خریدار ہونا چاہیے بس

 تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
پرانے وقتوں میں ایک زمیندار کی گھوڑی اپنا رسہ تڑوا کر بھاگ نکلی جس کو پکڑنے کیلئے علاقے کی عوام اُس کے پیچھے بھاگ نکلی لیکن کوئی بھی شخص اُس گھوڑی کو نہ پکڑ سکا تو اسی دوران وہاں کا امام مسجد جس کے سر پر نہ تو سندھی ٹوپی رکھی ہوئی تھی اور نہ ہی رنگ برنگی پگڑی بندھی ہوئی تھی بس ایک سادہ سا رومال بندھا ہوا تھا آ پہنچا جس نے اپنے رومال کے ذریعے اُس گھوڑی کو دانے کا جھانسہ دیکر پکڑ لیا اور اُسے زمیندار کے حوالے کر کے اپنے گھر چلا گیا دوسرے روز اُس علاقے کے نمازی حسب عادت مسجد میں اکھٹے ہو کر امام مسجد کا انتظار کرنے لگے کافی انتظار کے بعد تمام نمازیوں کو فکر لاحق ہوئی تو وہ امام مسجد کے گھر پہنچ گئے جہاں پر انہوں نے امام مسجد سے مسجد میں نہ آنے کی وجہ پو چھی جس پر امام مسجد نے اُنھیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں مسجد میں آ کر آپ کی اما مت کیسے کرتا میں تو اب اما مت کے قابل ہی نہیں رہا چونکہ میں نے کل ایک جانور کے ساتھ دھوکا کیا تھا افسوس صد افسوس کہ آ ج اُسی ملک میں حاکمین سے لیکر افسر شاہی تک اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر عرصہ دراز سے عوام کو دھو کے پر دھو کہ دیئے جا رہے تھے جس سے دلبرداشتہ ہو کر یہاں کی عوام نے عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو جسے صاحب اقتدار بس تانگے کی سواریاں سمجھتے تھے کو اپنا رہبر لیڈر اور مسیحا سمجھنے لگے کو اس قدر عزت بخشی کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم بن کر ملک وقوم پر حکومت کر نے لگے جس کو صاحب اقتدار میں دیکھ کر یہاں کی عوام خداوند کریم کے حضور سجدہ زن ہو کر عمران خان کی عمر درازی کیلئے دعا گو ہو ئی اس دوران عوام نے خوش ہو کر مٹھائیاں اور آ تش بازی بھی کی محض یہ سوچ کر عمران خان اور اُس کے دیگر ساتھی ملک وقوم کو پسماندگی سے نکال کر بڑی ایمانداری سے ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی یہ خوشی غم میں بدلتی گئی چونکہ وزیر اعظم پاکستان عمر ان خان اور اُس کے دیگر ساتھیوں نے اپنے تقریبا تین سالہ دور اقتدار میں ماسوائے اپوزیشن لیڈروں کو دھمکانے اور ڈرانے کے اور کچھ کرنے سے قاصر رہا جس کے نتیجہ میں ملک وقوم جو پہلے ہی بد حالی کا شکار تھی مذید بد حالی کا شکار ہو کر رہ گئی اگر آج حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو آج ملک بھر میں خود ساختہ مہنگائی بے روز گاری ادویات پٹرول بجلی و گیس جائیدار کی خرید و فروخت مو بائل فو نز پر بے جا ٹیکسوں میں آئے روز اضافہ عوام کا مقدر بن چکے ہیں یہی کافی نہیں تمام کھا نے پینے والی اشیا کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافے نے تو عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان گھناؤنے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ایک خاندان نے تو اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ زہر پی کر اس جہنم زدہ زندگی سے نجات حاصل کر لی ہے اور اس سے بھی زیادہ اذیت ناک بات تو یہ ہے کہ یہاں پر لا تعداد خاندان کی جواں سالہ بیٹیاں اپنے بوڑھے والدین اور اپنے معصوم بہن بھائیوں کو بھوک سے تڑپتا ہوا دیکھ کر فحاشی جیسے مکروہ دھندے میں ملوث ہو کر رہ گئی ہیں غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کرنے کے بجائے محنت و مزدوری کی طرف راغب ہیں ہر ادارہ کرپشن کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے ڈاکٹرز جہنیں عوام اپنا مسیحا سمجھتی تھی اب ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوسنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں قصہ مختصر ہر طرف لا قانو نیت کا ننگا رقص جاری ہے کاش میرے ملک کے وزیر اعظم عمران خان اپو زیشن لیڈروں پر اپنا غصہ نکالنے کے بجائے اپنے سابقہ تین سال ملک وقوم کی تعمیر و ترقی پر لگا دیتے تو آج یوں ہمارا ملک وقوم تباہ و بر باد ہو کر خون کے آ نسو نہ روتی یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ جب بھی میرے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کو اس اذیت ناک حالات سے آ گاہ کیا جاتا ہے تو آپ بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا موازنہ مغربی ممالک سے کرتے ہیں جہاں پر امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت کی جاتی ہے جبکہ یہاں غریبوں کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت کی جاتی ہے کوئی میرے لیڈر وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے پوچھے کہ مغربی ممالک میں کسی شخص نے بھوک اور افلاس سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کی ہے جس طرح آج اس ملک میں آپ کی عوام خود کشیاں کر رہی ہے مغربی ممالک میں کسی بیٹی نے بھوک اور افلاس سے دلبرداشتہ ہو کر فحاشی جیسا گھناؤ نا دھندہ کیا ہے جیسے آج آپ کے ملک میں غریب بیٹیاں بھوک اور افلاس سے دلبرداشتہ ہو کر فحاشی جیسے مکروہ دھندے میں ملوث ہو کر رہ گئی ہیں کیا مغربی ممالک کے کسی حاکم نے اپنی ملکی دولت کو اس قدر لوٹا جس طرح آپ کے بعض ساتھی سیاست دان تمھارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر ہڑپ کر رہے ہیں کیا مغربی ممالک کے کسی ادارے کا نام بتا دے جہاں لا قا نو نیت کا ننگا رقص ہو رہا ہو یا پھر آپ ملک بھر کے کسی ادارے کا نام بتا دے جہاں لا قا نو نیت کا ننگا رقص نہ ہو رہا ہو چین جو آج تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے اُس کی بس ایک ہی وجہ ہے کہ وہ ملکی دولت لوٹنے والے کا سر تن سے جدا کر دیتے ہیں جبکہ یہاں ملکی دولت لوٹنے والے کسی ایک سیاست دان کا نام بتا دے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ہو اچھا چھوڑو ان باتوں کو آپ صر ف یہ بتا دے کہ آپ کے ملک میں کروڑوں اور اربوں روپوں کے تعمیراتی کاموں میں جس طرح آپ کے بعض سیاست دان دس سے پندرہ پرسنٹ اپنا کمیشن افسر شاہی پندرہ پرسنٹ جبکہ سرکاری ٹیکس تقریبا بیس پر سنٹ وصول کر لیں تو کیا مذکورہ تعمیراتی کاموں کے ٹھیکیدار تسلی بخش کریں گے یا نہیں جاری ہے
حال کیا پو چھتے ہو میرے کاروبار کا
آ ئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.