یہ وطن ہماراہے ہم ہیں پاسباں اس کے

ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں اوراگرجمہوریت ہوتوہماری حکومتیں ہمارے ووٹوں سے برسراقتدارآتی ہیں۔ اوراگر مارشل لاءہوتوبرسراقتدار آنے والے بوٹ ہماری دعاﺅں کی وجہ سے ہم پر مسلط ہوتے ہیں۔پچھلے باسٹھ سال سے یہی کھیل کھیلاجارہاہے ۔انتخابات ہوئے ،عوام نے ووٹ کاسٹ کیے ،حکومت بنی، عوامی خوش حالی اورملکی ترقی کی امیدیں وابسطہ کی گئیں ،منتخب نمائندوں نے لوٹ مارکی ،عوام کی امنگوں کے مطابق کام نہ ہوئے ،قوم نے دعائیں کیں ،بیرکوں سے بوٹ نکلے ، اقتدارپر قبضہ کیا،عوام نے جشن منایا،کچھ سیاسی عناصر بوٹو ں کوچومنے لگے ،اورپھر سے پرانی امیدیں نئے جذبے کے ساتھ، آنے والے حکمرانوں سے وابستہ کرلی گئیں۔پانچ سات سال کاعرصہ گزار کر جب دیکھاکہ اب بھی عوامی خواہشات کے مطابق کوئی کام نہیں ہوپارہاتوپھر،عوام میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں،موقع شناس سیاسی قائدین اپنے محلوں (محل کی جمع )سے نکلے ،بحالی جمہوریت کی تحریک چلی ،جلسے ہوئے ،جلوس نکالے گئے ،کچھ پکڑ دھکڑ ،کچھ رولارپا،زندہ باد اورمردہ باد ہوا،بالآخر بوٹ واپس بیرک میں گئے ،پھر انتخابات ہوئے ،اورباقی کہانی وہی جواوپربیان ہوچکی۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر دس سال بعد دس سال کیلئے بوٹ آئے اوردس سال بعد دس سال کیلئے سیاست دان آتے رہے ۔یوں بوٹوں اورلوٹوں کے درمیان قوم دس دس سال کیلئے یرغمال بن کر جینے اورزندگی کی امیدیں وابستہ کرکے کبھی جلوس اورجلسے اورکبھی دعاﺅں کے سہارے زندہ رہنے پر مجبورکردی گئی ہے۔پچھلے ساٹھ باسٹھ سال کی تاریخ میںیہی کچھ ہے ۔ہم کوئی اپنی طرف سے کہانی نہیں بنارہے،بلکہ پاکستانی حکومتی تاریخ کوالفاظ کاجامع پہنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ایساکیوں ہے ؟اس کی ایک وجہ تویہ کہ ہم نے جس استعمار سے آزادی حاصل کی وہ بڑاشاطر تھااس نے ہمیں آزادی تودے دی مگر مشروط طور پر ۔اورجن شرائط کی بنیاد پر ہمیں آزادی دی گئی ان شرائط سے صرف انہیں کوواقفیت حاصل ہے جن کی تربیت بھی اس استعمار نے خود کی تھی ۔گورنر جنرل بن کر بے چارہ قائد اعظم محمدعلی جناح توایسے ہی بدنام ہوا۔اصل طاقت توان فیوڈل لارڈز کے پاس تھی جوسیاست کے بھی کل پرزے تھے اورجن کی اولادیں فوج میں اچھے عہدوں پرفائز تھیں۔

