گلگت کی وادی بلند و بالا سلسلہ کوہ اور دنیا کی بلند
ترین چوٹیوں کے دامن میں واقع ہے۔فلک بوس پہاڑ، پچاس کے قریب دنیا کی بلند
ترین چوٹیاں، لہلہاتے کھیت، پہاڑی جھرنے، قدرتی جھیلیں اور آب شاریں اسی
خطہ ارضی میں واقع ہیں۔ کسی دور میں یہاں تک پہنچنا انتہائی دشوار گزار
تھا۔ یہ علاقہ خوب صورت پہاڑی وادیوں کا مجموعہ ہے جن کی سیر کے لیے سیاح
دنیا کی یلند ترین شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے ایک طویل فاصلہ سے کرکے
یہاں تک پہنچتے ہیں۔راولپنڈی میں پیر ودھائی کے بس اڈے سے یہاں کے لیے
نیکٹو کی بسیں اور ویگنیں چلتی ہیںجو پشاور روڈ پر سفر کرتے ہوئے حسن ابدال
پہنچتی ہیں جس کے دائیں طرف حویلیاں ہے۔ یہاں سے شاہراہ قراقرم کی حدود
شروع ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے ہوتی ہوئی 100کلومیٹر
کے فاصلے پر بٹ گرام پہنچتی ہیں جہاں تھاکوٹ کا عظیم الشان پل واقع ہے جو
دریائے سندھ پراس شاہراہ کا پہلا پل ہے۔ تھاکوٹ کے مقام سے دریائے سندھ اس
شاہراہ کے ساتھ ساتھ گلگت تک بہتا ہے۔ ۔ تھاکوٹ سے 28کلومیٹر کے فاصلے پر
بشام کا علاقہ واقع ہے، جہاں کئی تاریخی مقامات ہیں۔بشام کے قصبے کے بعد
پتن، کومیلا اور سازین کے قصبے آتے ہیں، جن کے بعد کوہستان اور کوہستان
اور چلاس کے علاقے آتے ہیں۔ اس قصبے کو دیامیر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں
دیامیرکی چوٹی واقع ہے جس کا شمار دنیا کی چند بلند ترین چوٹیوں میں ہوتا
ہے۔ سطح سمندر سے بلندی کے لحاظ سے اس کا نواں نمبر ہے لیکن یہ سب سے
خطرناک اور مشکل ترین چوٹی شمار کی جاتی ہے۔ اس سے آگے رائی کوٹ کا پل
آتا ہے جہاں سے نانگا پربت اور فیری میڈوز کی طرف جانے کے لیے جیپیں ملتی
ہیں۔ چلاس کے بعد گلگت کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اس کا پہلا قصبہ جگلوٹ
ہے۔ راستے میں راکاپوشی کی برف پوش چوتی آتی وے۔۔ چلاس، شاہراہ قراقرم کا
اہم مقام ہے جہاں سے استور، دیوسائی، بلتستان اور نانگاہ پربت کے راستے
نکلتے ہیں۔ اس مقام پر دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا ملاپ بھی ہوتا ہے
اور ایک سفید رنگ کی یادگار بنا کر کوہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے سنگم
کی نشان دہی کی گئی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہوکر ان تینوں پہاڑی
سلسلوں کا بہ یک وقت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے ایک سڑک بلتستان کی طرف
جاتی ہے جہاں مہم جو حضرات کے لیے ٹریکنگ اور اسکیٹنگ کے مقامات موجود ہیں۔
پولو کا شمارگلگت کے شاہی کھیلوں میں کیا جاتا ہے جب کہ مقامی باشندوں کا
دعوی ہے کہ یہ کھیل ان کے علاقے کی ایجاد ہے۔ ماہی گیری کے شائقین کے لیے
بھی یہاں وسیع مواقع ہیں۔ وادی کے ندی اور نالے ٹراؤٹ مچھلی سے بھرے ہوئے
ہیں لیکن ان کے شکار کے لیے محکمہ ماہی گیری سے پیشگی اجازت نامہ لینا
لازمی ہے۔
اگر اسلام آباد سے گلگت تک فضائی ذریعے سے آیا جائے تو یہ سفر محض پون
گھنٹے کا ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ سے گلگت کا مرکزی بازار ایک میل یا ڈیڑھ
کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے گلگت ہے۔ ایئرپورٹ سے
