کراچی آجکل الیکٹرانک اور پرنٹ
میڈیا کا پسندیدہ موضوع ہے،ہر بار کوئی نا کوئی نئی بات اس شہر کو
مرکزِتوجہ بنا دیتی ہے اب پتہ نہیں کہ یہ کراچی کی خوبی ہے یا خامی!!کراچی
کے حالات کیسے ہیں یہ بتانے کی قطعاََ ضرورت نہیں،آجکل کراچی کے بارے میں
بہت لکھا جارہا ہے ،قاری کو بھی دلچسپی نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں
کی تعداد کتنی ہو گئی ہے اور کتنے لوگ زخمی ہیں۔یہ دستور ہے کہ جو عمل لگا
تار ہوتا رہے وہ اپنا اثر کُھو دیتا ہے جیسے بار بار کہنے سے بات کی اہمیت
نہیں رہتی!!کراچی کسی ایک پارٹی کا شہر نہیں،جیسے اس شہر میں
سندھی،پنجابی،پٹھان،بلوچی،سرائیکی اور مہاجر لوگوں کی وسیع تعداد رہتی ہے
اسی طرح مختلف سیا سی پارٹیاں بھی اس شہر میں سرگرمِ سیا ست رہتی ہیں کہ یہ
منی پاکستان جیسے معیشت کا حب ہے اسی طرح سیاست کا بھی حب کہا جا سکتا ہے
یہاں ہر رنگ اور نسل کا آدمی روزی روٹی کماتا نظر آتا ہے اور ہر زبان کا
بندہ اسے اپنا کراچی کہتا ہے یہ لوگوں کی کراچی سے اپنائیت ہے جسے سیاسی
پارٹیاں لسا نیت کا رنگ دے کر کراچی کوسیا سی میدانِ جنگ بنا ڈالنے پر بضد
ہیں۔ہر پارٹی دوسری پارٹی پر کیچڑ اُچھا لتی نظر آتی ہے،ہر سیاستدان دوسرے
کے گریبان میں جھانکا تانکی کرتا دکھائی دیتا ہے اور کوئی دوسرا سیاستدان
اس کے مخالف کسی ٹی وی چینل کو بیان دے رہا ہوتا ہےاب لگتا ہے کہ سیاست
نقطہ چینی اور الزام تراشی تک محدود ہوگئی ہے کچھ روز قبل مجھ سے کسی صاحب
نے سوال کیا تھا کہ ”کراچی میں ایم کیو ایم اتنی اسٹرونگ کیوں ہے؟“وہ صاحب
ملتان سے تھے تبھی یہ سوال کر رہے تھے ورنہ ایم کیو ایم کے ہولڈ کا راز کون
نہیں جانتا۔میں نے جواب میں کہا”اسلئے کہ کراچی اس کا گڑھ ہے اور نائن زیرو
اس کا مرکز ،اگرچہ اس پارٹی کی قیا دت باہر بیٹھی ہے لیکن احکام یہاں سے ہی
اس پارٹی کے ورکرز تک پہنچائے جا تے ہیں“
نائن زیرو؟؟ وہ صاحب ایک بار پھر استہزائیہ ہوئے لگتا تھا کہ وہ واقعی نہیں
جانتے ۔
”نائن زیرو ایم کیو ایم کی سیا سی سر گر میوں اور کاروائیوں کا مرکز ہے اس
پارٹی کی تمام سیا سی حکمتِ عملی اسی جگہ مرتب کی جا تی الطاف حسین صاحب کے
احکام کی روشنی میں“چوہدری شجاعت بھی متحدہ سے مفاہمت کے لئے نائن
زیروتشریف لائے ،آپ اسی متحدہ کی سیاسی بیٹھک بھی کہہ سکتے ہیںپھر وہ
جمہوریت پر بات کرنے لگے۔
جمہوریت کیا ہے؟؟
”یہ وہ نہیں جو آپ یا میں پاکستانی سیاست کی بساط پر دیکھ رہے ہیں یا
دیکھتے آئے ہیں اب تو جمہوریت کرسی و اقتدار کا کھیل بن گئی ہے“
”ہاں،پاکستان میں جمہوریت نہیں موروثیت ہے پہلے داداپھر باپ پھر بیٹا یا
بیٹی یا کوئی اور خاندان کا فرد!!“ ان کی بات میں وزن تو تھا اور اگر دیکھا
جائے تو پارلیمنٹ میں اکثریت موروثیت کی پیدا وار بیٹھی ہے یہ خالی اس دور
کی بات نہیں ہر دور میں سیاست کو موروثیت نے نگلا اور جمہوریت ،جمہورت کہنے
والوں نے پاکستان سے رہی سہی جمہوریت کو کمشنری نظام کی بحالی سے رسواء کر
ڈالا!
