حسرتیں....ناکامیاں

قرآن کریم صداقت بھری کتاب ہے ، اس میں جن حقائق کی نشان دہی کی گئی ہے ۔حالات وواقعات خود ہی اس کا درست نقشہ پیش کردیتے ہیں ۔ ایک جگہ پر قرآن نے یہ اعلان کیا ہے کہ: جو لوگ اللہ کے دین میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں ، وہ عنقریب اور مال بھی خرچ کریں گے مگر وہ مال ان کے لئے حسرت بنے گا (کیوں کہ ان کی ساری مالی کوششیں رائیگاں جائیں گی) اور وہ لوگ مغلوب ہوکر رہیں گے ۔قرآن کریم کی اس پیشین گوئی کی حقیقت ہر دور میں آشکارا ہوتی رہی ہے ۔ حالیہ دور میں اس کی صداقت دیکھنی ہو تو صلیبی جنگ کاآغاز کرنے والی امریکی حکومت اور اس کا انجام دیکھ لیا جائے ۔ امریکہ جو دنیا میں سب سے بڑی معاشی طاقت شمار کیا جاتا تھا ، اس جنگ کی وجہ سے اس کا دیوالیہ نکلنے کے قریب ہے ، اب ان کے مقدر میں سوائے حسرت اورناکامیوں کے اور کچھ نہیں ہے ۔ امریکہ کی معاشی حالت کس بری حالت سے دوچار ہے اس کااندازہ درج ذیل نکات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔

اس وقت امریکی حکومت کا اندرونی یا داخلی قرضہ14.32 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جو اس کی کل خام قومی پیداوار(جی ڈی پی) کے برابر ہے۔ یوں امریکہ رقم کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ گویا امریکی حکومت آمدن سے زیادہ خرچ کرتی رہی لہٰذا اس کے قرضے برھتے گئے۔

امریکہ میں اب اوبامہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کانگریس سے اندرونی قرضے کی حد”16 ٹرلین ڈالر“ تک کروالے کیوں کہ امریکہ میں عوامی قرضوں کی حد مقرر ہوتی ہے اور کانگریس یہ حد مقرر کرتی ہے۔ لہٰذاوہاں حزب اقتدار( ڈیمو کریٹک پارٹی) اور حزب اختلاف( ری پبلکن پارٹی) کے مابین اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔

صورتحال اس قدر نازک اور پریشان کن ہے کہ کانگریس کے لئے 2اگست تک اندرونی قرضے کی حد ہر صورت بڑھانالازمی ہے ورنہ امریکی حکومت ڈیفالٹ کر جائے گی۔ یوں ایک نئی ذلت امریکی حکومت کے زوال کی طرف مزید ایک قدم آگے بڑھ جائے گی اوراوباما حکومت بہرحال اس کالک سے بچنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ اس بات کا امکان ہے کہ کانگریس 2اگست سے قبل داخلی قرضے کی حد بڑھا دے گی۔لیکن اس طرح بھی اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ یہ مصیبت کچھ وقت کے لئے ٹل جائے گی۔

اس وقت امریکا کا کل قرضہ114.32 کھرب ڈالر ہے اس میں سے100 ارب ڈالر وہ ہیں جو مستقبل میں امریکی حکومت نے ہرحال میں سوشل سیکورٹی پرخرچ کرنے ہیں۔ اس رقم کو شمار نہ بھی کیاجائے تو14.32 کھرب ڈالر کا قرضہ معمولی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن جانا کیا زوال کی علامت نہیں؟ پھر اس داخلی قرضے میں تقریباً ساڑھے چار کھرب ڈالر کا قرضہ چین، جاپان، برطانیہ، خلیجی ممالک، برازیل، روس وغیرہ کا ہے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکی حکومت اپنے اخراجات پر جو 1ڈالر خرچ کرے، اس میں 42سینٹ قرضہ ہوتا ہے۔ گویا امریکی حکومت دوسروں سے رقم لے کرہی اپنے خرچ پورے کر رہی ہے۔ اسی لئے اب فنڈز کی کمی سے سڑکوں، پلوں، ہوائی اڈوں اور اسکولوں پر مشتمل امریکی انفراسٹرکچر بدحالی کا شکار ہے اور امریکی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ایک تازہ سروے کے مطابق اکثر امریکی عوام اب یہ باور کرنے لگی ہے گزشتہ دس سالوں سے ہم زوال ہی کی طرف گامزن ہیں ۔