مشرق کی طرف جوتیال کا علاقہ ہے جو فوجی چھاؤنی پر مشتمل ہے۔ اس کے قریب
کراغ نالا بہتا ہے۔ اس مقام پر سات سو سال قبل تعمیر کی گئی ایک یادگار تاج
مغل کے نام سے بنائی گئی تھی جو گلگت شہر سے 30کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔یہاں
تک جیپ کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ گلگت و بلتستان دو ڈویژن پر مشتمل ہے اور الگ
صوبہ کی حیثیت اختیار کرنے کے بعد اس میں نوانتظامی اضلاع بنادیئے گئے ہیں،
جن میں سے چار بلتستان، تین گلگت اور دو ہنزہ۔نگر میں شامل ہیں۔ اس سے پہلے
ہنزہ۔نگر کو بھی گلگت ڈویژن میں شمار کیا جاتا تھا جسے اب علیحدہ کر دیا
گیا ہے۔ گلگت کی وادی بے شمار چھوٹے بڑے قصبات اور خوب صورت دیہاتوں پر
مشتمل ہے جن میں سے پندھار کی وادی، غزر تحصیل میں واقع ہے جو گلگت شہر سے
6 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ اس علاقے میں ایک جھیل بھی ہے جس کا نام اس
گاؤں کے نام پر پندھار ہے۔ یہ ایک دل فریب سیاحتی مقام ہے۔ اس کے اطراف
میں پھلوں کے باغات اورہرے بھرے میدان ہیں۔
یہاں کی دوسری حسین ترین وادی شگر ہے، جو دریائے شگر کے دہانے پر واقع ہے۔
اس دریا کو بیافو اور بلتورو گلیشیرز کے پگھلنے سے پانی حاصل ہوتا ہے۔ اس
وادی کے باشندوں کی زبان بلتی ہے۔ یہاں 17ویں صدی کا ایک قلعہ ہے جسے اماچہ
خاندان کے راجہ نے تعمیر کرایا تھا، اسے مقامی زبان میں ’’فونگ خار ‘‘کے
قلعہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہاں ایک عجائب گھر، بدھا کی چٹانیں، صدپارہ،
امر کچور اور شانگل جھیل بھی واقع ہیں جس کے اندر مختلف اقسام کی آبی حیات
پائی جاتی ہے جب کہ خوش رنگ پرندوں نے یہاں اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔گلگت
شہر سے 43کلومیٹر کے فاصلے پر نلتر کی وادی ہے جو ٹریکنگ کی سہولتوں کی وجہ
سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے جس کی بلندیوں پر
گھنا جنگل ہے۔ پگھوڑا ٹریک کے اختتام پر چٹورکنڈ کا سر سبز علاقہ ہے، جہاں
سے کوہ ہندو کش کا پہاڑی سلسلہ گزرتا ہے۔ یہاں نلتر نام کی ایک جھیل اور
اسکیٹنگ کلب بھی واقع ہے۔ اس کے بعد بروشا کی وادی ہے جو گلگت شہر سے
43کلومیٹر مشرق کی طرف ایک تنگ سے علاقے میں واقع ہے یہاں پر ہر سو خوب
صورت نظارے بکھرے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔
بلتت کا قلعہ: کریم آباد سے ایک کلومیٹر کی دوری یہ قلعہ واقع ہے۔ اسے ان
تین سو راج مزدوروں نے تعمیر کیا تھا جو بلتستان کی شہزادی کی ہنزہ کے میر
سے شادی کے بعد اس کے ساتھ جہیز میںآئے تھے اورانہوں نے شہزادی کے حکم پر
مذکورہ شاہکار تخلیق کیا تھا۔۔
آلتت کا قلعہ : آلتت کا گاؤں کریم آباد کے علاقے سے تین کلومیٹر کے
فاصلے پر واقع ہے، جہاں یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تاریخ بلتت کے
قلعہ سے سو سال پرانی ہے۔
ڈوئیکر:
سطح سمندر سے دس ہزارفٹ کی بلندی پر ایک انتہائی خوب صورت مقام ہے جہاں سے
طلوع اور غروب آفتا ب کے نظارے سحر انگیز ہوتے ہیں۔ اس علاقے کے بلند ترین
مقام سے 7000فٹ بلند ، آٹھ پہاڑی چوٹیاں نظر آتی ہیں۔
گلمت:
گلگت کے پل سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر یہ ایک حسین ترین تاریخی قصبہ ہے،
