جنگلی حیات کا عجائب گھر

یہاں ایک ہی چھت کے نیچے ہمہ اقسام کے حنوط شدہ چرند، پرند اور درندےموجود ہیں

یہاں ایک ہی چھت کے نیچے ہمہ اقسام کے حنوط شدہ چرند، پرند اور درندےموجود ہیں
رفیع عباسی
فطرت کا میوزیم صحرائے تھر کو کہا جاتا ہے لیکن کراچی کی ایک قدیم عمارت میں’’ جنگلی حیات کا عجائب گھر‘‘ بنایا گیا ہے جہاں ہمہ اقسام کےجنگلی جانور، حشرات الارض، رینگنے والےکیڑے، آبی درندےحنوط شدہ ہ شکل میں موجود ہیں۔دین محمد وفائی روڈ پر آرٹس کونسل کے چوراہے سے جب فوارہ چوک کی جانب چلیں تو وائی ایم سی اے کلب اور پی آئی آئی اے آڈیٹوریم کےدرمیان زرد پتھروں سے تعمیر کی گئی قدیم عمارت واقع ہے جو فری میسن ہال یا ہوپ لاج کے نام سے معروف تھی۔چند عشرے قبل تک اسرار کی دھند میں چھپی یہ عمارت گردو نواح کی آبادی میں ’’جادو گھر‘‘ نام سے جانی جاتی تھی۔ اس کی تعمیر فری میسن سوسائٹی کے ٹرسٹ نے 1914 میں کرائی تھی ، جس کےہال میں فری میسن تنظیم کے ممبران کی ادبی ، سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ یہودیوں کی تنظیم ہے ، لیکن اس میں مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو شہیدکے دور حکومت میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی، جولائی 1973 میںفری میسن ہال اور سوسائٹی کا ریکارڈ حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔1983ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نےمارشل لا ریگولیشن کے تحت تنظیم کو کالعدم قراردے دیا۔1990ء میں اس میں سندھ وائلڈ لائف کا دفتر اور مکھیہ کا آفس بنا یا گیا۔عمارت اور ہال آج بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔2001ء میںسندھ حکومت نے اسے قومی ورثہ قرار دیا۔1991ء میں اس میںجنگلی حیات کا عجائب گھر قائم کیا گیا جس میںروزانہ لوگوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی جن میں طلباء بھی شامل ہوتے تھے۔

یہ عمارت تقریباً ایک ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے ، جس کا ایک سرا دین محمد وفائی روڈ سے شروع ہوتا ہے تو دوسرا سرا ایوان صدر روڈ تک جاتا ہے اور یہ دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ لوہے کے پھاٹک سے جب اندر داخل ہوں تو ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں کارپارکنگ اور سکیورٹی عملےکے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ بائیں جانب چہار دیواری کے ساتھ کثیر تعداد میں ہاتھی دانت اورکچھ جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہیں ۔ عمارت میں داخل ہوتےہی لکڑی کی محراب اورچوبی سیڑھیاں نظر آتی ہیں ۔اس کی بائیں جانب چھوٹا سا باغ ہے جس میں نایاب قسم کے درخت اور پودےلگے ہیں۔ اس کے ساتھ وائلڈ لائف ملازمین کے کوارٹر ہیں، جن کے سامنے جانوروں کے شکار کے لیے لائسنس کے اجراءکا دفتر بنا ہوا ہے۔ گراؤنڈ فلور پر وائلڈ لائف کے ڈائریکٹرممتاز سومرواور ان کا عملہ بیٹھتا ہے، سیڑھیوں کے ساتھ دیواروںپرنصف درجن تختیا ں لگی ہیں جن پر عمارت کی تعمیر اور فری میسن تحریک کے اراکین کے نام کنداں ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جب اوپر جاتے ہیں تو پہلی منزل سے پہلے زینے پر پلیٹ فارم بنا ہوا ہے جس پر دفتر کے اردلی کی نشست گاہوں کے طور پر قدیم طرز کی دوکرسیاں رکھی ہیں۔ پہلی منزل پر بائیں جانب محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے کنزرویٹر، جاوید مہر اوردائیںہاتھ پر ان کے عملے کا دفتر ہے۔اس فلور پر ایک وسیع و عریض ہال میںلائبریری ہے، جس میں جنگلی حیات کے بارے مختلف زبانوں میں تحریر کی گئی 800کتابیں موجود ہیں، اس موضوع پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں شایدہی پاکستان کی کسی لائبریری میں موجود ہوں ۔کنزرویٹر، جاویدمہر نےبتایا کہ اس لائبریری کی مرمت اور تزئین و آرائش کے منصوبے زیر غور ہیں جب کہ جنگلی حیات سے متعلق مزید کتابیں بھی منگوائی جائیں گی۔لائبریری میںائیرکنڈیشن لگا ہوا ہے، کرسیاں ، میزیںاور لائبریرین بھی موجود ہے تاکہ طلباء اور محققین اپنی مطلوبہ کتابیں لے کر مکمل ذہنی یکسوئی کے ساتھ کتب بینی کرسکیں۔

