ہندوستان کی سیاست، سیاسی حالات اور رائے دہندگان کس کروٹ
بیٹھ جائیں ،اس تعلق سے کسی بھی طرح کی پیش گوئی کبھی بھی درست ثابت نہیں
ہوئی ہے،البتہ امکانات اور اندازے ضرور پیش کیے جاتے رہے ہیں ،لیکن صحیح
اور درست ثابت ہونے کافیصد کم ہی رہتا ہے۔پہلے 1970کے عشرے میں اور پھر
2004میں بھی سب کچھ توقعات سے برعکس ثابت ہواتھااور یہی نتیجہ 2009میں بھی
پیش گوئی کے باوجودبالکل الگ رہاتھااور من موہن سنگھ دوبارہ وزیراعظم منتخب
ہوئے تھے۔
ماضی پر نظر دوڑائیں تو واضح ہوگاکہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد
فروری 1977میں ہونے والے عام انتخابات میں محترمہ اندراگاندھی کو شکست فاش
ہوئی اور جے پرکاش نارائن کی سرپرستی میں کئی پارٹیوں پر مشتمل 'جنتاپارٹی
'کو عظیم الشان کامیابی ہاتھ لگی تھی۔ملک میں 18مہینے نافذ رہے ہنگامی
حالات کاخاتمہ ہوا اور پہلی غیر کانگریسی حکومت کاقیام عمل میں
آیاتھا،برسراقتدار جنتا پارٹی اور سیاسی پنڈتوں نے دعویٰ کردیا تھاکہ یہ
شکست سابق وزیراعظم اندراگاندھی کاسیاسی کرئیرختم ہوچکاہے اور کانگریس
پارٹی کا ربع صدی تک اقتدارمیں آنا ممکن نہیں ہے ،لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ
وہی ہوا جو قدرت چاہتی تھی اور عوام نے چاہاتھا،یعنی جنتا پارٹی کی حکومت
جوکہ متعدد پارٹیوں کا مجموعہ تھا،آپسی ناچاقی اور دست وگریباں ہونے کے
نتیجے میں اپنے ہی بوجھ تلے دب کرختم۔ہوگئی اور اندراگاندھی پھر سے بھاری
اکثریت سے کامیاب ہوگئیں۔
پرشانت کشورکےحالیہ بیان کی وجہ سے وہ ایک بار پھر سرخیوں میں آگئے ہیں اور
ان کے اس بیان پر کہ" ملک میں بھارتیہ جنتاپارٹی یعنی بی جے پی نے اپنا ایک
مقام بنالیا ہے اور وہ کئی دہائیوں تک سیاسی طور پر سرگرم رہیگی ،جیسے
کانگریس نے ملک کی آزادی کے چالیس برس تک اقتدار پر قبضہ رکھا اور وہاں
کہیں بھی بی جے پی نہیں تھی۔"یہ حقیقت بھی ہے کہ بی جے پی چالیس سال میں
ایک طاقتور سیاسی طاقت بن کر ابھری ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے رام
مندرتحریک ، قوم پرستی ،فرقہ پرست حربے اور جھوٹی باتوں کوعوام کے سامنے
ایسے پیش کرنا بھی شامل ہے کہ وہ سچ ثابت ہوجائے۔
پرشانت کشور نے 2014 میں نریندرمودی کی قیادت میں لوک سبھا انتخابات میں
کامیابی دلاکر ہندوستانی سیاست میں اپنے لئے الگ ہی جگہ بنا لی ہے،سیاسی
وانتخابی حکمت عملی کے پرانے خیال کو انہوں نے نئی بوتل میں پیش کرنے کی
کوشش کی ہے،دراصل انہوں نے اس فن کوپیشہ جاتی اہمیت سے وابستہ کردیاہے
۔مودی نے 2014 میں ان کی تیار کردہ حکمت عملی پر کام کیا ہے اور بی جے پی
نے بھاری اکثریت حاصل کی اور اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
پہلے سیاستدانوں کو انتخابی امور کا ماہر سمجھاجاتا تھا،لیکن انتخابات میں
انہوں نے ایک بہترین انتخابی ماہر کے طورپر اپنی حیثیت منوائی ہے۔حال میں
ممتابنرجی کی ٹی ایم سی کو انتخابی کامیابی دلوائی ہے۔
ان کا گوا میں دیا گیابیان سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ان کاکہناتھاکہ بی جے
