آزاد ملک میں محفوظ کون ہے..؟

مجھے بھی پڑھیے

بزرگوں نے روایت کی ہے اور تاریخ پاکستان پر مشتمل کتابوں میں لکھا ہے کہ ہمارا پیارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کی قیادت کرتے ہوئے قربانیوں کی بانہوں میں یہ ملک حاصل کیا تاکہ ہندوستان میں مسلمان قوم آزادی کے ساتھ سانس لے سکے۔ پاکستان کے قیام میں بزرگوںنے بڑی بڑی قربانیاں دیں ۔ جن کو ہم ہر سال14 اگست، 23 مارچ اور دیگر متعدد تاریخوں میں تقریبات منعقد کر کے سرکاری و نجی سطح پر رسمی طور پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ تحریک پاکستان میںحصہ لینے والے بزرگ تحریک کے کارکنوں کی قربانی کو یاد کرتے ہیں اور ملک کی اندرونی و بیرونی، مذہبی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورت حال پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو خون کے آنسو کے روتے ہیں کہ آزادی کے بعد مسلمانوں سے کئی آزادیاں چھن گئیں۔ عوام الناس سے کھانے کی روٹی، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان حتیٰ کہ جلانے کی گیس اور لکڑی تک چھین لی گئی اور بجلی چھین کر پوری قوم کو اندھیرے میں شب و روز گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ پھر بھی یہ قوم بڑی ڈھیٹ قوم ہے۔ تمام سہولتوں اور آزادیوں سے محروم ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ”آزاد“ کہنے پر مضر ہے اور اپنی غلامی تسلیم کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ اوپر والے بھی اس عزم مصمم کا امتحان لینے کی ٹھان چکے ہیں۔ چناں چہ ہماری کوتاہیوں، غفلت اور دیگر گناہوں کے باعث ہم پر قرآنی وعدے کے مطابق فاسقوں کو مسلط کر کے مزید مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس ”آزاد“ قوم کی استقامت کا امتحان لیا جاسکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح خوش تھے کہ وہ ایک آزاد ریاست کے حصول میں کام یاب ہوگئے اور انہوں نے قوم کو”کام،کام اور کام“ کے ساتھ اتحاد ، ایمان اور عمل پیہم کی تلقین کے ساتھ آنکھیں بند کرلیں تاہم اس قوم کے ”لیڈروں“ نے کام اور ایمان و اتحاد کے فلسفے پر عمل کے بجائے شارٹ کٹ ترقی کو ترجیح دی۔ اپنے وسائل استعمال میں لانے کی کوشش کرنے کے بجائے غیروں پر اندھا دھند بھروسہ کرنے کا طریقہ کار اپنایا نتیجتاً انہوں نے عیاشانہ زندگی گزاری لیکن قوم کو ہر لمحے قرضوں کے جال میں پھنساتے چلے گئے۔ چناں چہ پاکستان میں ہر بچہ پیدا ہونے سے پہلے مقروض ہوتا ہے اور اس وقت 18 کروڑ کی آبادی تقریبًا 47 ارب ڈالر کی مقروض ہے۔ اوپر چڑھتی ڈالر کی قیمت کے تناسب سے روپے میں ان قرضوں کو تقسیم کیا جائے تو ہر پاکستانی تقریباً ساڑھے 20 بیس ہزار روپے کا مقروض ہے اس کا مطلب ہے کہ روٹی، کپڑا، مکان ، گیس، بجلی، تعلیم اور پانی تو پہلے ہی چھین لیے گئے تھے اب ”آزاد“ پیدا ہونا جو قدرتی حق تھا وہ بھی چھینا جا چکا ہے۔ قیام پاکستان کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ چوں کہ ہندو ازم اور اسلام دو الگ ثقافت، تہذیب و تمدن پر عمل پیرا ہیں۔ ساتھ رہنے کی صورت میں تہذیبی تصادم کا خطرہ ہمیشہ درپیش رہتا چناں چہ یہ بھی بنیاد بن گئی کہ مذہبی طور پر آزادی کے لیے الگ ریاست کا قیام ضروری ہے۔ لیکن افسوس آزاد مذہبی زندگی گزارنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ہماری مسجدیں اور امام بارگاہیں نامعلوم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خود کش حملوں سے محفوظ نہیں۔ آئے روز خود کش دھماکوں نے مساجد کو ویران کر دیا ہے، نمازی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں، سیکڑوں لوگ ان دھماکوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ ناسور اب مسجدوں اور امام بارگاہوں سے نکل کر سڑکوں، سرکاری اداروں، عوامی مقامات پر بھی پہنچ چکا ہے۔ قبائلی علاقوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ اسلام آباد کا انتہائی حساس اور ریڈ زون کا علاقہ بھی دہشت گردوں کی رسائی سے دور نہیں۔ انتہائی سخت سکیورٹی اور چیکنگ بھی ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکیں۔ علمائے کرام، سیاسی قائدین ، کارکنوں کے علاوہ ڈاکٹروں ، انجینئروں کا قتل عام جاری ہے ۔ ملک میں سکیورٹی ہمیشہ الرٹ رہتی ہے تاہم خود کش دھماکے نہیں رکتے۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے قرب میں ایک ہزار کلو گرام بارود سے بھرا ٹرک کسی رکاوٹ کے بغیر پہنچ کر تباہی پھیلا دے تو یہاں سے سکیورٹی کے ہائی الرٹ ہونے کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ پاکستان حقوق کے حصول کے لیے حاصل کیا گیا تھا تاہم یہاں مسلمانوں کو حقوق ملنا درکنار، پیدائشی حقوق بھی چھنتے جارہے ہیں۔ ماﺅں بہنوں کی عزت تک مسلم معاشرے میں محفوظ نہیں۔ ونی اور کاروکاری جیسی مذموم رسوم اب بھی ہمارے یہاں موجود ہیں اور ان فیصلوں میں ارکان اسمبلی بھی حصہ لیتے ہیں۔ آزاد مملکت میں عوام مزید محکوم ہوتے جارہے ہیں، ہمارے عوام پولیس کے مظالم سے محفوظ نہیں، صارفین مہنگائی سے محفوظ نہیں، نمازی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں، مسافر ٹرانسپورٹرز کی من مانیوں اور ڈاکوﺅں سے محفوظ نہیں، عوام کی حیثیت حکم رانوں کی نظر میں ختم ہو چکی ہے ، یہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان شخصیات محض ووٹوں کے حصول کے لیے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں لیکن جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو اقتدار کا نشہ ان کو عوامی مسائل سے غافل کردیتا ہے۔ ان کی نظریں عوام سے پھر جاتی ہیں اور ہر وہ بہانہ ڈھونڈتے ہیں جس سے عوام کے گرد گھیرا تنگ ہو۔ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا دعویٰ کرنے والے حکم ران عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا بہانہ بنا کر تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام سے جینے کا حق چھین رہے ہیں پھر بھی وہ اپنے دعوے سے دست بردار نہیں ہوتے دکھائی دے رہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی

یہ سب تو عوامی سطح کی باتیں ہیں، قومی اداروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ان اداروں سے بھی حقوق چھینے جا چکے ہیں، پارلیمنٹ ایوان صدر سے محفوظ نہیں، ایوان صدر مارشل لاء سے محفوظ نہیں‘ نیب سے سیاست دان محفوظ نہیں، قومی خزانہ شاہانہ اخراجات سے محفوظ نہیں، پیٹرولیم قیمتیں اوگرا سے محفوظ نہیں، 18 کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والی جمہوریت آمروں کے بوٹوں سے محفوظ نہیں۔ غرض پاکستان میں اعلیٰ ترین اداروں سے لے کر عام شہری تک ہر کوئی غیر محفوظ ہونے کو محسوس کر رہا ہے۔ تاریخ پاکستان بتاتی ہے کہ وطن عزیز میں قائم ہونے والی حکومتیں بھی ایک غیر مرئی طاقت سے محفوظ نہیں۔1948ءمیں قائد اعظم کی وفات کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں آ گئی۔ تین سال بعد ہی پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو لیاقت باغ راول پنڈی میں بھرے مجمع میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اس کے بعد 1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں ۔1958ءمیں پاکستان میں مارشل لاءلگ گیا۔ ایوب خان کے دور سے مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ جو 1971ءمیں بنگلا دیش بن گیا۔1972ءسے 1977ءتک ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے حکومت کی تاہم1977ءمیں جمہوریت ایک بار پھر مارشل لاءکی بھینٹ چڑھ گئی۔ جس سے11برسوں تک حیلے بہانوں تک اقتدار کے مزے اڑائے۔1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں جونیجو حکومت بنی۔ جسے تین سال بعد ہی1988ءمیں برطرف کردیا گیا۔ ضیاءالحق کے حادثے میں مرنے کے بعد عام انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت صدر غلام اسحاق خان کے اختیارات کا نشانہ بنی۔1990ءمیں نواز شریف کی قیادت میں حکومتی بنی جسے مذکورہ صدر نے1993ءبرطرف کردی۔ یوں برطرفی کی ایک دوڑ لگ گئی۔ اسی برطرفی کے ریس میں فاروق احمد لغاری نے بھی طبع آزمائی کی اور1993ءمیں قائم ہونے والی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔1997ءمیں دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتوں نے عنان حکومت سنبھالی تاہم ملکی تاریخ میں منتخب صدر اور آرمی چیف کے دو عہدے کا اعزاز حاصل کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے اس دوڑ میں حصہ لیا اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور9 سال عوام کو بے وقوف بنایا۔ اس نو سالہ دور حکومت میں بھی اگرچہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی تاہم برطرفی کے نشانوں سے وزارت عظمیٰ محفوظ نہ رہی اور تین وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ جنرل مشرف کے دور کے آغاز سے ہی پاکستانی عوام جو دہشت گردوں کی رحم و کرم پر تھے اب امریکی فوجیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ چناں چہ اب اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان اب امریکا سے بھی محفوظ نہیں اور یہ تصور وطن عزیز کے لیے اس لیے خطرناک ہے کہ اس خطے میں پاکستان اپنے دشمنوں میں مسلسل اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ افغانستان دشمن میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بھارت تو پہلے ہی زہریلے سانپ کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ پورے پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ اسلام آباد بم دھماکے کے بعد وفاقی وزیر قانون اور مشیر داخلہ نے اس واقعہ کو نائن الیون قرار دے کر مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ نائن الیون کی ذمہ دار القاعدہ ہے اور وہ دنیا کی نظر میں پاکستان اور افغانستان کے سوا دنیا کے کسی کونے میں موجود نہیں۔ اب آپ نے اسے نائن الیون قرار دیا ہے تو نام نہاد القاعدہ کے نام پر معصوم مسلمانوں کی بلاجواز جانیں لینے کے لیے تیار ہونا ہوگا۔ نئی جمہوری حکومت کے قیام کے بعد عوام مزید غلامی کے چنگل میں پھنستے جا رہے ہیں اور عوام یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اس سے آمرانہ دور ہی صحیح تھا۔ یہ تصور اور سوچ ہی جمہوریت کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے وعدوں کو اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر پورا کرنے میں سنجیدگی دکھائے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ حالات کے مارے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ان نمائندوں کو آئندہ مقابلوں میں سیاست کے صفحہ قرطاس سے غائب کر دیں گے۔
 
Ijaz Hussain
About the Author: Ijaz Hussain Read More Articles by Ijaz Hussain : 2 Articles with 1666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.