پاکستان کی صحافتی تاریخ پر جب
میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے شدید صدمہ پہنچتا ہے، کیونکہ ان چونسٹھ سالوں
میں تیئس سال سے زائد آمریت اور باقی جمہوریت میں گزر گئے۔۔۔ایسی جمہوریت
جس میں آپس میں ہی رسہ کشی میں نظر آئی۔۔۔
بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ایک بہترین لائر ہونے کے ساتھ
ساتھ مثالی صحافی بھی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پاکستان میں بھی اپنا ایک
اخبار ڈیلی ڈان شائع کیا ۔ آپ صحافت کو ایک سپاہی کا درجہ دیتے تھے آپ
فرماتے تھے کہ صحافی کا قلم سپاہی کی تلوار سے بھی زیادہ تیز ہوتا ہے،آپ
سمجھتے تھے کہ ابلاغ عامہ کے ذریعے حق و صداقت اور سچائی دور دورہ پیدا کیا
جاسکتا ہے ، آپ کے زمانے اور کچھ دیر کے زمانے میں ایسے صحافیوں کی تعداد
کثیر تھی جن کا حیات مقصد ملک و قوم کی اصلاح اور فلاح و بہبود تھا، جنھوں
نے ابلاغ عامہ کے ذریعے ریاست اور حاکم ریاست سیدھے راستہ پر قائم رکھنے کا
عزم کر رکھا تھا ۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جمہوری حکومتوں میں نا
اہلی و بد دیانیتی بڑھتی گئی وہاں صحافتی جماعتوں میں بھی اثرات نمودار
ہوگئے، کچھ نے حکومتی مراعات پر گزارا کیا تو کچھ نے بلیک میلنگ کو اپناکر
ابلاغ عامہ کے شفاف دامن کو داغ دار کردیا۔۔۔۔۔لیکن حالات کتنے ہی برے کیوں
نہ ہوئے ہوں کچھ ایسی خاندانی شخصیات تھیں جنھوں نے حاکم اعلیٰ کے آگے سر
سجود نہ کیا بلکہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح حق و سچ کا دامن ہاتھ سے جانے نہ
دیا ۔ ایسی صحافتی شخصیات نے قید و سلا سل اور جام شہادت بھی حاصل کیں،
ہمیشہ کیلئے امر بھی ہوگئے۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت پر جب نظر
پڑی تو سرکاری ٹی وی ان کا ذاتی چینل محسوس ہوتا تھا جبکہ نجی پرنٹ میڈیا
ان کے قابو میں نہیں آئے ۔بھٹو صاحب نے بھی دیگر حکمرانوں کی طرح کچھ
صحافیوں کو لالچ اور کچھ کو دھمکی سے ہتھیالیہ۔۔بھٹو صاحب کے بعد جنرل
ضیاءالحق جو اپنے آپ کو حق کی زبان اور مذہب کا علمدان کہلواتے تھے انھوں
نے بھی سارے اخلاقی اصول و ضوابط توڑ ڈالے اور اپنی حکومت کو بچانے کے خاطر
ابلاغ عامہ پر شدید جارحانہ پابندیاں عائد کردیں، یہاں بھی مفاد پرست
صحافیوں نے ابلاغ عامہ کی دھجیاں بکھیر دیں اور بر سر اقتدار کے آلہ کار
ثابت ہوئے ایسے حالات میں بھی پھر حقیقی ، سچے صحافیوں نے حق و سچ کی آواز
بلند کی اور بلا خوف و خطر آمر حکمراں کے سامنے آکھڑے ہوئے، نہ یہ جھکے اور
نہ بکے۔۔یہ وقت بھی گزر گیا پھر جمہوریت داخل ہوئی جو بینظیر بھٹو اور نواز
شریف کا بالترتیب دور حکومت تھا ۔۔
ا ن دونوں حکمرانوں نے آمر حکومت سے زیادہ صحافت کو قید رکھنے کی کوشش کی
بلکہ اسے اپنی لونڈی بنانا چاہا ،پر ایسا نہ کرسکے کیونکہ ہر بار کی طرح حق
و سچ پر قائم صحافی حضرات نے پھر پور صحافت کا تحفظ کیا۔ ۔ایک بار پھر ایک
فوجی جنرل نے حکومت کی باک ڈور سنبھالی اب کی بار سب سے مختلف معاملات
سامنے آئے، اسی جنرل نے اپنے دور حکومت میں سب سے زیادہ ابلاغ عامہ کو نہ
صرف آزادی دی بلکہ اس کی جدیدیت میں حکومتی تعاون بھی کیا یہی وجہ ہے کہ
جنرل مشرف کے دور حکومت میں نجی ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں بہت تیزی
سے اضافہ ہوا اور روزگار کا ایک کھلا سمندر سامنے آیا۔ آمر حکومت ہونے کے
باوجود جمہوری حکومت سے بہت اچھی رہی۔۔۔۔۔پھر انہی سیاسی سازبازوں نے
اندرونِ خانہ معاملات طے کرکے حکومت میں آئے لیکن الیکشن۸۰۰۲ءکے بعد سے ہی
پورے پاکستان میں اب تک کئی شہروں ، قصبوں سے صحافتی برادری کو چن چن کر
