بالآخر دو ہفتوں کی اذیت ناک صورتحال ، لاہور سے
راولپنڈی تک جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ رکاوٹوں ، کنٹینروں ، گڑھوں اور خندقوں
کی کھدائی ، کامونکی ، سادھوکی ، گوجرانوالا ، گجرات وزیر آباد میں کاروبار
زندگی کی معطلی ، انٹر نیٹ سروس کی بندش ، گرفتاریوں پکڑ دھکڑ ، سرکاری و
نجی املاک کے نقصان ، اربوں روپے کے تجارتی خسارے ، پولیس اور مظاہرین کے
درمیان تصادم ، تشدد کے نتیجے میں بیسیوں افراد کے زخمی اور درجنوں افراد
کی اموات کے بعد حکومت اور کالعدم مذہبی تنظیم ٹی ایل پی کے درمیان کامیاب
مزاکرات کے نتیجے میں معاہدہ ہوگیا مگر کیا معاہدہ ہوا دونوں فریقین کے
درمیان کیا معاملات طے ہوئے کن معاملات پر اتفاق اور کن معاملات پر ابھی
اختلاف ہے کچھ بھی واضح نہیں۔ اس معاہدے کے ضامن سابق چئیرمین رویت ہلال
کمیٹی مفتی منیب الرحمان ہیں جبکہ مزاکراتی کمیٹی میں وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی ، وفاقی وزیر علی محمّد خان اور اسپیکر اسد قیصر شامل تھے۔ اس حوالے
سے مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ کسی
کی فتح یا کسی کی شکست نہیں بلکہ یہ اسلام اور پاکستان کی فتح ہے انھوں نے
کہا معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آ جائیں گی تاہم معاہدے کے مثبت
نتائج آنے والے چند دنوں میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے مفتی منیب نے مزید
کہا کہ یہ اس طرح کا معاہدہ نہیں کہ دوپہر کو دستخط کئے جائیں اور شام کو
کہا جائے اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں،،
یہ بات تو خوش آئند ہے کہ مزید کسی تصادم اور سنگین صورتحال سے پہلے
مزاکرات کئے گئے اور معاہدہ طے پایا مگر سوال یہ ہے کہ نوبت اس نہج تک
پہنچی کیسے حالانکہ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے خوشخبری دی کہ
مزاکرات کامیاب ہوگئے ہیں سفیر کی بے دخلی کے علاوہ تمام معاملات طے پا گئے
ہیں مگر دوسرے روز انھوں نے پورے پنجاب کو رینجر کے حوالے کر دیا اور اس سے
قبل پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پولیس کے چار جوان
شہید ہوگئے سوال یہ ہے کہ اس سے قبل مزاکرات کرنے والے بے اختیار تھے یا
مظاہرین دانستہ طور پر اپنی ضد پر قائم تھے کیونکہ خفیہ رکھے جانے والے
معاہدے کے میڈیا پر زرائع کے حوالے سے جو نکات سامنے آرہے ہیں ان میں تو
کوئی بھی ایسا نہیں جو تشدد ، خون خرابے اور پندرہ روزہ اذیت ناک صورتحال
کے بغیر نہ مانا جا سکے۔ کیونکہ بتایا جارہا ہے کہ ٹی ایل پی سفیر کی بے
دخلی کے معاملے سے دستبردار ہوگئی ہے تاہم معاملے کو پارلیمنٹ پر زیر بحث
لانے کے مطالبے پر قائم ہے جبکہ ٹی ایل پی نے آئندہ اس طرح کا احتجاج نہ
کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس کی ضمانت مفتی منیب نے دی ہے جبکہ حکومت ٹی
ایل پی کو کالعدم کیے جانے جانے کا فیصلہ واپس لے لے گی۔ سعد رضوی سمیت
معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا جبکہ سنگین
مقدمات میں ملوث لوگوں کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹی ایل پی
سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے گی اور دھرنے کے شرکاء کی واپسی پر ان کے
خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یقینا یہ تمام معاملات ایسے ہیں جو
دھرنا یا احتجاج شروع ہونے سے پہلے بھی طے کئے جاسکتے تھے آخر کیا وجہ ہے
پوری قوم کو پندرہ روز تک اذیت سے دوچار کیا گیا اور پھر حکومتی وزراء نے
کالعدم ٹی ایل پی کے خلاف جو بیانیہ سیٹ کیا اور جس طرح کے بیانات دئے
انہیں سامنے رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومت آخر اس طرح کا
معاہدہ کرنے پر آخر کیسے مجبور ہوگئی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا
کہنا تھا کہ ٹی ایل پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے اب اس کے ساتھ ٹی ٹی پی جیسا
سلوک کیا جائے گا ہم نے بڑی بڑی دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی ہے یہ ان کے
سامنے کچھ بھی نہیں اور پھر ان کا کہنا تھا کہ اسے بھارت کی پشت پناہی حاصل
ہے اور اسے بھارت سے فنڈنگ کی جارہی ہے ہم ان کے کوئی مطالبات تسلیم نہیں
کریں گے اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں سول اور عسکری
قیادت کی طرف سے متفقہ طور پر اپریشن کا فیصلہ کیا ہے یقینا وزراء کے اس
طرح کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے رہے ایسی صورتحال میں عوام یہ
پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر انڈیا سے فنڈنگ کا بیان درست تھا تو اس
حوالے سے ٹی ایل پی کے خلاف کیا کارروائی ہوگی اور معاہدے میں اس حوالے سے
کیا طے پایا اور اگر وزراء جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کر رہے تھے تو وزیر
اعظم ان کے خلاف کیا کارروائی کرنے جارہے ہیں اور پھر اس سے بھی بڑھ کر وہ
پولیس اہلکار جو اس تصادم کے نتیجے میں شہید ہوئے ان کا ذمہ دار کون ہے
حکومت نے تو معاہدہ کر لیا مگر ان کا خون کس کھاتے میں جائے گا لوگوں کو جس
اذیت سے دوچار ہونا پڑا اس کا جواب کون دے گا ملکی معیشت کو جو اربوں کا
نقصان ہوا اس کا حساب کون دے گا یقینا اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا
جواب قوم جاننا چاہتی ہے مگر حکومتی وزراء کل تک جن کا لب و لہجہ سنبھالے
نہیں سنبھالتا تھا آج سامنے آنے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں
اتنا مذہب پر عمل نہیں ہوتا جتنا مذہب کا استعمال ہوتا ہے کوئی ذاتی مفاد
کے لیے مذہب کا سہارا لیتا ہے اور کوئی سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے پیچھے
چھپ جاتا ہے خفیہ معاہدے کے سامنے آنے والے نکات میں تحفظ ناموس رسالت میں
کتنے فیصد کامیابی ملی یہ بات عام مسلمان سمجھنے سے قاصر ہے البتہ یہ بات
واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور میں ٹی ایل پی کے دھرنوں میں شامل ہو کر
پوائنٹ سکورنگ کرنے والی پی ٹی آئی آج اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے اس کے
باوجود معاہدہ ہوجانا خوش آئند ہے مگر یہ سوال بدستور موجود رہے گا کہ
اسلام اور پاکستان کی جیت کا یہ معاہدہ آخر عوام سے کیوں خفیہ رکھا جارہا
ہے ؟ |