برصغیر پربرطانیہ کے قبضے کے بعد قابض سرکار نے پورے کاپورانظام حکومت بدل دیا۔اوراپنے ملک میں رائج برطانوی نظام حکومت تھوڑی بہت ترامیم کے ساتھ برصغیر پر لاگوکردیا۔نئے رائج کیے جانے والے نظام حکومت میں جہاں عوام کی شخصی آزای ،تعلیمی ترقی ،معاشی خوش حالی اوردیگر ضروریات کاخیال رکھاگیاوہاں ساتھ ہی ساتھ برصغیر کی عوام کو ایک نوآبادیاتی ریاست کے شہری ہونے کی بناءپر کچھ بنیادی انسانی حقوق سے محروم بھی کردیاگیا۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ انگریزی اقتدار کی چاردیواری میں برصغیر کی عوام کو کھانے ،پینے، پہننے ،برتنے اوراپنے اپنے مذہب کی بنیادپر عبادات کی مکمل آزادی دے کر قید کرلیاگیا۔انتخابات منعقدہوتے ،لوگ ووٹ دیتے ،عوامی نمائندے منتخب ہوتے ،مقامی سیاسی جماعتوں کی صوبوں میں حکومتیں بنتیں،انہیں مرکزی حکومت کی طرف سے فنڈز جاری ہوتے ،صوبائی حکومتیں اپنی مرضی سے قواعدو ضوابط کے تحت بجٹ بناتیں،فنڈز استعمال کرتیں،عوامی فلاح وبہود کے منصوبے پایہ تکمیل کوپہنچتے ،سڑکیں بنتیں ،سکول وکالج تعمیر کیے جاتے ،ہسپتال قائم ہوتے اورعوام کوتمام بنیادی سہولیات فراہم کی جاتیںتھیں۔برصغیرکیلئے آئین سازی ،خارجہ پالیسی ،دفاع ،قانون و انصاف اوران جیسے دیگر اہم نوعیت کے وفاقی فیصلے انگریز سرکار کیاکرتی تھی۔ سارانظام یوں ہی تھا جیسے آج ہے ۔لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم آزادی کے مخالف ہیں۔بلکہ ایک جائزہ لیاجارہاہے کہ اُس دور اوراِس دور میں کیافرق ہے ۔جائزے میں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انگریز سرکار کے دورحکومت میں جہاں چند ایک خرابیاں تھیں وہاں کافی حد تک اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں۔کچھ لوگ اعتراض کرسکتے ہیں کہ انگریز دور میں کون سی اچھائی تھی توعرض ہے کہ اس وقت انصاف کی فراہمی اتنی مشکل نہ تھی جتنی آج ہے۔اس وقت طبقاتی تفریق یوں نہ تھی جیسے آج کردی گئی ہے ۔تعلیم کی سہولت ہرایک کیلئے یکساں طور پر میسر تھی ۔روزگار کے مواقع ہر ایک کیلئے ایک جیسے تھے ۔اُس دور میں کرپشن کے نام سے شاید ہی کوئی واقف ہو،مہنگائی کانام ونشان نہ تھا ،امن وامان کے مسائل اورعوامی تحفظ کی صورت حال آ ج سے بہت بہترتھی۔عمومی طور پر انگریز کے دورحکومت میں حالات آج سے قدرے بہترتھے۔باقی رہاآزادی کامعاملہ تواس کی صرف ایک جھلک دیکھ لی جائے کافی رہے گی ۔انگریز دورمیںلوگوں کو حکومت کی مخالفت کی بناءپر قید کردیاجاناتوممکن تھالیکن بتائیے کیااس دور میں کوئی رینجرز ،یاایف سی ،یاپولیس یوں سرراہ سب کے سامنے کسی کوگولیوں کانشانہ بناتی تھی جیسے آج خروٹ آباد ،بے نظیر پارک یالاہور کی مصروف ترین شاہراہ پر ہوتاہے؟اخبارات کی بندش اوران کے ڈیکلیریشن کی منسوخی توممکن تھی جوبہرحال کسی اورنام سے چھپ ہی جاتے تھے ۔لیکن کیاکوئی سلیم شہزاد یوں غائب ہونے کے بعد ویرانے سے مردہ حالت میں برآمد ہوتاتھا؟کسی وزیر کی بیگم کاکروڑوں روپے کاقرض معاف ہواہو،یاکسی وزیر کے بہنوئی کوقواعد وضوابط نظرانداز کرکے ترقی دی گئی ہو،یاکسی غریب نے بھوک سے تنگ آکر خود سوزی کی ہو،انگریزکے دورغلامی میں ایساکچھ نہیں ہوا۔یہ ساری ”آزادی “توآزادی کے بعد ہی ہمارے نصیب میں آئی ہے ۔اس ساری بحث کاحاصل یہ ہے کہ انگریز نے آزادی برصغیر کی عوام کونہیں دی تھی بلکہ اس نے آزادی اپنے لے پالک اورپالتوفیوڈل لارڈز کودی تھی ۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ وہ سارے اچھے معاملات جو انگریز اس غلام قوم کے ساتھ روارکھتاتھابرطانوی انگریز کے جانے کے بعداقتدارمیں آنے والے مقامی انگریزوں نے برصغیر کی عوام سے وہ حقوق بھی چھین لیے ۔اوریہی وہ سازش تھی جو انگریز نے برصغیر کی عوام کے خلاف کی اور اس کے تربیت یافتہ افراد نے اسے پایہ تکمیل کوپہنچایا۔