بیہمانہ قتل کیا جارہا ہے۔۔ ۔گو گہ لاشوں پر سیاست کھیلی جارہی ہے۔۔۔
کہیں قلم کی نوک توڑنے کی نا کام کوشش کی جارہی ہے توکہیں سمعی و بصری کو
روکا جارہا ہے۔۔کیا یہ عوامی منتخب، جمہوری حکومت ہے جہاں آئے روز رپورٹرز،
کالم کار اور صحافیوں کو پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اب تو حد یہ
ہوگئی کہ صحافیوں کی بھی ٹاگٹ کلنگ کی جارہی ہے ۔۔ ظلم و زیادتی سے کبھی
بھی راج نہیں کیا جاتا دلوں پر راج محبت اور خدمت الناس سے ہوتا ہے ،
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ تاریک دور ہے جس میں آئے روز حکومتی سطح اور
سیاسی دباﺅ کے تحت نشر و اشاعت کو حراساں کیا جاتا ہے اس تمام عوامل کا
مقصدصرف اور صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نشر و اشاعت کے ادارے آزادی صحافت کے
بجائے قاصد ِ حکومت بنیں رہیں ، تا کہ آج کے جدید دور میں حالات و واقعات
گپت رہیں اور سیاسی حلقے اپنی شطرنچ چالوں مصروف رہیں اور اس کھیل کو عوام
سے اوجھل رکھا جائے تاکہ ان کی باز پرس نہ ہو۔۔۔ذمہ دار صحافی اپنی ذمہ
داری کو احسن انجام دینے کیلئے ان عوامل پر شدید تنقید کرتا ہے جو براہ
راست عوام الناس اور پاکستان کی سالمیت پر اثر انداز ہو۔۔۔مانا کہ ہر دور
کی طرح اس دور میں بھی صحافتی برادری میں مفاد پرست ٹولہ ہے لیکن حاکم وقت
یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے اور
سیاست دان اپنے مقصد کیلئے سچے ، ایماندار ، نڈر صحافیوں کو جو بک نہ سکے
ہوں ان کے ذمہ دارانہ فرائض سے خائف ہونے پر انہیں ہلاک کیا جارہا ہے اور
آج تک حکومتی مشنری ملزمان کا کھوج نہ لگا پائی ہے البتہ چند رسمی بیانات
اور معمولی سوگوار خاندان کو رقم دیکر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا فرق
پورا کردیا ۔۔۔کیا مجھے چیف جسٹس چوہدری افتخار صاحب بتا سکتے ہیں کہ ان کے
آنے کے بعدپاکستان میں بہتری کا کتنا بد لاﺅ ہوا، کیا ٹارگٹ کلنگ کرنے والے
ملزمان آج تک گرفتار ہوئے، اگر نہیں تو کیوں؟پھر ان کے پیچھے کون سے محرکات
ہیں جن پر حکومت لاچار و بے بس نظر آتی ہے ، یہاں تو عدلیہ کا وجود نہ ہونے
کا محسوس ہوتا ہے۔۔۔ انتظامیہ صرف حاکم اعلیٰ کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے ،
اسے نہ وطن عزیز پاکستان اور پاکستانی عوام کے تحفظ کا احساس رہا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے عوامل کبھی بھی نہیں چھپ پاتے اگر
انتظامیہ، عدلیہ اور حکومت بے بس و لاچار ہے تو ضرور جلد ابلاغ عامہ ان
لوگوں اور گروہ کو بے نقاب کرکے رہے گی۔ امریکا پاکستان کو سٹیلائٹ کے
ذریعے جنگلوں، پہاڑوں ، کھیت و باغات ، سرنگوں میں چھپے دہشت گردوں کی
نشاندہی تو کردیتا ہے لیکن سر عام قتل و غارت کرنے والوں کو گرفتار کرنا،
نا ممکن کیوں؟ کیا عینی شاہدین اندھے ، گونگے اور بہرے ہوگئے۔۔۔۔ ایسا
کیوں؟ کیونکہ ہماری پولیس خود مجرموں کی پناہ گاہ ہے اگر کوئی حقیقت بتانا
بھی چاہتا ہے تو پولیس اسی کو مجرم بناکر سزا دے دیتی ہے یہ بات تو چیف
جسٹس چوہدری افتخار صاحب بھی جانتے ہیں؟ ایسا نہ کرو۔۔ اے جمہوری
علمبرداروں کہیں پھر سے آمر نہ آجائے اور تمہیں بھاگنے کا موقع نہ
ملے۔۔۔۔!!! خدارا جمہوریت کو پنپنے کیلئے آپس میں اختلافات ختم کرو ، سیاسی
اختلافات کو ذاتی نہ بناﺅ کہیں ایسا نہ ہو جاﺅ کہ آپس کی لڑائی میں تم خود
فنا نہ ہو جاﺅ۔ ۔۔۔ اس عوام کا صبر لبریز نہ ہوجائے ورنہ تمہیں سر کا تاج
بنایا ہے کل پاﺅ ں کی جوتی بھی بنادیں گے۔اُس وقت سے ڈرو اور آپس کے
اختلافات ختم کرکے پاکستان میں امن و امان اور خوشحالی کیلئے مل جل کر کام
کرو ۔۔۔۔ تا کہ تمہیں عزت کے ساتھ پکارا جائے۔!!! |