انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ میں چونکہ سنگھ
پریوار نے گوناگوں وجوہات کی بناء پر حصہ نہیں لیا اس لیے اس کےنزدیک یوم
آزادی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں رہی ۔ مودی سرکار پر جب ہندوتوا کا رنگ
چڑھا تو اس نے 15؍ اگست کے بجائے 5؍ اگست کو غیر معمولی اہمیت دینے کی
دانستہ کوشش کی۔ 2019میں 5 ؍ اگست کو کشمیر کی دفع 307؍ کو ختم کرکے قوم
پرستی کا ڈھول بجایا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا گویا کشمیر اسی دن فتح
ہوا ہے حالانکہ وہ تو پہلے ہی ملک کا حصہ تھا۔ 2020 میں اسی دن رام مندر کا
شیلا نیاس کرکے ایک ہزار سال پرانی غلامی کا شور اس طرح مچایا گیا کہ گویا
اس دن مودی جی نے قوم کو حقیقی آزادی سے نوازہ ہے ۔ اس کے بعد لوگ باگ یہ
توقع کرنے لگے کہ 2021میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرکے اس ایجنڈے کو آگے
بڑھایا جائے گا اور اس دن کو یادگار بنانے کی کوشش کی جائے گا تاکہ اقتدار
سے محرومی کے بعد بھی 15؍ اگست کے بجائے 5؍ اگست کو قومی دن کے طور پر
منانے کا جواز نکل سکے لیکن اتفاق سے اس سال اسی دن عدالت عظمیٰ میں پیگاسس
جاسوسی کا معاملہ سماعت کے لیے آگیا اور حکومت کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔
پیگاسس نے ملک کے عوام کو اس تلخ حقیقت سے روشناس کرایا کہ آزادی کا ڈھونگ
رچانے والی یہ پاکھنڈی سرکار ایک غیر ملکی سافٹ وئیر کی مدد سے اپنے ہی
لوگوں کی جاسوسی کرکے ان کی انفرادی آزادی پر شب خون مار رہی ہے۔ یہ حکومت
اپنے ملک کے باشعورعوام کو غلام بنانے کی ایک خطرناک سازش میں ملوث ہے۔
جولائی 18، 2012 کو بین الاقوامی سطح پر پیگاسس نامی سافٹ وئیر کے استعمال
کا انکشاف ہوا ۔ اس کے ذریعہ دنیا بھرکے صحافیوں، جہد کاروں اور سیاستدانوں
کی جاسوسی کی خبروں نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ۔اس عظیم دھوکہ دھڑی میں
جن ممالک کا نام سامنے آیا ان میں ہندوستان کا نامِ نامی بھی شامل تھا۔
22؍ جولائی کو سپریم کورٹ کے وکیل ایم ایل شرما نے عدالت میں گہار لگائی کہ
اس پر ایس آئی ٹی بناکر عدلیہ کی نگرانی میں تفتیش کی جائے ۔ ۲۷؍ جولائی
کو معروف صحافی این رام اور ششی کمار نےعدالت عظمیٰ میں اس کی آزادانہ
تفتیش کا مطالبہ کیا۔
5؍ اگست کو جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آیا تو اقتدار کے
نشے میں چور حکومت نے اسے ہلکے میں لیا۔سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی
پسپائی اور شردبوبڈے کی خندہ پیشانی نے موجودہ حکومت کے دل سے عدلیہ کا ڈر
نکال دیا ہے۔ 16؍ اگست کو اس نے ایک مختصر حلف نامہ داخل کرکے وقت کی کمی
کا بہانہ بنایا اور ان الزامات کو خیالی و غیر مصدقہ خبروں پر منحصر بتاکر
قابل اعتناء نہیں سمجھا ۔ اس کے باوجود عدالت نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے حکومت کو اپنا موقف تبدیل کرکے سرکار کو تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے
کاموقع دیا۔ سرکار نے اسے بھی گنوا دیا اور پینترا بدل کر 13؍ ستمبر کو اسے
قومی سلامتی کے آہنی جوتوں کے نیچے کچلنے کی کوشش کی۔ عدالت نے اسی جوتے