جہاں بلند وبالا پہاڑ، چوٹیاں او ربرفانی گلیشئیرواقع ہیں۔ یہ سطح سمندر سے
7900فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔اس میں نصف درجن سے زائد چھوٹے بڑے گاؤں شامل
ہیں۔ اس کا شمار بھی وادی گلگت کے خوب صورت قصبات میں ہوتا ہے۔ اس کی
آبادی 4000افراد پر مشتمل ہے ۔ ۔ اس قصبے کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ اس میں
ایک عجائب گھر بھی ہے جو شہزادہ بہادر خان نے بنوایا تھا۔ یہاں سے ایک
کلومیٹر کی دوری پر گلکن گلیشئیر ہے۔
جگلوٹ :
یہ قصبہ گلگت سے45کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ ماضی میں چین سے ہندوستان
کی جانب سفر کرنے والے قافلے کشمیر کی طرف یہاں سے گزر کر جایا کرتے تھے۔
اس کی بلندی سطح سمندر سے 7900فٹ ہے۔ تین عظیم پہاڑوں کا ملاپ اس قصبے کے
قریب ہوتا ہے، جو ایک نہایت دل کش نظارہ پیش کرتا ہے۔ اس وادی میں 3200
مکانات بنے ہوئے، جن میں 45000 افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہ قصبہ پندرہ دیہات
پر مشتمل ہے جن میں سے ڈرموٹ، چکرکوٹ، گاشوہاٹ قابل ذکر ہیں۔
نومل کی وادی: گلگت بازار سے اگر جیپ میں سفر کیا جائے تو 25کلومیٹر کے
فاصلے پر یہ جادو نگری واقع ہے۔ اس میں کئی چھوٹے بڑے دیہات واقع ہیں جن
میں سیگل، مجیتی، جگوٹ، بتوت، کمال آباد، اسفیز، مومن آباد اور داس قابل
ذکر ہیں۔ وادی کے زیادہ تر لوگ شینا زبان بولتے ہیں لیکن کمال آباد اور
اسفیز کے علاقے میں بروشاسکی زبان بولی جاتی ہے۔ اس وادی کے ساتھ دریائے
نلتر اور دریائے ہنزہ گزرتے ہیں۔ چیری ، خوبانی اور رسیلے پھلوں اور سبزیوں
کی کاشت کی وجہ سے اس کا شمارگلگت کے زرعی علاقوں میں ہوتا ہے۔ آلو یہاں
کی نقد آور فصل ہے۔ وادی نومل، ہانزہ اور نگر سے بذریعہ پختہ سڑک منسلک
ہے۔
فیری میڈوز
گلگت کے راستے میں ایک سحر انگیزوادی ہے جسے فیری میڈوز یعنی پریوں کی
چراگاہ کا نام دیا گیا ہے۔ شاہراہ قراقرم پر رائی کوٹ سے جیپ کے ذریعے 8700
فٹ بلندی پر واقع اس خوب صورت مقام کے لیے سفر کیا جاتا ہے۔ جیپ سےتتو کے
گاؤں پہنچ کرپہاڑی چڑھائی پر پانچ گھنٹے کا پیدل سفر ہے۔راستے میں ایک
گھنا جنگل پڑتا ہے۔ اس کے بعد رائی کوٹ گلیشئیر اور ایک جھیل ہے۔ فیری
میڈوز میں پہنچ کر سیاح خود کو ایک دیومالائی سرزمین پر محسوس کرتے ہیں۔
یہاں ہر طرف سبزہ، اور درختوں کےجھنڈ ہیں ، جہاں پریاں اترتی محسوس ہوتی
ہیں۔
گلگت کی جنت نظیر وادی میں بے شمار جھیلیں، برفانی گلیشیئر اور پہاڑی
چوٹیاں واقع ہیں، جن کا سلسلہ درہ خنجراب تک چلاگیا ہے۔
دیوسائی کی سطح مرتفع
اسکردو سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر دنیا کا بلند ترین میدان واقع ہے، جو
بھورے ریچھوں کا مسکن ہے۔ اسے پاکستان کے سب سے بڑے نیشنل پارک کا درجہ
حاصل ہے ۔ اس کی بلندی 13500فٹ ہے۔ اسکردو سے دیوسائی کے راستے میں صدپارہ
جھیل اور اس کا خوب صورت گاتں آتے ہیں۔ اس علاقے میںسطح سمندر سے 12677فٹ
کی بلندی پر دنیا کی بلند ترین جھیل شیوسر واقع ہے۔ اس تفریحی مقام سے کوہ
قراقرم کی کئی برف پوش چیٹیوں جن میں براڈ پیک، گیش برم، کے ٹو اور میشا
برم کے نظارے کیے جاسکتے ہیں۔ یہاں کے گھنے جنگلات میں ہمہ اقسام کے جانور
پائے جاتے ہیں۔
|