ممبئی بم دھماکے ، میڈیا اور پولیس

ہندستان کی تجارتی راجدھانی ممبئی ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا نشانہ بن گئی۔ گزشتہ بدھ (13جولائی )کو زاویری بازار کی کھاﺅ گلی میں، دادر کے کبوتر خانہ میں اوراوپیرا ہاﺅ س کی ٹاٹا روڈ پرتقریباً ایک ساتھ تین دھماکے شام کوسات بجے ایسے وقت میں ہوئے جب ان مقامات پرہجوم زیادہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جرم کا مقصد محض سنسنی پھیلانا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرنا تھا۔ اس شیطانی حرکت کی ہرجانب سے شدیدمذمت ہوئی ہے اور ہونی چاہئے۔ان کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں کم از کم 19 فوت ہو گئے۔ایک شخص بعد میںپولیس کی ’پوچھ تاچھ ‘ کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ اس طرح یہ تعداد 20 ہوگئی ۔ ناگہانی موت ہندو کی ہو چاہے مسلمان کی، کسی سفاک جرائم پیشہ کے کرتوت کا نتیجہ ہو، چاہے دہشت گردحملہ اس کا سبب ہویا پوچھ تاچھ کے دوران پولیس کی سختی، سب قابل گرفت ہیں اور لائق مذمت ہیں۔ ایسی اموات کےلئے ہر مجرم برابر سزا کا مستحق ہے۔قانون شکنی جرم ہے اور قانون کا محافظ زیادہ سخت سزا کا مستحق ہوتاہے۔

بدقسمتی سے ہندوستان اور ہمارے دو پڑوسی ممالک عرصہ سے دہشت گردی کی مار جھیل رہے ہیں۔صہیونی اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے مطابق” سیاسی مقصد کےلئے منظم عمداً قتل و خون، زبان بندی اور بے قصور لوگوں کو خوفزدہ کرنے“ کے عمل کا نام دہشت گردی ہے۔ اگرچہ دنیا میں دہشت گردی کی تاریخ پرانی ہے، مگردہشت گردی کےلئے بم دھماکے کا استعمال پہلی مرتبہ 1938 میں فلسطین عرب میں بعض صہیونی گروہوں نے کیا جس میں 124عرب جان بحق ہوئے تھے۔ ہندستان میں اس کا سلسلہ 1925 میں آر ایس ایس کے قیام کے بعد سے فرقہ ورانہ فسادات کی صورت میں شروع ہوا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1970کی دہائی میں پنجاب میں خالصتانی تحریک شروع ہوئی، جس نے آگے چل کر دہشت گردی کا روپ لے لیا۔ کشمیر میں فاروق عبداللہ کے دور اقتدار میں1987 میں کچھ برگشتہ نوجوانوں نے سیاسی مسئلہ حل کرانے کی جستجو میں بندوق اٹھالی۔ بہار، اندھراپردیش، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال سمیت بعض دیگر ریاستوں میں معاشی پسماندگی سے عاجز نوجوان ماﺅ نوازوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ اس میں ایک نیا باب 2004 میں اس وقت جڑگیا جب منظم طور پر فکری اور ذہنی سطح پر جنگجوئیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے سنگھیوں نے فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کےلئے بم دھماکوں کو اپنا ہتھیار بنایا، باقاعدہ تربیتی کیمپ لگائے اور مالیگاﺅں، مکہ مسجد، پربھنی،گوا،درگاہ اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس وغیرہ کونشانہ بنایااورجگہ جگہ دھماکے کرکے نہایت عیاری سے ان کا الزام مسلمانوں کے سرتھوپ دیا۔ آئی بی ، پولیس اور پریس میں سنگھی نظریہ کے حامل افسران نے ان کا ساتھ دیا اور جہاں کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوا ، آناًفاناًبغیر کسی جواز بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار اور خیالی مسلم تنظیموں کو مجرم قرار دے ڈالا۔ ہمارے سابق وزیر داخلہ شیوراج پاٹل بھی اس مہم میںنمایاں رہے۔ البتہ موجودہ وزیر داخلہ پی چدمبرم کا رویہ بدلا ہوا ہے۔ وہ سنگھی دھن پر تھاپ نہیں دیتے ، اسی لئے مختلف بہانوں سے بھاجپا ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ہر چند کہ علاقائی پرنٹ میڈیا اور پراﺅیٹ ٹی وی چینلز نام نہاد ’خفیہ ذرائع ‘کے حوالے سے اپنی بے بنیاد رپورٹوں کے ذریعہ اقلیتی فرقہ پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے فرقہ ورانہ منافرت پھیلاتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر زہر آلود ذہنیت والے نام نہاد صحافیوں کی بھرمار ہے جو چنڈو خانے کی اڑاتے ہیں، خود ہی الزامات اختراع کرتے ہیں، خود ہی استغاثہ کا کردار ادا کرتے ہے اور خود ہی عدالت بن کر فیصلہ صادر کردیتے ہیں۔تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کا رویہ بھی ان سے ہم آہنگ ہوتا ہے ۔جس پرانسانیت کا درد رکھنے والی تنظیمیں اور ہندو مسلم دانشور ،صحافی برابر آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔مہاراشٹرا کے ایک سابق ڈی آئی جی پولیس ایس ایم مشرف نے اپنی دستاویزی کتاب ’کرکرے کے قاتل کون؟‘ میں اس سازش کی پول کھول کر رکھدی ہے مگر ابھی تک بیجا الزام تراشیوں اور پروپگنڈا پھیلانے والوں کی جوابدہی کا کوئی نظام حکومت کے زیر غور نظر نہیں آتا، حالانکہ اب خود وزیر اعظم نے بھی یہ اعتراف کرلیا ہے کہ”بہت سے معاملات میں آج میڈیا کا کردار خود ہی الزام لگانے، مقدمہ چلانے اور فیصلہ صادر کرنے والے جج کا ہوگیا ہے ۔“
The role of the media today in many cases has become that of the accuser, the prosecutor and the judge

ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ محترم وزیر اعظم کو یہ احساس بھی ہوا کہ اس ملک کا مسلم، عیسائی اور سکھ اقلیتی طبقہ عرصہ سے اس ذہنیت کا شکار ہے۔ فرضی اور جبری انکاﺅنٹرس بھی اسی ذہنیت کا اظہار ہیں۔ پولیس نے جس کو خطاکار جانا، عدالت میںپیش کئے بغیر کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔استغاثے سے جلاد تک کی ساری کاروائی چشم زدن میںپوری کردی اور میڈیا اور سرکار نے اس کو حق بجانب قراردیدیا حتیٰ کہ اس کی جانچ تک کرانے کو آمادہ نہیں ہوئی۔یہ ذہنیت پریس میں ،پولیس میں ، افسر شاہی میں، کہیں بھی ہو،کسی کے بھی تعلق سے ہو، یکساں طور پر لائق مذمت ہے۔یہ رویہ خود دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔اذیت پہنچانے کا ایک ہتھیار ہے۔افسوس کہ جمہوری ہندستان میں اس طرح کی سفاکیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔اس کے تدارک کی کوئی تدبیر سامنے نہیں آتی۔

ممبئی کے ان حالیہ بم دھماکوں کے بعد اگرچہ اعلا سرکاری سطح پرکسی جانب داری کا اظہار نہیں ہوا ، مگر میڈیا اور پولیس کی روش اور ذہنیت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ہرچند کہ مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم، خارجہ سیکریٹری این کے سنگھ، مہاراشٹرا ے ٹی ایس سربراہ راکیش ماریہ دوٹوک الفاظ میں یہ اعلان کرچکے ہیں کہ تفتیش کسی مفروضہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ سراغوں کی بنیاد پر کی جارہی ہے اور کسی خاص شاطر گروہ پر شک نہیں کیا جارہا ہے بلکہ دہشت گردی میںملوّث سبھی گروہ شک کے گھیرے میں ہیں۔ لیکن ٹی وی چینلز نے دھماکے کی اولین خبروں کے ساتھ ہی نام نہاد ’آئی ایم‘ اور ’سیمی‘ کی کہانیاں تراشنا شروع کردیں۔ جانچ کا دائرہ دس ریاستوں تک وسیع ہونے کی جو رپورٹیں آرہی ہیں،وہ بھی یہ ظاہر کررہی ہیں یہ مشقت جائے واردات سے ملنے والے سراغوں کی بنیاد نہیں بلکہ محض گمان کی بنیاد پرکی جارہی ہے اور سارے نام حسب سابق ایک ہی فرقہ کے لئے جارہے ہیں۔ چنانچہ ابھی تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔

یہ حملہ ایک طرح سے خفیہ سراغرسانی کی ناکامی کا اعلان بھی ہے۔ اس کی وجہ کی نشاندہی مسٹر رام پردھان نے این ڈی ٹی وی پر کی ہے کہ’ آئی بی‘ اور ’را‘ سے ملنے والی لیڈس پر انحصار کیا جانے لگا ہے جبکہ علاقے پر نظر رکھنے کےلئے سابق میں پولیس کا بیٹ سسٹم تھا وہ مفلوج ہوگیا ۔ممبئی پر 26/11 کا حملہ دارصل ہندوستان پر حملہ تھا ، بیرونی سازش کی اطلاع پہلے سے آئی بی کو مل چکی تھی، مگر بروقت تدارکی اقدام نہیں ہوئے۔ لیکن 13/7 کے یہ دھماکے بظاہر مقامی نوعیت کے ہیں۔ ان کی سازش کا پتہ مقامی طور پولیس مخبروں کے توسط سے یا علاقے میں پیدل گشت کرنے والے اور مشتبہ کردار کے ہر شخص کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے بیٹ کانسٹبل سے ہی مل سکتا تھا۔ یہ ناکامی پولیس کی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کی بھی ہے جس کا زیادہ وقت سرکار چلانے میں نہیں سرکار بچانے یاذاتی منفعت کے فراق میں گزرجاتا ہے۔

سابقہ دہشت گردانہ حملوں کے برخلاف اس مرتبہ سرکاری سطح پر نشانہ کسی پڑوسی ملک کی طرف نہیں سادھا گیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔ اگر ان حملوں کا مقصد 26/11 کی طرح ہند پاک مذاکرات میں خلل ڈالنا تھا، تو سازش رچنے والوں کو ضرور مایوسی ہوئی ہوگی۔ ان حملوں کے بعد نئی دہلی میںدونوں ممالک کے اعلا افسران کے درمیان(18جولائی)کو خوشگوار ماحول میں میٹنگ کا انعقاد ہوااور اسی ماہ وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کے پروگرام پر بھی پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے جس کا ہند اور پاکستان میں اور بین اقوامی سطح پر اطمینان اظہار کیا گیا ہے۔

اس طرح کے حملوں پر سیاست کیا جانا ہرچند کہ افسوسناک ہے مگر بھاجپانے یہ الزام دوہرایا ہے کہ موجودہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف نرم رو ہے۔دہشت گردی کے معاملے میںبھاجپا کا رویہ دوغلہ ہے۔ سنگھی دہشت گردی کووہ عین قوم پرستی تصور کرتی ہے۔ اس کے دوغلے پن کے باوجود، جو مالیگاﺅں دھماکوں میں سنگھی عناصر کی گرفتاری کے بعد اس کی تلملاہٹ سے عیاں ہے، ہمارے خیال سے یہ الزام بڑی حد تک درست ہے۔ اقلیتی فرقہ ہمیشہ یہ شکایت کرتا رہا ہے کہ سرکاریں فرقہ ورانہ فسادات بھڑکاکر اقلیتی فرقہ کو دہشت زدہ کرنے والے عناصر کے خلاف نرم رو رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو نہ ملک میں ہزار ہا مسلم کش فسادات ہوئے ہوتے اور نہ بابری مسجد کی مسماری کا سانحہ پیش آیا ہوتا۔ تاحال اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے جانبدارانہ کاروائیوں اور بین اقوامی سطح پر پڑوسیوں کو ملوّث کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ موجودہ سرکار نے اس گمراہ کن روش کا زور توڑنے کی جو پہل کی ہے ہم اس کا استقبال کرتے ہیں، تاہم ابھی پولیس کی روش میں تبدیلی پر توجہ مطلوب ہے۔ (ختم)

(مضمون نگار سینرصحافی ،فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کے نائب صدر ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164326 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.