شفاف توانائی ،وقت کا اہم تقاضا

پاکستان کے پاس اس لحاظ سے بھی یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ چین کے ساتھ سی پیک کے تحت شفاف توانائی کے شعبے میں بھی تعاون کو بڑھائے اور چین کے تجربات سے سیکھے۔چین دنیا میں قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ترقی کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ابھی حال ہی میں اکیس تاریخ کو جاری اعداد و شمار کے مطابق چین کی قابل تجدید توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اکتوبر کے آخر تک ایک بلین کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے ، جو مجموعی توانائی کی پیداوار کا 43.5 فیصد ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ تازہ ترین اعداد و شمار 2015 کی نسبت دوگنا ہو چکے ہیں یعنیٰ چین نے صرف چھ سالوں میں قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اس قدر تیزی دکھائی ہے۔اگر مزید ان اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو
پن بجلی کی صلاحیت 385 ملین کلو واٹ رہی، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سال بہ سال 30.4 فیصد بڑھ کر 299 ملین کلو واٹ ہو چکی ہے جبکہ شمسی توانائی کی صلاحیت 23.7 فیصد اضافے سے 282 ملین کلو واٹ ہو چکی ہے۔چین کی کوشش ہے کہ اقتصادی ترقی اور فطرت میں ہم آہنگی کے تصور سے جڑے رہتے ہوئے 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیک اور 2060 تک کاربن نیو ٹرل کے اہداف حاصل کیے جائیں۔انہی مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی نئے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں شفاف توانائی کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔دنیا متفق ہے کہ انسانی بقا کے لیے لازم ہے کہ کم کاربن ترقی کی جستجو کی جائے اور ایسی ترقیاتی راہیں اپنائی جائیں جو فطرت سے ہم آہنگ ہوں ،مطلب بنی نوع انسان کا متفقہ نقطہ نظر ہے کہ ماحول کی قیمت پر ترقی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہی لائے گی۔دنیا میں رکازی ایندھن کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے کئی دہائیوں سے فعال معروف ادارے راکی ماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ روایتی ایندھن سے شفاف توانائی کی منتقلی پر لاگت کم آئے گی اور حکومتوں، کاروباری اداروں اور بہت سے تجزیہ کاروں کی توقع سے کہیں زیادہ ، تیزی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نقطہ نظر کو بھرپور انداز سے ثابت بھی کیا گیا ہے اور وقت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے شفاف توانائی پر آنے والے اخراجات میں مزید کمی آئی ہے یوں تیز رفتار صاف توانائی کی منتقلی سستا ترین انتخاب بن چکا ہے۔

پالیسی سازوں، کاروباری رہنماؤں اور مالیاتی اداروں کو فوری طور پر اس ترقی کے امید افزا مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور صرف اسی صورت میں ہی پیرس موسمیاتی معاہدے کے تحت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں کمی کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس عمل میں لازم ہے کہ گفت و شنید کے عمل کو از سر نو ترتیب دیا جائے اور باقاعدہ ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا جائے تاکہ کم کاربن اور صاف ستھری، سستی توانائی کی ٹیکنالوجیز کو دنیا بھر میں متعارف کروایا جا سکے۔ترقی یافتہ ممالک کی بھی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ مالیات سمیت ٹیکنالوجی کی فراہمی سے ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کی مدد کریں کیونکہ عالمگیر سطح پر فطرت اور ماحولیات کا یکساں تحفظ ہی نسل انسانی کی بقا کا ضامن ہے۔

بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کی رپورٹ دی ری نیو ایبل اسپرنگ سے پتہ چلتا ہے کہ قابل تجدید ذرائع ماضی کی ٹیکنالوجی کے انقلابات کی طرح تیزی سے ترقیاتی خطوط کی پیروی کر رہے ہیں، جو ایک اچھی علامت ہے۔اسی طرح ایک دوسرے ادارے آئی نیٹ کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر سولر، ونڈ ، بیٹریوں، اور ہائیڈروجن الیکٹرولائزرز کا استعمال مزید ایک اور دہائی تک تیزی سے ترقیاتی رجحانات پر عمل پیرا ہوا تو ، تو دنیا 25 سالوں کے اندر خالص صفر کاربن اخراج والی توانائی پیدا کرنے کے راستے پر آجائے گی۔بلومبرگ نیوز نے بھی ایک رپورٹ میں کہا کہ آج کے روایتی توانائی کے نظام کو جاری رکھنے کے مقابلے میں تیزی سے شفاف توانائی کی منتقلی سے 26 ٹریلین ڈالر کی بچت ہوگی۔ اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جس قدر زیادہ شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار کے عمل کو آگے بڑھائیں گے، اسی قدر ان سے متعلقہ ٹیکنالوجیز میں جدت اور قیمتوں میں تیزی سے کمی واقع ہو گی۔

یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں شمسی ،پن بجلی یا ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے قدرتی وسائل تو موجود ہیں لیکن تکنیکی مشینری ، تربیت یافتہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث بدستور توانائی کا دارومدار روایتی ایندھن پر ہے جو نہ صرف معیشت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ماحولیات کے عدم تحفظ کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔اسی باعث پاکستان کا شکار موسمیاتی تبدیلی سے شدید ترین متاثرہ ممالک کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔پاکستان کے پاس اس لحاظ سے بھی یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ چین کے ساتھ سی پیک کے تحت شفاف توانائی کے شعبے میں بھی تعاون کو بڑھائے اور چین کے تجربات سے سیکھے۔چین دنیا میں قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ترقی کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ابھی حال ہی میں اکیس تاریخ کو جاری اعداد و شمار کے مطابق چین کی قابل تجدید توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اکتوبر کے آخر تک ایک بلین کلوواٹ تک پہنچ چکی ہے ، جو مجموعی توانائی کی پیداوار کا 43.5 فیصد ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ تازہ ترین اعداد و شمار 2015 کی نسبت دوگنا ہو چکے ہیں یعنیٰ چین نے صرف چھ سالوں میں قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اس قدر تیزی دکھائی ہے۔اگر مزید ان اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پن بجلی کی صلاحیت 385 ملین کلو واٹ رہی، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سال بہ سال 30.4 فیصد بڑھ کر 299 ملین کلو واٹ ہو چکی ہے جبکہ شمسی توانائی کی صلاحیت 23.7 فیصد اضافے سے 282 ملین کلو واٹ ہو چکی ہے۔چین کی کوشش ہے کہ اقتصادی ترقی اور فطرت میں ہم آہنگی کے تصور سے جڑے رہتے ہوئے 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیک اور 2060 تک کاربن نیو ٹرل کے اہداف حاصل کیے جائیں۔انہی مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے کئی نئے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔ جولائی میں، ایک قومی کاربن مارکیٹ نے آن لائن ٹریڈنگ کا آغاز کیا جس میں 2162 پاور جنریشن کمپنیاں شریک ہیں۔پیپلز بینک آف چائنا نے مالیاتی اداروں کے لیے تخفیف کاربن منصوبوں کی خاطر انتہائی آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے ہیں۔ابھی حال ہی میں چین نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ بیرونی ممالک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر نہیں کرے گا جبکہ ملکی سطح پر کوئلے کے شفاف اور موثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے 31.32 بلین ڈالرز کا ایک پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔چین کی تخفیف کاربن کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں توانائی کی کل کھپت میں کوئلے کا تناسب 2005 میں 72.4 فیصد سے کم ہو کر 2020 میں 56.8 فیصد رہ گیا ہے۔یقیناً یہ پاکستان اور بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ دیگر کے لیے بھی ایک عمدہ موقع ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی میں چین کے تجربے سےسیکھتے ہوئے شفاف توانائی کی راہ پر گامزن ہوں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1109 Articles with 416290 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More