کومیلہ سے اگرتلہ تک عمل اور ردعمل کا سلسلہ

بنگلہ دیش کے تین طرف تو ہندوستان ہےاور چوتھی جانب میانمار ہے۔ پچھلے چند سالوں سے ان دونوں ممالک میں مسلم اقلیت کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس کا ردعمل اب بنگلہ دیش میں بھی ہونے لگا ہے کیونکہ مثل مشہور ہے خر بوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہےلیکن یہ رنگ اچھا نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہندوستان اور میانمار کی اکثریت بنگلہ دیش سے سیکھتی کہ اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیسے کیا جائے مگر افسوس کہ الٹا ہوگیا۔ ایسالگتا ہے کہ سونار بنگلہ بدل رہا ہے کیونکہ وہاں پر اب وہ سب بھی ہونے لگا ہے جو ہندوستان اور میانمار کا خاصہ تھا اس کے باوجود فرقہ واریت کے بعد میں کم از کم حکومت کا رویہ ہنوز منصفانہ ہے۔ وہاں کی پولس نے گزشتہ ہفتے کومیلہ شہر میں ایک درگا پوجا منڈپ کے اندر قرآن پائے جانے کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اقبال حسین (30) نامی شخص کی شناخت کرلی ہے جو نصف شب میں قرآن لے کر مندر کی طرف جاتا دکھائی دیتاہے اور کچھ دیر بعد ہنومان کا گدا لے کر لوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔وہاں کی سرکار پوری سازش کو طشت ازبام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ ہندوستان میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش کے اندر درگا پوجا کے دوران ہنومان کی گود میں رکھے ہوئے قرآن کی ایک تصویر کے ذریعہ سوشل میڈیا میں نفرت پھیلانے کی سازش رچی گئی۔ ان تصاویر کے وائرل ہونے پرمشتعل ہجوم نے کومیلہ میں اقلیتی ہندو برادری کے مندروں، گھروں اور کاروباری اداروں پر حملہ کردیا اور 13-16 اکتوبر کے درمیان تشدد کی آگ نواکھلی، رنگ پور اور دیگر مقامات تک پھیل گئی۔ اس کو قابو میں کرنے کی خاطر پولس نے مندروں ، گھروں اور تجارتی اداروں میں توڑ پھوڑ کے 72 مقدمات درج کرکے درگا منڈپ کی متنازعہ تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے شخص سمیت 450؍ افراد کو گرفتار کرلیا۔ ایسی مستعدی تو لکھیم پور کھیری میں نہیں دکھائی گئی جہاں دن دہاڑے کسانوں کوگاڑیوں سے کچلا گیا۔ اس پر عدالت عظمیٰ نے بھی یوگی حکومت کو پھٹکارا کہ آخر اتنے کم لوگ کیوں گرفتار ہوئے؟ ویسے بعید نہیں کہ آج جو آشیش مشرا جیل میں ہے کل وہ رکن اسمبلی منتخب ہوکر وزیر بن جائے لیکن امید ہے بنگلہ دیش میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کو حملہ آوروں کی نشاندہی کر ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے ہدایت دے رکھی ہے۔

حکومت ہند کی جانب سے اس تشدد کی مذمت تو ہوئی لیکن اس میں وہ شدت نہیں نظر آئی جو عام طور پر پاکستان کے حوالے سے ہوتی ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے پڑوسی ملک میں تشدد کے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تاہم حالات کوفوراً قابو میں کر لینے کے لیے ڈھاکہ حکومت کی تعریف بھی کردی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ کمان کی جانب سے بھی کوئی دھمکی آمیز بیان نہیں آیا تاہم مغربی بنگال میں پارٹی کے نائب صدردلیپ گھوش نے دہلی میں ایک احتجاج کے اندر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو گھیرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک میں تشدد کے واقعات پر ان کی خاموشی مشکوک ہے حالانکہ یہ الزام تو خود ان کی پارٹی پر بھی چسپاں ہوتا ہے ۔گھوش نے بھی ماضی میں شیخ حسینہ حکومت کی سخت اقدامات کے ذریعہ تشدد پر قابو پا نے کو سراہا۔ دلیپ گھوش نے ہندوؤں کو بنگلہ دیش میں پرامن طریقے سے رہنے کے حق پر اصرار کیا مگر اس مطالبے سے قبل انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ یہ وہی گھوش ہے جس نے 15 ؍ فروری 2021 کو دھمکی دی تھی کہ :’’ ماؤں کو بولو کہ اگر الیکشن کے بعد اپنے بچوں کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہیں تو ان کو قابو میں رکھیں‘‘۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار بھگوا پریوار ایسا بیان بھی نہیں دے سکا جو سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے دے دیا حالانکہ آئے دن یوگی سے لے بسوا تک ہر کوئی اس کو قوم دشمن قرار دیتا رہتا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی نےاپنے بیان میں درگا پوجا تہوار کے دوران بنگلہ دیش میں ہندو مندروں اور ہندو برادری پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کے لیے مسلمانوں کے نام پر سماج دشمن عناصر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کسی بھی جمہوری نظام میں اقلیتوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اکثریت کے ساتھ یکساں طور پر تمام شہری حقوق سے لطف اندوز ہوں اور اقلیتوں کے خلاف کسی بھی اقدام کو اکثریت سمیت کسی بھی فرد کے ساتھ حکمرانوں کو سنجیدگی سے نمٹنا چاہئے ۔ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہئے تاکہ تشدد کو دہرائے جانے سے روکا جاسکے۔ فیضی نے اس تشدد کو جان بوجھ کر دو مذہبی برادریوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی منصوبہ بندی قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ تشدد ہندوستان میں مسلمانوں لنچنگ جیسے مظالم کو چھپانے میں مدد دے گا۔ فیضی نے یاد دلایا کہ ''جمہوریت اکثریت کا قانون نہیں بلکہ اقلیت کا تحفظ ہے ''۔ ویسے وشوہندو پریشد کے ذریعہ اس تشدد پر احتجاج مضحکہ خیزہے کیونکہ جو لوگ خود اپنے ملک میں اس طرح کے مظالم پر فخر جتاتے ہیں وہ کس منہ سے مذمت کرسکتے ہیں۔

