20 ستمبر کی رات کو اسلام
آباد میں انتہائی حساس علاقے میں ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے قریب واقع
فائیو اسٹار ہوٹل پر بارود سے لدے ٹرک کے ذریعے حملہ کیا گیا اور اس خودکش حملے
میں متعدد غیر ملکیوں سمیت درجنوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور
سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔ اس حملے کی سی سی ویڈیو جاری کرنے اور بعد مشیر داخلہ
سمیت بعض وفاقی وزرا کے متضاد بیانات کے بعد سوالات جنم لے رہے ہیں جن کا کوئی
تسلی جواب عوام کو نہیں سکا ہے۔ ان بیانات کا ایسا لگتا ہے کہ اس ایک طرح سے
قومی سانحے (قومی سانحہ اس لئے کہ حکومت نے اسے پاکستان کا نائن الیون قرار دیا
ہے ) سے متعلق حقائق کو جان بوجھ کر چھپایا جارہا ہے ۔ اس حملے کو مختلف زاویوں
سے مبہم بنا کر الجھن بڑھایا جارہا ہے ۔ یا حکومت اصل مجرموں تک رسائی میں
ناکامی پر ایسے متضاد بیانات دے کر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ویڈیو کے
مطابق بارود سے بھری گاڑی کو جب مین گیٹ پر روکا گیا تو موقع کی نزاکت کو
دیکھتے ہوئے حملہ آور نے پیٹ سے باندھے بم کو اڑا دیا تاہم اس سے بارود تو نہیں
پھٹا بلکہ خود مرگیا اور ساتھ گاڑی کے سامنے موجود شخص (شاید سکیورٹی اہلکار
تھا) کو بھی زخمی کر دیا جو وہیں گر دم توڑ گیا اس چھوٹے سے دھماکے کے بعد
تقریبا پانچ سے سات منٹ تک گاڑی وہیں کھڑی رہی اور باردو میں آہستہ آہستہ آگ
پھیلتی گئی۔ اس طرح مخصوص المونیم سے بنا بارود دھماکے سے پھٹ گیا اور اس کے آگ
کے ٹکڑے ہوٹلوں کے کمروں میں جاگرے اور ہوٹل کی بالائی منزلوں میں آگ بھڑگ اٹھی۔ ساتھ ہی ساتھ دھماکے کے ساتھ ہی تقریب چوتھی منزل پر ایک کمرے میں نیلے رنگ کے
شعلے بھی اٹھتے دکھائی دئےے۔ نہیں معلوم وہ شعلے بارود کے ٹکروں سے بلند ہو رہے
تھے یا ہوٹل میں پہلے ہی کوئی منصوبہ اس ہولناک دھماکے کی آگ کو بھڑکانے کے لئے
موجود تھا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ انتہائی حساس علاقے میں جب سکیورٹی اہلکاروں کو
معلوم ہو چکا تھا کہ گاڑی بارود سے بھری ہوئی ہے اور پہلے دھماکے کے بعد خطرناک
صورتحال واضح ہو چکی تھی اس وقت اس تباہی کے سد باب کیلئے کیوں ہنگامی اقدام
نہیں کیا گیا؟ دھماکے کے بعد سی ڈی اے اور فائر بریگیڈ کے اہلکار بروقت آگ
بجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ جب تک ہوٹل مکمل طور پر مخدوش نہیں ہوا آگ
نہیںبجھی ۔ ایسا کیوں ہوا۔ ستم ظریفی یہ کہ ہوٹل کا فائر سسٹم بھی ناکارہ ہو
چکا تھا اور بیٹریاں بھی کام نہیں کر رہی تھیں۔ اس طرح ایک طرف ریڈ زون کی
حساسیت کی اہمیت بھی واضح ہو گئی تو دوسری طرف ہوٹل انتظامیہ کی نااہلی بھی
سامنے آگئی ساتھ ہی ساتھ سی ڈی اے کی کارکردگی بھی سامنے آگئی۔ حملے کے بعد
داخلہ امور کے وفاقی مشیر رحمان ملک کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ہدف وہ تقریب
ہدف تھی جو اسی ہوٹل میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے دی جانی تھی جس میں صدر
زرداری ’ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور چیف آف اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی
شامل تھے۔ لیکن کے فورا بعد اسپیکر کی ضیافت میں شریک وزیر اعظم گیلانی نے کہا
کہ ہدف دراصل وزیر اعظم ہاؤس تھا ۔ تاہم مشیر داخلہ رحمان ملک کا اصرار ہے کہ
اس حملہ کا واقعی ہدف میریٹ ہوٹل ہی تھا۔ حملے کے دوسرے دن تحقیقاتی کارروائی
سے صحافیوں کو آگاہ کرتے ہوئے مشیر داخلہ نے یہ انکشاف کیا کہ اسپیکر کی جانب
سے ہونے والے افطار پارٹی اسی ہوٹل میں ہونا قرار پایا تھا۔ جس کو دہشت گردوں
نے ٹارگٹ بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ذرائع سے بروقت اطلاع کے بعد اس
تقریب کو منتقل کر کے دہشت گردوں کی پوری قومی قیادت کو ہلاک کرنے کی اس سازش
کو ناکام بنایا گیا ۔ اور یوں قوم ایک اور قومی سانحے سے بچ گئی۔ لیکن اس بیان
کے ساتھ امریکا کے دورے پر موجود وزیر اطلاعات شیری رحمان نے مشیر داخلہ کے اس
بیان کی سختی سے تردید کی کہ اسپیکر کی طرف سے ایسی کوئی ضیافت مذکورہ ہوٹل میں
طے نہیں تھی اسپیکر نے صرف ریٹ معلوم کرنے کیلئے ہوٹل انتظامیہ سے رابطہ کیا
تھا۔ اس بات کی تائید ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی اور ہوٹل کے ترجمان نے
بھی کی ہے کہ اس طرح کا کوئی پروگرام بک نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہوٹل میں