خیر چھوڑئیے اس بحث کو،بات ہو رہی تھی کراچی اور سیاسی پارٹیوں کی ہر پارٹی
اس شہر کو اپنی ملکیت بنانے پر لڑتی جھگڑتی نظر آتی ہے اور اس سیاسی لڑائی
میں کراچی کے حالات ابتر سے ابتر ہو رہے ہیں سیا سی بد امنی نے کراچی کی
ہواﺅں کو سوگوار کر ڈالا ہے بھتہ خوری،جرائم،ٹارگٹ کلنگ اور خون ریزی جیسے
الفاظ اب مجھے کراچی کے حوالے سے بے معنٰی سے لگتے ہیں،صبح جا گو تو پتہ
چلتا ہے کہ حالات پھر کشیدہ ہیں ٹارگٹ کلنگ اور جلاﺅ گھیراﺅ میںپھر بے گناہ
مارے جا رہے ہیں فلاں سیا سی جماعت کے کارکن کے قتل پر کراچی ایک بار پھر
لہو لہان!!کل ذوالفقار مرزا نے بیان دیا کہ” مہاجروں کا لیڈر آفاق ا حمد ہے
اگر آفاق احمد مجرم ہے توالطاف حسین اس سے بڑا مجرم ہے“اس بیان پر متحدہ
مشتعل ہو گئی،حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ،مختلف علاقوں میں رات گئے تک
ہنگامہ آرائی،فائرنگ اور درجنوں گاڑیوں کو نذرِآتش کیا جاتا رہا،گلشن
اقبال،ناظم آباد ،گلستانِ جوہر،لیاقت آباد،ناگن چورنگی
،بفرزون،کورنگی،ابوالحسن اصفہانی روڈ اور کراچی کے دیگر علا قے گو لیوں کی
لپیٹ میں رہے متعدد افراد ہلا ک درجنوں زخمی اور جلاﺅ گھیراﺅ کی و جہ سے
ٹریفک کا نظام معطل ہو کر رہ گیا،کراچی کے معروف شاہرائیں سنسان اور ویران
ہو گئیں اور اگلے روز بھی کراچی میں کاروبارِزند گی معطل رہی اور حا لات نے
شہریوں کوذہنی مریض بنا چھوڑا ہے کراچی نے پھر سے خوف و ہراس کی چادر تان
لی!! اس سے قبل بھی ذوالفقار مرزا نے متحدہ کے خلاف متعدد بیانات دیے ہیں
لیکن اس بار شدید احتجا ج دیکھنے میں آیا اس کی وجہ پی پی اور متحدہ قومی
موومنٹ کے موجودہ خراب تعلقات بھی ہیں متحدہ کے کارکن پہلے ہی موجودہ حکومت
سے ناراض تھے ذوالفقار مرزا کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اس ساری
صورتحال سے نقصان عام شہری کا ہوا ۔ عوام پر معمو لاتِ زند گی تنگ کرنا
کہاں کی سیا ست ہے ایلیٹ کلاس کو تو کراچی کی بگڑتی امن و امان کی صورتحال
سے کوئی فرق نہیں پڑتا،فرق پڑتا ہے تو عام شہری کو،عام آدمی کو جس کی غربت
و افلاس زدہ زندگی اور کُملا جاتی ہے احتجا جی مُظاہرے کہاں نہیں ہوتے،لیکن
ایسے نہیں ہوتے جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں کہ عام آد می کی جان نا حق ضائع ہو
جاتی ہے عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ” کراچی کے حالات جرائم پیشہ افراد
خراب کر رہے ہیں“ اور یہ جرائم پیشہ افراد کون ہیں؟؟ان کو کن کن سیاسی
پارٹوں کی مدد حا صل ہے؟؟یہ کوئی نہیں بتائے گا کیونکہ سب کے ہاتھ مَیلے
ہیں،ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پیشہ ور گروہوں کومختلف سیا سی پاٹیارں فُل
سپورٹ کرتی ہیں تبھی وہ اتنے زور آور اور نڈر ہیں۔
کراچی میں آجکل ایک اور تحریک سر اُٹھا رہی ہے مہاجروں کا کہنا ہے کہ
سندھیوں کا سندھ،پنجابیوں کا پنجاب،بلوچیوں کا بلوچستان اور پٹھانوں کا
سرحد الگ الگ صوبے ہیں ہمیں بھی الگ صوبہ چاہیئے اور کراچی مہاجروں کا صوبہ
ہے اس حوالے سے کراچی میں جگہ جگہ چاکنگ کی گئی ہے اورحیدرآباد میں بھی