سے پھٹکار لگاتے ہوئے27؍ اکتوبر کو فرمان جاری کردیا کہ’’ سرکار ہر وقت اور
ہر جگہ قومی سلامتی کا بہانہ نہیں بناسکتی۔‘‘ نیزحکومت کی مرضی کے خلاف
اپنی نگرانی میں ماہرین کی کمیٹی تشکیل دے دی۔ عدالت کا یہ اقدام سرکار کے
لیے یہ کسی بجلی کے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ پیگاسس کا بھانڈا جس دن پھوٹا اس کے اگلے دن سے ایوان
پارلیمان کا مانسون اجلاس شروع ہونا تھا اس لیے حزب اختلاف کوبیٹھے بٹھائے
حکومت کو گھیرنے کا نادر موقع مل گیا ۔ عام طور پر موجودہ حکومت کا رویہ
ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملے میں اپنی مدافعت کرنے کے بجائے مخالفین پر
ہلاّ بول دیتی ہے لیکن پیگاسس کی بابت وہ بغلیں جھانکنے لگی ۔جب اس سے کچھ
بن نہیں پڑا تو اس کے عدالت میں زیر سماعت ہونے کا بہانہ بنایا گیالیکن بات
نہیں بنی تو حکومت کسانوں اور کورونا پر بحث کرنے پر راضی ہوگئی۔ حزب
اختلاف ٹس سے مس نہیں ہوا اور اپناہنگامہ جاری رکھامجبوراً ایوانِ بالا میں
بحث سے بچتے ہوئے یہ وزارتِ دفاع سے تحریری جواب دلوایا کہ اسرائیل کے
پیگاسس اسپائی ویئر بنانے والے این ایس او گروپ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں
ہوا ہے ۔ اپنے باشندوں کی جاسوسی کا تعلق وزارت دفاع سے نہیں بلکہ
وزیرداخلہ سے ہے ایسے میں امیت شاہ کو جواب دینا چاہیے تھا لیکن وہ دبک کر
بیٹھ گئے اور یہ بتانے کے بجائے کہ جاسوسی ہوئی یا نہیں این ایس او سے لین
دین کا راگ چھیڑ دیا حالانکہ یہ بھی ممکن ہے سرکار اور این ایس او کے
درمیان کوئی دلال موجود ہو جس کے توسط یہ کام کیا گیا ہو؟
پیگاسس جاسوسی اسکینڈل پر حزب اختلاف کے اصرار اور حکومت کے انکار کی وجہ
سے مانسون اجلاس ایک دن بھی مکمل طور پر نہیں چل سکا۔ایوانِ پارلیمان میں
حکومت نے تو اسے نظر انداز کردیا مگر عوامی سطح پر اور خاص طور سے ملک کے
دانشور طبقے میں اس کے تعلق سے تشویش بڑھتی چلی گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا
کہ معاملے کی جانچ کیلئے سپریم کورٹ میں داخل ہونے والی پٹیشنوں کی تعداد
میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پانچ معتبراور سینئر صحافیوں ایس این ایم
عابدی، پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اِپسا ستاکشی اور پرنجائے گوہا
ٹھاکرتانے سپریم کا دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ ان کےموبائل میں پیگاسس کی
تصدیق ہوئی تھی ۔ ٹھاکرتا نے تو پیگاسس کی موجودگی کو ملک میں آزادی اظہار
رائے کیلئے سم قاتل قرار دیتے ہوئےاس کے استعمال کو غیر قانونی اور غیر
آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق ملک کے شہریوں کوپیگاسس جیسے
سائبر اسلحہ اور مال ویئر سے محفوظ رکھنے کیلئے عدالت کو چاہیے کہ حکومت کو
ضروری اقدامات کی ہدایت جاری کرے ۔ ان کی عرضی میں شہریوں کے پرائیویسی کے
حق کی خلاف ورزی کے معاملات سے نمٹنے اور ذمہ دار سرکاری افسران کیلئے سزا
کا تعین کرنے کی خاطر عدالتی میکانزم تیارکرنے کی اپیل بھی کی گئی ۔
صحافیوں کی حمایت میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے مفاد عامہ کی عرضی داخل