شیخ حسینہ نے کمیلا کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک پوری رفتار سے ترقی کی طرف گامزن تھا اور اس کا مقصد قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا کر ملک میں ایک مسئلہ پیدا کرنا تھا۔ شیخ حسینہ کے مطابق بنگلہ دیش چونکہ ایک ترقی پذیر ملک بن چکا ہے اس لیے اس کا وقار دنیا میں قائم ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ " پر وقار انداز میں 2041 تک ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں‘‘ ۔ شیخ حسینہ نے ہندو برادری پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہ سمجھیں اور اپنی مذہبی رسومات کو اسی طرح ادا کریں جیسے دوسرے مذاہب کے پیروکار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کی خیر سگالی وکشادہ دلی کا مظاہرہ تو خود مودی جی نے 2002ء کے گجرات فساد کے بعد بھی نہیں کیا تھااور نہ شیخ حسینہ کی مانند یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس واقعہ میں ملوث مجرموں کو سخت سزائیں دے کراقلیت کو تحفظ فراہم کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی سرکار نے ایک ایک ظالم کو سزا سے بچانے کی شنیع حرکت کی ہے۔

حکومت ہند اور بنگلہ دیش سرکار کے رویوں میں فرق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تریپورہ میں 21؍ اکتوبر کو اگرتلہ اور دیگرمقامات پر و شو ہندو پریشد کے بینر تلے علی الاعلان بنگلہ دیش میں مندروں پرحملوں کے خلاف سڑکوں پر جلوس نکالا کر بنگلہ دیش سفارتخانے کے دفتر کو میمورینڈم دیا گیا ۔اس حد تک کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں خاص طور پر فلسطین میں جب مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا ہے تو ہندوستان کے اندر امت مسلمہ کی جانب احتجاج کیا جاتا ہے اور اسرائیلی سفیر کو میمورنڈم بھی دیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ وہ سب نہیں ہوتا جو وی ایچ پی کے غنڈوں نے تریپورہ میں کیا ۔ ان شرپسندوں نے کئی مساجد میں توڑ پھوڑ کی اور اذان نہ دینے کا فرمان جاری کردیا۔ ان جلوسوں کے دوران جو مساجد تشدد زد میں آ نے والی اگرتلہ مسجد ، کرشنا نگر مسجد ، دھرم نگر رتن باڑی اور کیل شہر مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور مہارانی ادے پور مسجد جلادیا گیا ۔ کیلاش نگر مسجد پر غنڈوں کے ذریعہ اپناجھنڈا لہرانے کی خبر بھی ذرائع ابلاغ میں آئی ۔ اس دوران مسلم مخالف نعرے لگانےاور مسلم پھیری والوں پر حملے کی بھی اطلاع ملی ۔ اس کے علاوہ مہارانی ادے پور میں کئی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

بنگلہ دیش کی سرکار اور حکومتِ ہند میں یہ فرق ہے کہ وزیر اعلیٰ بپلب دیب کے حلقہ انتخاب میں چندر پور کی مسجد پر حملہ ہوا مگر انہوں نے شیخ حسینہ واجد کی مانند حملہ آوروں کو سزا دلوانا تو دور ان کی مذمت تک نہیں کی ۔ وزیر اعلیٰ کے علاوہ وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے کسی رہنما کو اس کے خلاف بیان دینے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ مسلمانوں کے گھروں ،مسجدوں اور دکانوں پر حملوں اور توڑ پھوڑ کے اقلیت مسلمانوں میں خوف کاماحول ہے ۔ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کے قومی صدر محمد سلمان کے مطابق تریپورہ میں دائیں بازو کے غنڈے اقلیتوں پر حملے دفعہ 144 کے نافذ ہونے کے باوجود ہوئے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی کیونکہ بی جے پی اسی طرح اپنی سیاست چمکاتی ہے ۔ تریپورہ کے تشدد کی مذمت پاپولر فرنٹ اور جماعت اسلامی ہند نے بھی کی اور حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ ا ن واقعات کی تریپورہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیوت مانکیہ نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ دو غلط ایک صحیح نہیں ہوسکتے‘‘۔ یہی درست موقف ہے مگر سنگھ پریوار یا بی جے پی سے اس کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ بنگلہ دیش ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس لیے اس کی سربراہ بذاتِ خود سیکولر ہونے کے باوجود وہاں کی ہندو اقلیت کے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہے جبکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے مگر اس کا ہندوتواوادی وزیر اعظم یہاں کی مسلم اقلیت پر ہونے والے ظلم کی مخالفت کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ اسلامی روادی اور سیکولر چرب زبانی کا بنیادی فرق ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221893 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.