اتنی بڑی ضیافت کیلئے گنجائش بھی نہیں ہے چنانچہ اس طرح کی تقریب کا انعقاد
خارج از امکان ہے۔ اس گھمبیر صورت حال سے سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ سچ کون بول
رہا ہے۔ اگر رحمان ملک سچے ہیں اور واقعی 20 ستمبر کی رات کو ہوٹل میں قومی
قیادت کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا جو سیکورٹی کے پیش نظر عین وقت
پر سازش کو ناکام بنانے کیلئے وزیر اعظم ہاؤس منتقل کر دی گئی تھی تو میریٹ
ہوٹل پر سیکورٹی کے معمولی اقدامات کیوں کئے گئے تھے۔ساتھ ساتھ یہ کہ قومی
قیادت کو بچانے کیلئے سکیورٹی سخت کرکے ہوٹل میں موجود لوگوں کو محفوظ کرنے کے
بجائے درجنوں افراد کی جانیں کیوں سازش کی بھینٹ چڑھادی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ مشیر داخلہ اس دعوے پر مصر ہیں کہ تقریب اسی ہوٹل میں طے تھی لیکن دس روز
قبل جاری دعوت ناموں میں ضیافت کا مقام وزیر اعظم ہاﺅس ہی تحریر ہے ۔ چنانچہ اس
دعوے میں کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔ اگر ان کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تو
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس انکشاف کو قوم کے سامنے لانے میں انہوں نے دو دن
کیوں لگائے۔ انہیں اس سازش کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا یا انہوں نے حملہ کے
فورا بعد اس کا انکشاف مناسب نہیں سمجھا۔
اس اہم پہلو کو اس وقت چھپانے کی کیا وجہ درپیش تھی یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا
جب صدر زرداری امریکا کے دورے پر جانےوالے تھے۔ اور قومی قیادت کو ختم کرنے کی
سازش کا انکشاف اس وقت کیا گیا جب آصف زرداری نیویارک پہنچ چکے تھے۔ مشیر داخلہ
نے یہ بھی کہا کہ اس گاڑی میں جو بارود استعمال کیا گیا تو تقریبا ایک ہزار کلو
گرام تھا اور فوجی نوعیت کا تھا ۔ ان کا اشارہ تھا کہ اس حملہ کے پیچھے کسی ملک
کا ہاتھ ہو سکتا ہے‘ لیکن اس کے بعد اس بارود کے بارے میں کوئی تحقیق میڈیا کے
سامنے نہیں لائی گئی۔ مشیر داخلہ کے ان تمام بیانات کو سامنے رکھا جائے تو
اسلام آباد میں سکیورٹی کی انتہائی ناقص انتظامات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ہولناک
دھماکے کے بعد حکومت نے محض جان چھڑانے کی کوشش کی اور اب تک کوئی بھی ذمہ دار
گرفتار نہیں ہو سکا ہے اور حسب معمول کسی غیر معروف تنظیم ”فدائین اسلام“ کی
جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی اور اسے اس پاکستانی نائن الیون
کا ذمہ دار قرار دے کر اکتفا کیا گیا۔ اس سانحے کے بعد ایک نجی ٹی وی پر صدر
زرداری کو قوم سے خطاب کی ریہرسل کرتے ہوئے دکھا یا تھا جس میں وہ” جمہوریت کو
پایہ تکمیل تک پہنچانے“ کی پریکٹس کر رہے تھے۔ اس ہولناک واقعے کے بعد صدر آصف
زرداری امریکا کے لئے روانہ ہوگئے او انہوں نے وہاں دہشت گردی کی جنگ کو
پاکستانی کی اپنی جنگ قراردیدیا اور کہا کہ قوم کو جان لینا چاہئے کہ ہم حالت
جنگ میں ہیں ۔چونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فریق مخالف کا سامنے ہونا ضروری
نہیں اور دہشت گرد ”نامعلوم“ ہوتے ہیں چنانچہ اس جنگ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی نہ
اس کا ٹارگٹ فوجی ہوتے ہیں بلکہ کوئی بھی ”پاکستانی“ اس جنگ کا نشانہ بن سکتا
ہے ۔ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف کی پالیسیوں کو کسی صورت نہیں مانتی۔ لیکن عملاً وہ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے میں پرویز مشرف سے بھی دس قدم آگے
جارہی ہے۔ صدر آصف زرداری کے عین دورہ امریکا کے موقع پر اسلام آباد میں خود
دھماکہ اور اس کے بعد آنے والے وزراءکے متضاد بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ دہشت
گرد ہر طرح کے حکومت منصوبوں سے باخبر ہیں او انہوں نے اس واقعے کے ذریعے
پاکستان کو مزید امریکی غلامی میں دھکیل دیا ۔ ملک میں دہشت گردوں کی موجودگی
ایک حقیقت ہے لیکن مذکورہ سانحے کو جس طرح حکومت نے غیر سنجیدگی سے لیا ہے اور
اس سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس سے یقینا اس واقعے کے حوالے سے غیر یقینی
صورتحال پید اہوگئی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے واقعات کے بعد متضاد بیانات
جاری کرکے قوم کو شش و پنج میں ڈالنے کی بجائے تحقیقات پر توجہ دے اور فون کے
اس پار موجود نامعلوم ”اسلامی دہشت گرد تنظیم“ کو مورد الزام ٹھہرا کر جان
چھڑانے کی بجائے اصل قاتلوں تک حقیقی رسائی کیلئے اقدامات کرے۔ |