقطوں کی گنتی میں الجھا ہوا تھا، ہر سوال کا جواب الجھا اور پھنسا دینے والا تھا۔

بڑی دیر بعد لال اشارہ کھلا۔ہوٹروالی گاڑیوں کے سائرن بجے، تخیل نے زور سے آواز لگائی استا جی (استاد جی) جاگو فیض آباد آگیا ہے۔

میں بھی بڑبڑایا فیض اور آباد اچھا اچھا فیض آباد۔

آخری خبر اسلام آباد اور پنڈی کی فواہوں کو آپس میں گڈ مڈ ہونے سے روکنے کے لیے فیض آباد کے مقام پر کنٹینڑز لگادیے گئے۔

خبروں کے انبار میں کنٹینرز تماشائی بن کر مداری اور بچہ جمہورا کا کھیل دیکھ رہے ہیں، نقطے کی منطق اور نکات کی جنگ کے آخری ن نظارے تک۔

 

Qaiser Iqbal
About the Author: Qaiser Iqbal Read More Articles by Qaiser Iqbal : 6 Articles with 6873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.