پی کے تعلق سے یہ سوچ رکھنا کہ وہ کہ اقتدار سے جلد ہی باہر ہو جائے گی
،قبل از وقت ہے۔بی جے پی کسی نہ کسی شکل میں یعنی اپوزیشن کی شکل میں سیاسی
طورپر سرگرم رہیگی اور یہ کئی دہائیوں کاسلسلہ رہیگا۔بی جے پی کے بارے یہ
درست بھی ہوسکتا ہے،کیونکہ اس نے انتخابات جیتنے کے لیے کئی طرح کے حربے
اور حکمت عملی کواپنالیا ہے،آخر میں فرقہ پرستی اور زہرافشانی کرنا ان کا
حربہ رہ چکاہے۔ہاں اس حقیقت کوبھی تسلیم۔کرنا ہوگا کہ انتخابی مہم کے ساتھ
انتظامی امور کو بھی بی جے پی نے اچھی طرح اپنایا ہے اور یہی بی جے پی کی
طاقت بن چکی ہے۔
البتہ پرشانت کشور کابیان کانگریس کے ہائی کمان کو دعوت فکر دے رہا ہے
،انہیں دورے دے رہا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا جائے اور جلد سے
جلد اقتدارحاصل کرنے کی کوشش کے بجائے اندرونی انتظامیہ اور پارٹی کے دوسرے
امور کو مضبوط کرنے کی جانب توجہ دی جائے۔کانگریس 2024 کے لوک سجا انتخابات
کے لیے پرشانت کشورکی اس بیان کے بعد خدمات حاصل کرتی ہے،یہ وقت ہی بتائے
گاکہ وہ پرشانت کی نصیحت کاخیرمقدم کرتی ہے۔حالانکہ کانگریس کی سونیا
گاندھی کے ساتھ پرشانت کشور سے ملاقات میں جیسا کہ۔پہلے ذکر کیا گیا ہے،
پارٹی میں اصلاحات ، پارٹی میں تنظیمی سطح پر تبدیلی ،امیدواروں
کاانتخاب،اور ٹکٹ کی تقسیم۔کے طریقے میں تبدیلی اور پارٹی کے پورے انتظامی
ڈھانچے کی تبدیلی ہونا چاہیے،کانگریس نے پہلے 2014 میں شکست کاسامناکیا ،وہ
پرشانت کشور کی۔حکمت عملی تھی ۔ کانگریس کے لیے پرشانت کشور مستقبل میں
پارٹی کے لیے کتنے سود مند ثابت ہوں گے ،اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت
ہے،لیکن کانگریس لیڈرشپ کے ساتھ ان کی قربت اور شردپوار سمیت متعدد اپوزیشن
لیڈروں سے تبادلہ خیال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پرشانت کشور ایک نیا سیاسی
کھیل رہے ہیں،کہیں وہ ایک بار پھر بھگواپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں،ورنہ
ایسے موقعہ پر جب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں کے
ریاستی اسمبلی انتخابات سر پر ہیں،بی جے پی کے حق میں بیان دیتے ،ہاں یہ
بھی ضروری ہے کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کوبھی ان کی نصیحت پر
کھلے دل سے غور کرناہوگا۔ویسے کوروناوباء کے دوران عوام کو جس بحرانی دور
کا سامنا کرنا پڑا اور کمر توڑ مہنگائی اور نقل مکانی سے جودشواری پیش آئی
ہے ،تو وہ عام۔طور ہر بی جے پی کی موجودہ حکومت سے نالاں ضرور نظر آرہے
ہیں،لیکن پرشانت کشور کو یاد ہوگاکہ ہم۔نے اندراگاندھی کے دوبارہ اقتدار
میں آنے کا جوذکر کیا ،وہ عوام کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا،ویسے اس زمانے کے
حالات بدلے ہوئے ہیں ،نیوزچینل کی چیخ وپکار اور سوشل میڈیا نے ذہنوں اور
سوچ پر قبضہ کرلیاہے،بس اس شکنجے سے عوام اور رائے دہندگان کو نکالنے کی
منصوبہ سازی کرناہوگی۔تب ہی صاف ستھرا سیاسی ماحول پنپے گا۔
|