کمشنر، چوزے اور کھیلوں کا سفر‘ گیارہ ہزار والا ملک


پاکستان میں کھیلوں کا نظام کسی جدید اسپورٹس فیسلٹی جیسا نہیں لگتا بلکہ ایک ایسے مرغی فارم جیسا لگتا ہے جہاں کمشنر اچانک چھاپہ مار کر دیکھتا ہے کہ چوزوں کو غلط دانہ دیا جا رہا ہے۔ وہ فوراً مالک کو گرفتار کرواتا ہے۔ ابھی پولیس اس بے چارے کو پکڑ کر لے جا رہی ہوتی ہے کہ صف میں کھڑا دوسرا آدمی مسکراتے ہوئے کہتا ہے، “سر ہم تو پیسے دے دیتے ہیں، چوزے اپنی مرضی سے چوزے خرید لیتے ہیں.” یہ جملہ ایک لطیفہ ضرور ہے مگر حقیقت میں یہ ہمارا کھیلوں کا پورا ڈھانچہ بیان کرتا ہے جہاں ہر ادارہ اپنے ہاتھ صاف کر لیتا ہے اور الزام آخر میں اسی کھلاڑی پر آتا ہے جو اپنی مرضی سے غلط سفر بھی کرتا ہے، اپنا خرچہ بھی خود برداشت کرتا ہے اور کارکردگی کم آئے تو “ایماندارانہ مایوسی” کے ساتھ تنقید بھی اسی پر ہوتی ہے۔

کوئٹہ میں نیشنل گیمز کے لیے پشاور سے کھلاڑیوں کا سفر شاندار منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ پچھلی بار جو گاڑیاں بھری گئیں وہ شاید قربانی کے جانوروں کا آخری سفر طے کرا چکی تھیں۔ درمیان میں خراب ہو گئیں۔ کھلاڑی سہارا لیتے ہوئے، پانی ڈھونڈتے ہوئے اور دلاسے سنتے ہوئے منزل کی تلاش میں رہ گئے۔ پہلے شور اٹھا تو فارمولہ بدلا گیا۔ اس بار بارہ ہزار روپے فی کس دے کر کہا گیا “آپ جائیں اور اپنی مرضی سے جائیں، ہمارے کھاتے میں تو آپ جا چکے.” کچھ ٹرین میں گئے، کچھ بس میں، کچھ ویگن میں اور چند اسٹائل میں ایسے سفر کر گئے جیسے فلموں میں ہیرو ٹرین کے دروازے پر لٹکا ہوتا ہے۔ بسوں میں بیالیس گھنٹے بیٹھ کر پہنچنے والے کھلاڑی اگلے ایک دن تک سیدھے کھڑے نہیں ہو سکے۔ سائنس کہتی ہے مسلسل اتنے گھنٹے بیٹھنے سے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ یہاں کھیلوں کا سائنس کچھ اور ہے۔ “جس نے میڈل لینا ہے وہ ویسے بھی لے لے گا.”

واپسی پر ایسوسی ایشن کے بیان کا بھی اب سکرپٹ محفوظ ہو چکا ہے۔ “ہمیں سہولیات نہیں ملیں، بجٹ کم ملا.” جیسے مرغی فارم کا ملازم پکڑے جانے پر کہہ دے “ہم نے تو پیسے دے دیے تھے، چوزے اپنی مرضی سے غلط دانہ کھا رہے تھے.”کھلاڑی کا کردار اس ملک میں عجیب ہے۔ دنیا میں کھلاڑیوں کو قومی ہیرو مانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کھلاڑیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سفر بھی خود کریں، ٹکٹ بھی خود خریدیں، کارکردگی بھی دکھائیں، اور ناکامی ہو تو اپنا دفاع بھی خود کریں۔ کوچ اور افسران کا معاملہ الگ ہے۔ کھلاڑی ٹرین میں جھولے کھاتے جاتے ہیں اور افسر جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ کھلاڑی کا سامان کھو جائے تو وہ بے بس، افسر کا سامان لیٹ ہو جائے تو اجلاس طلب۔ کھلاڑی کے پاس چائے کا کپ نہ ہو تو ا±سے کہا جاتا ہے "برداشت سیکھو", افسر کے گرم کپ کے بغیر تصویر نہیں بنتی۔

ایک جمناسٹ ملا۔ پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ بولا “لاہور شفٹ ہو رہا ہوں.” وجہ پوچھی تو کہا “وہاں کم از کم کھلاڑی کو کھلاڑی سمجھا جاتا ہے.” اقرار کرنا پڑے گا کہ پشاور سے لاہور جانا صرف لوکیشن کی تبدیلی نہیں بلکہ عزت کی تلاش کا سفر ہے۔ کھلاڑی کا کہنا تھا کہ ناکے پر پولیس والا تک عزت سے بات کرتا ہے۔ یہاں کارڈ دکھاو تو بھی سوال جواب الگ اور رویہ الگ۔