جب واپس نیچے آئیں گے تو سیڑھیوں کے عقب میں کشادہ ائیر کنڈیشن ہال ہے جس میں سندھ میںجنگلی حیات کاپہلا عجائب خانہ بنایا گیا ہے۔ اس ہال میں داخل ہوتے ہیں تواس کے فرش پر لکڑی کےاسٹول یا مٹی کےپلیٹ فارم بنا کر جانور رکھے گئے ہیں جودیکھنے میں اصل معلوم ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے مگرمچھ سے واسطہ پڑتا ہے جو منہ پھاڑےمیوزیم میں آنے والوں کواس طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے ان پر حملہ کردے گا، لیکن یہ بے جان ہے۔وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر کےمطابق کراچی میں منگھوپیر کے علاقے میں سیکڑوں کی تعداد میں مگرمچھ موجود ہیں، لیکن یہ مگرمچھ ان سے علیحدہ نسل کا ہے جو ہالیجی اور اندرون سندھ کی دیگر جھیلوں میں پایا جاتا ہے۔مگرمچھ کا شمار خطرناک آبی درندوںمیں ہوتا ہے۔ جھیلوں اور تالابوں پر تعینات وائلڈ لائف کاعملہ آبی مخلوق کی نگرانی کرتا ہے ۔ جب یہ کسی مگرمچھ کو سست یا بیمار محسوس کرتا ہے تو فوری طور پروائلڈلائف حکام کو اطلاع دی جاتی ہے۔ ہم بیمار جانور کوکراچی لاکر اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں، اس کے باوجود اگریہ صحت یاب نہ ہوسکے اور مر جائےتو اس کا مردہ جسم حیاتیات کے طلبہ کے تحقیقی کاموں کے لیے تعلیمی اداروں میں بھیج دیاجاتا ہےجو ان پر تجربات کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ جانور طبعی موت اور کچھ حادثات کا شکار ہوکرمرتے ہیں۔ اس مگرمچھ کے مردہ جسم کو درس گاہوں کو بھیجنے کی بجائے،مصالحے اور مختلف کیمیکلز لگا کر حنوط کرکے محفوظ کرلیا گیا ہے۔ یہ بیس سال تک اسی حالت میں رہے گا ۔ مدت پوری ہونے کے بعداس کی کھال اور جسمانی اعضاء جھڑنا شروع ہوجائیں گے تو اس کی جگہ دوسرا مگرمچھ ممی بنا کر رکھنا پڑے گا۔ یہی صورت حال میوزیم میں موجود دوسرے جانوروں کی بھی ہے۔

جاوید مہر کے مطابق اس عمارت میں محکمہ وائلڈ لائف کے دفاتر قائم ہونے کے ایک سال بعد یہ عجائب گھر بنایا گیا تھا، وسیع و عریض ہال میں چاروں طرف کی دیواروں پر سندھ کے صحرائی علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کی 322 میں سے 190 اقسام کی قد آدم تصویریں لگائی گئیں، جن میںسائبریا اور دیگر سرد علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر پرندوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔میوزیم کے تین اطراف کی دیواروں پر بڑے بڑے شو کیس بنائےگئے جن میں جانوروں کو حنوط کرکے رکھا گیاتھا۔ لیکن ایک عشرے بعد جب ان کے مردہ اجسام کی مدت پوری ہوگئی تو ان کے بال ، کھال اور جسمانی اعضا جھڑ کرمیوزیم میں،کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی صورت میں جمع ہوتے رہے۔تفریح کی غرض سے آنے والے افراد نے بھی یہاں موجودقیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچایا جس کے بعد یہ عجائب گھر بند کرنا پڑا۔چندسال قبل اقوام متحدہ کےادارے یو این ڈی پی کےمالی تعاون سےاس کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ میوزیم کی صفائی ، ستھرائی ، تزئین و آرائش کرائی گئی۔ستمبر 2019ء میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا، فروری 2020ء میں اس کا افتتاح ہوا،لیکن کورونا کی وباء کی وجہ سے اسے دوبارہ بند کرناپڑا۔اب جب کہ اس وباء کا خاتمہ ہوگیا ہے اورحکومت کی طرف سےایس او پیز کی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں تو میوزیم بھی کھول دیا گیا ہے لیکن اس کے دروازےجنگلی حیات کے مطالعے ، مشاہدے اور تحقیق و تفتیش کی غرض سے آنے والے طلباء و صحافیوںکے لیے کھولے جاتے ہیں۔ میوزیم دیکھنے والوںکو نگراںسے اجازت لینا پڑتی ہے، اجازت ملنے کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کا ایک اہل کارساتھ رہتا ہے جو گائیڈ کے فرائض انجام دیتے ہوئے جنگلی حیات کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔ میوزیم میں گرین ٹرٹل یعنی سبز کچھوے کے حنوط شدہ جسم کے علاوہ اس کا سر اور ڈھانچہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس کی افزائش نسل ’’،میرین گرین ٹرٹل پروجیکٹ‘‘ ہاکس بے میں ہوتی ہے ۔ ایک شو کیس میں جنگلی بلی کا ڈیڑھ فٹ لمبا ڈھانچہ موجود ہے ۔ اس کی کھال کے ساتھ صرف سر ہے باقی دھڑ نہیں ہے ۔ اسے ’’فشنگ کیٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مچھلیوں کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ مچھلی کا یہ ڈھانچہ محکمہ وائلڈ لائف نے خفیہ اطلاع پر ایک گھر سے برآمد کیا تھا ۔ مالک مکان کو وائلڈ لائف ایکٹ مجریہ 2020 کے تحت چھ ماہ قید و جرمانے کی سزادی گئی۔