بعض امریکی ماہرین معاشیات اگرچہ جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گوداخلی قرضہ بہت بڑھ چکا، لیکن یہ خطرے کی علامت نہیں ہے کیوں کہ امریکی حکومت محض ڈالر چھاپ کر بھی اپنا قرضہ اتار سکتی ہے۔ لیکن وہ یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں کہ نوٹ چھاپنے سے ان قرضوں کاتدارک نہیں ہوگا بلکہ افراط زر(یعنی مہنگائی) بڑھے گا۔ پھر اندرونی قرضے میں جتنا اضافہ ہوگا،اسی قدر امریکی حکومت کی ساکھ گرتی جائے گی۔ غیر ملکی حکومتوں سے لے کر افراد تک پھر امریکی حکومت سے لین دین کرتے ہوئے گھبرائیں گے اور نہ ہی سرکاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ یوں مجموعی طور پر امریکی معیشت ایسے زوال کا شکار ہورہی ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا۔

امریکی اندرونی قرضے میں ہوش ربا اضافے کی مختصر تاریخ اتنی ہے کہ 1980 میں امریکہ کا داخلی قرضہ909 ارب ڈالر تھا جو2000ءمیں5.7کھرب ڈالر تک پہنچ گیا۔ پھرجارج بش کے عرصہ اقتدار(2001ءتا2008 ئ) میں یہ عدد10.7 کھرب ڈالر تک جا پہنچا۔ حالیہ صدر اوباما کے دور میں مزید تقریباً چار کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکیوں کی معیشت کے زوال میں ان جنگوں کا بڑا عمل دخل ہے جو اس نے مسلمانوں کے خلاف شروع کیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی امریکہ میں جنگ ہوئی، یاوہ جنگ میں شریک ہوا، تو وہاں معیشت خوب ترقی کرتی، ہر قسم کی پیداوار بڑھاتی، قرضے اترتے اور عوام خوشحال ہوجاتے۔ اسی لئے امریکی حکومت نے رفتہ رفتہ جنگ جوئی ہی کو اپنی ترقی کا واحد راستہ بنا لیااور خاص کر روس کی افغانستان میں شکست کے بعد سے امریکہ کو وہاں قائم ہونے والی اسلامی خلافت ایک آنکھ نہ بھائی تب اس نے اس کو ختم کرنے اور عالم اسلام کو زیر نگیں کرنے کے لیے صلیبی جنگ کا طبل بجا دیا تب سے امریکی افواج کا پھیلاؤ مسلسل جاری رہااور وہ دنیا کے مختلف ممالک مثلاً افغانستان، عراق ، لیبیا وغیرہ میں سرگرم عمل ہوگیا۔

خاص طور پر بش کے دورحکومت میں تو امریکہ نے جارحیت کوہی سکہ رائج الوقت بنادیا۔ بش حکومت نے عراق وافغان جنگوں میں اربوں ڈالر پھونک ڈالے۔ معاشی ماہرین کے نزدیک یہ جنگیں اس لئے بھی شروع کی گئیں کہ بڑھتے داخلی قرضے کو محدود کیا جا سکے لیکن اس بار یہ جنگیں مطلوبہ نتائج قرضے میں کمی، معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی وغیرہ لانے کے بجائے ان کے گلے کی ہڈی بن گئیں جسے اب نہ اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں ۔