ہر بات میں انگریز کی نقالی کرنے والے مقامی انگریز، انگریز کی اچھی باتوں کی نقالی کیوں نہیں کرتے ۔ایک برطانوی وزیر خزانہ نے اپنی بیوی سے کہاکہ چائے میں چینی کم استعمال کیاکرو۔اس نے یہ بات اپنی ہمسائی سے کہہ دی ۔وہاں سے بات نکلتے نکلتے اخبارات تک پہنچی ۔اخبارات نے خبر شائع کردی کہ حکومت چینی پر ٹیکس لگاناچاہتی ہے ۔حقیقت یہی تھی کہ حکومتی ایوانوں میں مشورہ جاری تھاکہ چینی پر ٹیکس لگایاجائے ۔وزیر پریشان ہواکہ یہ بات باہر کیسے نکلی ۔گھر بیوی سے تذکرہ کیااس نے بتایاکہ آپ نے مجھے چینی کم استعمال کرنے کی تلقین کی تھی میں نے ہمسائی کوبتایاشاید وہاں سے بات نکلی ہو۔وزیر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاکہ وہ ایک قومی راز کوراز نہیں رکھ سکا۔اورہمارے ہاں ان کیمرہ اجلاس کی سی ڈیز امریکیوں کومل گئیں ہیں ۔کسی کوپتہ نہیں کہ کس نے یہ حرکت کی ہے ۔اوراگر کسی کوعلم بھی ہوتوکون سا اس ذمہ دار کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔بلکہ ہر ممکن حد تک ا س کی پشت پناہی کی جائے گی اوراسے تحفظ دیاجائے گا۔کیونکہ وہ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتاہوگاجو ہردور میں پاکستان میں برسراقتدار ہوتاہے ۔

برطانوی وزیراعظم ہسپتال کے دورے پر گیا۔سرجن نے ہسپتال کے قانون کی خلاف ورزی پر ڈانٹ دیا۔وزیراعظم نے معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں سے خاموشی سے نکل جانے ہی میں عافیت سمجھی ۔اوراگرہمارے ہاں ایساہوتاتووہ سرجن القاعدہ اورطالبان سے تعلقات کے شبہ میں گرفتار کرلیاجاتا۔عافیہ صدیقی کی طرح امریکہ کے حوالے کردیاجاتااورمیرے محترم ملک صاحب اسے انٹیلی جنس اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی گردانتے ۔ایک نہیں سینکڑوں ہزاروں ایسی مثالیں صرف برطانوی ایوان اقتدار سے پیش کی جاسکتی ہیں کہ جب کسی اہم عہدیدار پر صرف الزام لگاہواوراس نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کااعلان کردیاہو۔اس کے مدمقابل ہمارے برسراقتدار مقامی انگریز نہ جانے کون کون سی کالک اپنے چہروں پر لگائے جانے کے باوجود اس طرح کاطرز عمل اختیار کرنے سے قاصر ہیں ۔سوال یہ ہے کہ زندگی کے باقی شعبوں میں برطانیہ کی مثالیں دینے والے ہمارے کالے انگریز اس اچھی بات میں گوروں کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟وہاں پانچ سینٹ پیاز مہنگاہونے پر وزیر خوراک مستعفی ہوجائے ۔اورہمارے ہاں پٹرول مہنگاہونے کے باوجود عوام کو پیسوں سے بھی دستیاب نہ ہوتوکسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

ہمارامقصد آزادی کی مخالفت کرنا نہیں آزادی توایک نعمت ہے جوبڑی قربانیوں کے بعد ہمارے نصیب میں آئی مگرسوال یہ ہے کہ انگریزسے حاصل کردہ آزادی کی نعمت سے ماسوائے چند ایک گروہوں کے کون فائدہ اٹھارہاہے ؟کیا اس ملک کی غریب عوام کوآزادی کی پوری نعمت میسر آئی ؟ماسوائے اس کے کہ ہم غریب عوام چودہ اگست کی صبح کو ناشتہ کیلئے مختص رقم قومی پرچم خریدنے پر صرف کردیتے ہیں اورنہارمنہ یہ گاتے ہیں کہ :یہ وطن ہماراہے ہم ہیں پاسباں اس کے ۔اس کے علاوہ ایسی کون سی نعمت ہے جو آزادی کے نام پر ہم عوام کو میسر آئی ہو؟شاید اس کاجواب کسی حکومتی یااپوزیشن کے سیاست دان کے پا س نہ ہواوریقیناً نہیں ہے۔مگر پھر بھی ہم نعرے لگاتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں ،پائندہ قوم ہیں ،ہم سب کی ہے پہچان ،پاکستان پاکستان۔
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 11 Articles with 7142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.