میوزیم میں دریا اور جھیلوں کے علاوہ سمندری حیات، سندھ کے صحرائی علاقوں، پہاڑوں، میدانوں اور جھیلوں میں پائے جانے والے جانوروں سمیت پرندوں، دودھ دینے اور رینگنے والے جانوروں کو حنوط کر کے رکھا گیا ہے۔سندھ کےصحرا اور جنگلات میں رینگنے والے جانوروں کی 107، ممالیہ جانوروں کی 82 اور پرندوں کی 322 اقسام ہیں،جن میں سےمیوزیم میں، رینگنے والے 30 اور دودھ پلانے والےجانوروں کے 26 حنوط شدہ نمونے رکھے گئے ہیں۔ہاگ یاہرن جسے پاڑا بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی اس میوزیم کے فرش پربنے چبوترے پر رکھا ہوا ہے۔ نایاب نسل کا ہرن جسے مقامی زبان میں ’’کھاوڑ‘‘ اور انگریزی میں Hok Deer کہا جاتا ، اس عجائب خانے میں موجود ہے۔ یہ ہرن کیچڑ اور پانی والی خنک جگہوں پر رہتا ہے۔ اس عجائب گھر میں کیرتھر نیشنل پارک سے بھی آئی بیکس سمیت کئی مردہ جانوروں کے اجسام لا کر وائلڈ لائف میوزیم میں محفوظ کیاگیا ہے۔ یہاںخوں خوارقسم کے جانور بھی ہیں جن میں گیدڑ اور بھیڑیئے قابل ذکر ہیں۔ صحرائے تھر میں پائے جانے والے نایاب جانور چنکارا، کالا ہرن ، تلور، لومڑی،نگرپارکرکے مور کے حنوط شدہ اجسام ٹرافیوں کی صورت میں میوزیم میں سجائے گئے ہیں۔ یہاں اونچی جگہ پر کالاناگ بھی پھن اٹھائے کھڑاہے۔ اسے انڈین کوبرا کہتے ہیں، یہ انتہائی زہریلا ہوتا ہے،جس کا ڈساجاندار چند منٹوں میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں اس کی نسل نایاب ہے، یہ بھارت کے صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ وہاں سے رینگتا ہوا پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں جوگی قبیلے کے سپیرے اسے پکڑ لیتے ہیں۔محکمہ جنگلی حیات کے حکام نےجوگی سپیروں سے مردہ سانپ حاصل کرکے میوزیم میں سجالیا۔شو کیس میں نایاب نسل کا ایک سانپ بھی سجا ہوا ہے جس کا انگریزی نام "Maynard Awl Headed Snake " ہے۔ یہ جھاڑیوں ، پودوں کے احاطے اور ریتیلے ٹیلوں میں رہتا ہے۔اس کے علاوہصحرا اور جنگلوں میں رینگنے والے مختلف نسل کے تقریباً دو درجن سانپ شوکیسوں کے دو مختلف حصوں میں بوتلوں میں کیمیکل ڈال کر رکھے گئے ہیں۔ ایک حصے میں بے ضرر سانپ ہیں ، جن کے کاٹنے سے انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا جب کہ جودوسرے حصے میں خطرناک قم کے ناگ رکھے گئے ہیں جن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ شوکیسوں میں مختلف اقسام کے پرندے، چھ انچ سے ایک فٹ لمبی چھپکلیاں، گوہ اور دیگررینگنے والے جانور بھی رکھے ہیں۔ پہاڑی طوطے، مار خوربھی یہاں اپنی اصل ہئیت میں موجودہیں۔ اس عجائب خانے میںآبی اور جنگلی حیات، حشرات الارض، پرندے ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہیں۔یہاں جانوروں کی ممیوںکو دیکھ کر اصل کا گمان ہوتا ہے۔وسائل کی کمی اور نامساعد حالات کے باعث سالوں تک غیر فعال رہنے والا یہ میوزیم اب فعال ہوکرلوگوں کی تفریح کے علاوہ طلبہ، محققین کے لئے معلومات کا ذریعہ بنے گا۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.