ان جنگوں سے صرف امریکہ کے مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچا جو اسلحے کی صنعت، افواج اور متعلقہ شعبوں سے منسلک ہے۔ بش حکومت نے غیر ممالک اور بینکوں سے قرضے بھی لئے تاکہ روز بروز بڑھتے جنگی اخراجات پورے کئے جا سکیں۔اندازہ لگائیے کہ آج افغانستان میں ہر امریکی فوجی پر امریکہ کے”سات لاکھ پچاس ہزارڈالر“ خرچ ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ رقم ادھار یا امریکیوں کے ٹیکسوں ہی سے آتی ہے۔ لہٰذا داخلی قرضے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ بش حکومت جنگجوئی اور اپنی چودہراہٹ جمانے کے کے چکر میں سمجھ ہی نہ سکی کہ وہ اپنے ملک و قوم کو قرضوں اور ذلت کی دلدل میں اتار رہی ہے۔

خود کو مہذب اور امن پسند کہنے والا امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ بناتا اور استعمال کر تا ہے۔ پچھلے سال امریکہ نے اپنے جنگی اخراجات پر698 ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس جنگی بجٹ کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ دوسرے نمبر پر چین کا بجٹ 119 جبکہ تیسرے نمبر پر برطانیہ کا59.6 ارب ڈالر رہا۔ اسی طرح امریکہ نے پچھلے سال بیس ارب ڈالر کا اسلحہ دیگر ممالک کو فروخت کیا۔(بھارت سب سے بڑا خریدار رہا)دنیا میں اسلحہ بنانے والی100بڑی کمپنیوں میں سے43 امریکی ہیں۔ دنیا میں امریکہ کے856 جبکہ اپنے وطن میں6000 فوجی اڈے ہیں۔ ان کی سالانہ نگہداشت و انتظام پر300ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ماہانہ 10 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب ایک امریکی شہری176,385 ڈالر کا مقروض ہے۔

اس کمزورہوتی معاشی صورتحال کی وجہ سے امریکہ کی اپنی عوام کے لئے انصاف پسندی اور رواداری کی قلعی بھی آہستہ آہستہ کھل رہی ہے ۔اب وہاں امیر وغریب کا فرق بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے صرف پچھلے ایک سال میں تقریباً دس لاکھ کاروبار اورکارخانے کام نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئے ۔ یوں ان میں کام کرنے والے لاکھوں امریکی اب بیروزگار پھرتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ایک کروڑ انتیس لاکھ کے قریب امریکی بیروزگار ہیں۔ مگر غیر سرکاری اندازوں کے مطابق تقریباً ڈھائی کروڑ امریکی ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں امریکی اب سرکاری امداد پر پل رہے ہیں۔ ادھر صرف”400“ امیر ترین امریکیوں کی کل دولت ڈیڑھ کھرب ڈالرہے۔اسی طرح بدحال معیشت کی وجہ سے درجنوں بینکوں کا دیوالیہ نکل چکا ہے ۔سرمایہ داری میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے اور امریکہ میں یہی عمل جاری ہے۔ خود امریکی حکومت کی رو سے آج تقریباً گیارہ کروڑ گھرانے(یعنی کل آبادی کا14.3 فیصد) خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔تجارتی خسارے سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ملک کی معاشی حالت کیا ہے۔ اس وقت امریکہ کا تجارتی خسارہ تقریباً700 ارب ڈالر ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ”نام نہاد سپر پاور امریکہ“ کے زوال کی ایک نشانی ہے ۔

امریکی حکومت پر قرضے چڑھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جب2008ءمیں امریکہ کا”تعمیراتی بلبلہ“ پھٹا تو کئی بینک اور مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو گئے کیونکہ امریکی عوام نے انہی سے قرض لے کر گھر بنائے تھے۔ جب گھر بکنا بند ہو گئے تو انہیں کہاں سے رقم ملتی امریکی حکومت نے پھر بڑے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کو بچانے کے لئے کئی ارب ڈالر خرچ کئے۔ مگر یہ اضافی خرچ مجموعی قرضوں میں اضافہ کر گیا۔یہ اوراس نوع کی کئی دیگر وجوہات ہیں جومعاشی ومالی زوال کی نشانیاں ہیں۔

ان عوامل کو دیکھتے ہوئے اب یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ امریکہ رفتہ رفتہ اپنے زوال کی جانب گامزن ہے اور اسے اسلام ومسلم دشمنی ایسے خطرناک انجام سے دوچار کرنے ہی والی ہے جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343901 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.