پیسے کی کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔ سننے میں آیا کچھ کھلاڑیوں سے “اکیس ہزار” پر دستخط لیے گئے اور “گیارہ ہزار” ادا ہوئے۔ یعنی رسید میڈل سائز کی، رقم آدھی پلیٹ والی۔ جب بات پوچھیں گے تو وضاحت بھی تیار ہے “ہم نے تو پیسے دے دیے تھے، چوزے اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کتنے رکھیں اور کتنے واپس لائیں.” یہ نیا فارمولہ معیشت میں بھی چل سکتا ہے۔ تنخواہ بڑی رقم پر دستخط کروا کر چھوٹی دے دی جائے اور پیچیدہ جواب یہی ہو کہ “سسٹم کی مرضی تھی.”

سوال صرف سفر یا چند ہزار کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کھیلوں کا نظام آخر کس کے لیے ہے؟ کھلاڑی کے لیے؟ یا آفیشل کے لیے؟ پروٹوکول افسر کا، ہوٹل افسر کا، گاڑی افسر کی، آفٹر میچ ڈنر بھی افسر کا۔ کھلاڑی کا حصہ صرف پسینہ، سفر اور اگر بدقسمتی سے سوال اٹھا دے تو نوٹس۔ کھلاڑی پرفارم کرے تو “ہماری محنت.” پرفارم نہ کرے تو “اِن کی نااہلی.”

یہ نظام اس فلسفے پر چل رہا ہے جس کے مطابق جو پیسے دے دے وہ بری الذمہ اور جو میدان میں اترے وہ ذمہ دار۔ جیسے کمشنر نے مرغی فارم والے کو پکڑ لیا مگر جو ملازم پیچھے کھڑا مسکراتا رہا وہ بچ نکلا۔ کھیلوں میں بھی بڑے بڑے معاملات اسی سکون سے مسکرانے والوں کے ہاتھ میں محفوظ رہتے ہیں۔ تبدیلی کی بات ہوتی ہے مگر تبدیلی کاغذ تک۔ سہولیات کا اعلان ہوتا ہے، فوٹو سیشن بھرپور، اور کھلاڑی گھر واپس جاتے ہیں تو نہ وہ سہولت ہوتی ہے نہ فوٹو والا جوش۔

کھیل جیسے اہم شعبے میں بھی ہم وہی پرانا فارمولا چلا رہے ہیں۔ “ہم نے تو پیسے دے دیے تھے.” ہر مسئلے کا حل یہی جملہ بن چکا ہے۔ کھلاڑیوں کی عزت، ان کی محنت، ان کی ضرورت اور ان کے سفر کے انتظام کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ تبدیل کرنا ہوگی کہ کھلاڑی اضافی بوجھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی کی وجہ سے ڈائریکٹریٹ آباد ہے، انہی کی وجہ سے نوکریاں چلتی ہیں، انہی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی صحافت بھی چل رہی ہے اور انہی کے نام پر فنڈز بھی ملتے ہیں۔ جتنے چوزوں کو قصوروار ٹھہرا کر بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ چوزے ہی دراصل اس پورے مرغی خانے کو زندہ رکھتے ہیں۔

اگر چاہتے ہیں مثالیں بنیں، اگر چاہتے ہیں میڈل آئیں، اگر چاہتے ہیں پاکستان کے نام کا چرچا ہو، تو پھر “ہم پیسے دے دیتے ہیں” والا فلسفہ بدلنا ہوگا۔ کھلاڑی کو انسان، سرمایہ اور قومی نمائندہ سمجھنا ہوگا۔ اس کے سفر کو بھی اتنی ہی عزت دینی ہوگی جتنی کسی افسر کے فائل کور کو ملتی ہے۔ جب تک ہمارے کھیلوں کا نظام لطیفہ بنا رہے گا، ہم عالمی مقابلوں میں سنجیدہ قوت نہیں بن پائیں گے۔

سوال آخر میں رہ جاتا ہے کہ کمشنر نے واقعی غلط دانہ پکڑا تھا یا اسے صرف پکڑ کر ہٹا دیا تھا؟ اور جو مسکرا کر کہہ رہا تھا کہ “ہم پیسے دے دیتے ہیں”، کیا وہ آج بھی کہیں ایک اور فارم میں کھڑا یہی جملہ دہرا رہا ہوگا؟ جب تک جواب یہ ہے، نتائج بھی یہی رہیں گے۔ اور سب کچھ ہونے کے باوجود بیان یہی رہے گا۔“چوزے اپنی مرضی سے چوزے خرید لیتے ہیں.”


#SportsRealityCheck
#PlayersDeserveRespect
#FundingMystery
#PakSportsCrisis
#AthletesVoicesMatter
#SportsManagementIssues
#RespectThePlayers
#TravelingForMedals
#SportsSystemReform
#OfficialsVsAthletes


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 872 Articles with 703455 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More