چاکنگ کی اطلاعات ہیں اردو اسپیکنگ عوام میں بھی اس حوالے سے جذباتیت
دیکھنے میں آرہی ہے اس چاکنگ میں دو نعرے قابلِ ذکر ہیں پہلا یہ کہ”سب کے
صوبے ہیں مہاجروں کا کیوں نہیں؟؟“دوسرا نعرہ ذرا جارحانہ انداز کا ہے”صو بہ
یا کفن“اس سے عام شہری کی زندگی جو اس امید پہ جی رہی تھی کہ اب حالات ٹھیک
ہو جائینگے!! (کوئی امید بَر نہیں آتی)عام شہری جو لسانیت کی بھڑکتی آگ میں
نہیں جلنا چاہتا وہ خوف میں مبتلا ہے کہ اگر سندھی مہاجر تصادم ہوا تو سب
سے زیادہ کراچی کا نقصان ہو گا،عام آدمی کا نقصان ہو گا جو سیاسی جنگ نہیں
امن چاہتا ہے جو اس امید پہ ہے ”ناصر غم نا کر وقت اچھا بھی آئے گا!زمین کے
لیئے لڑائی میں بھائی بھائی کا خون کرتا نظر آتا ہے تو الگ صوبے کا مطالبہ
کراچی کو میدانِ جنگ بنادے گا،لسا نیت کی جنگ میں جتنا خون خرابہ ہو چکا ہے
وہ کیا کم ہے؟؟جو مزید کی راہ ہموار کی جا رہی ہے بدھ کے روز ذوالفقار مرزا
نے اپنے بیان میں اس حوالے سے بھی کہا کہ”کراچی کو الگ صو بہ بنانے کے لئے
ہماری لاشوں سے گزرنا پڑے گا!!“ تصادم کی صورت ذوالفقار مرزا کی تو نہیں
عام آدمی کی نعشوں سے جو ضرور گزرے گے کیو نکہ سڑکوں پر تو عام آدمی مارا
جاتا ہے،گاڑیاں اور دکانیں تو عام آدی کی جلائی جاتیں ہے آپ جیسے لوگ تو
اپنے محلوں میں بیٹھے تماشہ دیکھتے ہیں۔قوم پرست رہنمابھی اس طرح کی بیان
بازی کرتے نظر آتے ہیں”نئے صوبے کی بات کرنے والوں کی زبان کاٹ دینگے“ اس
قسم کی بیان بازی سے کراچی کے حالات سُدھرنے کے بجائے اور ابتری کا شکار
ہونگے تمام سیاسی پارٹیاں کراچی کو ”سیا سی جا گیر“بنانے پر بضد ہیں مفاہمت
کی کوئی قابلِ ذکرکوشش نظر نہیں آرہی!!متحدہ قومی موومنٹ اور پی پی میں سیا
سی کشیدگی گہری ہوتی جا رہی ہے دونوں کی جانب سے کوئی لچک کا مظاہرہ نہیں
ہو رہا۔الطاف حسین نے بھی پی پی کے روئے کو ہدفِ تنقید بنایا،انہوں نے منگل
کے روز لندن اور کراچی کی رابطہ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا : موجودہ
حکومت سیاسی مخالفین اور ایم کیوایم کے خلا ف گھناﺅنا کھیل کھیل رہی ہے
جبکہ سچ یہ ہے کہ ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی کی ہر کڑے اور مشکل وقت کی سب
سے بڑی اور مضبوط حلیف ،معاون ومددگار جماعت ثابت ہوئی لیکن موجودہ حکومت
نے اعتماد میں نہ لے کر متحدہ کی پیٹھ میں میں خنجر گھونپا ہے “الطاف حسین
نے بجا کہا کیوں کہ موجودہ حکومت نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی اور
متحدہ کے ساتھ حکومت میں سو تیلی اولا د جیسا سلوک روا رکھا گیا،سیا سی
فیصلوں اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا،یہی وجہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ حکومت
سے الگ ہو گئی۔ماضی میں بھی پی پی اور متحد ہ کے تعلقات میں اونچ نیچ آتی
رہی ہے لیکن اب کی بار کشید گی نے دونوں جماعتوں کے تعلقات میں بد مزگی
پیدا کردی ہے اب پی پی اور متحدہ سیاسی حلیف سے سیاسی حریف بن گئے ہیں۔ایم
کیو ایم سے مفاہمت کے بغیر ہم کراچی کی امن وامان کی توقع نہیں کر سکتے
،متحدہ کراچی کی بڑی اور اہم سیاسی جماعت ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا
سکتا۔
مسلم لیگ(ق)کے رہنما اور سینئر وزیر پرویز الہٰی کا بیان خوش آئند ہے انہوں
نے کہا کہ ”کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے،کراچی کے خراب حالات کا اثر
پوری پاکستانی معیشت پر پڑے گا،کراچی کے امن کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو
متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے مذاکرات
کرنے چاہئے“پرویز الہٰی کا یہ بیان سیاسی مفاہمت کے حوالے کافی اچھا ہے
حکومت کو بھی اس سے سبق لینا چاہئے ورنہ سیاسی لڑائی میں منی پاکستان تباہ
ہو جائے گا۔آصف علی زرداری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ:”متحدہ قومی
موومنٹ کے اپوزیشن(اب تو حکومت سے چلی گئی)میں جانے سے ”حکومت“کو کوئی خطرہ
نہیں“بے شک صدر صاحب نے درست بات کہی ،ایم کیو ایم کے حکومت سے چلے جانے سے
ان کی حکومت یا کرسی کو تو کوئی خطرہ نہیں لیکن صدر صاحب آپ کراچی کے دو
کروڑ عوم کے سروں پر منڈلاتے خطرے کو کیسے بھُول گئے؟؟؟جو مر رہے ہیں،امن
وامان جن سے سیاسی۔لسانی جنگ نے چھین لیا ہے!کاروبار جن کے تباہ ہو چکے ہیں
اور ہو رہے ہیں!!کراچی کی اُجڑی گلیوں اور سڑکوں میں بہتا لہوکیوں کسی کو
نظر نہیں آتا!!
لسانیت کو اتنی ہوا دی جا رہی ہے جیسے انسان کے جینے کو یہی درکار ہے لوگ
مرتے کو زبان کی وجہ سے مرنے کو چھوڑ دیتے ہیں،کراچی کے تمام بڑے ہسپتا لوں
میں لسانی گروہوں کی اجا راداری ہے اگر زخمی اپنی پارٹی کا ہے تو اس کو
اچھی سے اچھی طبعی امداد دی جا تی ہے مخالف پارٹی کے بندے کو سسکنے کو چھوڑ
دیا جا تا ہے اس سے زیادہ لسانی تعصب کیا ہو گا کہ جس مذہب میں مرنے والا
غیر مسلم بھی ہو تو اس کی مدد کا حکم ہو وہاں اپنے ہی بھائیوں کے سا تھ
ناروا سلوک ہمارے مسلمان ہونے پربڑا سوالیہ نشان لگا دیتا ہے!!خدارا کراچی
کو سیاسی دنگل بنا کر امن وامان کی راہیں مسدود نا کرو!آخر میں صرف اتنا
کہنا ہے کہ کر اچی میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ دار کوئی ایک
سیاسی جماعت نہیں بلکہ بہت سی سیا سی جماعتیں اس کی ملکیت کی دعوےدار ہیں
اور وہ کراچی کی خوشیوں کی دشمن ہیں !!سب کو ان کے نا م پتہ ہیں سب جانتے
ہیں کہ وہ کون سے عناصر واسباب ہیں جن کی وجہ سے کراچی لہولہان ہے اور جل
رہا ہے!
کراچی کی فریاد!!
میں جل رہا ہوں سیاست کی آگ میں
مجھے بچاﺅ
قتل وغارت گری،بد امنی و فساد
ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں ہوں یرغمال
مجھے بچاﺅ
میری سوکھی رگوں سے خون رَس رہا ہے
میرا ناتواں بدن جل رہا ہے
مجھے بچاﺅ
اپنی اپنی سیاست نا چمکاﺅ
خدارا!!
مجھے بچاﺅ
سنسان کر دیئے ہیں دشمنوں نے میرے در ودیوار
روشن تھے جو چراغ وہ گُل کر دئے ہیں
پھیلتا جا رہا ہے ہر سو خوف وہراس
مجھے بچاﺅ
زبان سے نہیں مجھے کوئی سروکار
برابر ہیں میری نظر میں سب انسان
لوگ بے گناہ مر رہے ہیں ،گھر جل رہے ہیں
مجھے بچاﺅ
میں نہیں ہوں سیاست کی دکان
میں تو ہوں”منی پاکستان“
خدارا!!
مجھے بچاﺅ نعرے بازیاں نہیں درکار
میں مر رہا ہوں تعصب کی آگ میں جل رہا ہوں
مجھے بچاﺅ |