کرکےعدالت کے ذریعہ مودی حکومت سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اس نے اپنے
شہریوں کے خلاف پیگاسس کا استعمال کیا ہے؟ گلڈ نے بھی سپریم کورٹ سے ایس
آئی ٹی کے ذریعہ آزادانہ جانچ کے ساتھ جاسوسی کے معاملے میں رہنما خطوط
جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایڈیٹرس گلڈ نے جاسوسی کی ہدایت دینے والے
احکامات کی نقل عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کن قوانین
کے تحت موبائل میں اسپائی ویئرڈال کر جاسوسی کرائی گئی اور کیوں ؟ اس طرح
گویا سارے اہم سوالات عدالت عظمیٰ کے سامنے آگئے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی
پہلی سماعت میں معروف صحافی این رام، ششی کمار، رکن پارلیمان جان بریٹاس
اور ایڈوکیٹ ایم ایل شرما کی داخل کردہ عرضیوں پر سماعت کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ نے اسے نہایت سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں
آنے والی رپورٹس میں اگر صداقت ہے تو یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے ۔ اس لیےبہت
تفصیلی اور جامع جانچ کی ضرورت ہے ۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنّا کی دو رکنی بنچ نے استغاثہ کے سامنے یہ
واضح کیا کہ اس معاملے پرپوری سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جارہا ہے ۔ لیکن اس
معاملے کو سرد خانے میں جانے سے بچانے کا سہرا سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کے
سرجاتاہے۔ انہوں نے عدالت میں سوال کیا کہ سافٹ ویئر کس کے پاس ہے ؟ کون
اسے خریدسکتا ہے اور کون استعمال کرسکتا ہے؟ اس بارے میں تمام معلومات
حکومت کے پاس ہے ۔ یہ تو حکومت ہی بتائے گی کہ سافٹ ویئر کون کون خرید سکتا
ہے؟ اور اگر ہندوستانی شخصیات کی جاسوسی ہوئی ہے تو وہ کس نے اور کس مقصد
کے تحت کرائی ہے؟ اسی لئے چاہتے ہیں کہ عدالت ،مودی حکومت کو اس سافٹ ویئر
کی خریداری اور استعمال کے تعلق سےتمام معلومات دینےکی پابند بنائے۔
یہ سلگتے ہوئے سوالات حکومت کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہیں لیکن اس بابت
سرکار کسی ہمدردی کی مستحق نہیں ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی
ہے۔ اس نے پیگاسس کے ذریعہ نہ جانے کتنے لوگوں کا چین و سکون غارت کر رکھا
ہے۔ دی وائر نے ایسے161 ناموں (جن میں صحافی، وزیر،لیڈر، کارکن، وکیل وغیرہ
شامل ہیں)کا انکشاف کیاتھا ۔ ہندوستان کےدفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس
اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار توکر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر استعمال
نہیں کیا تو خریدا کیوں ؟ اور اگر حکومت نے استعمال نہیں کیا تو کس نے کیا
؟ اور جس کسی نے کیا اس کو سرکار نے روکا کیوں نہیں؟ یہ سوالات حکومت کے
گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کا رخ صاف ہے کہ وہ اس معاملے میں
کسی قسم کے دباو میں آنے کے لیے یا کسی قسم کی مفاہمت کے لیے تیار نہیں
ہے۔ مقننہ اور عدلیہ کی یہ سرد جنگ کیا گل کھلائے گی یہ تو وقت بتائے گا
لیکن اس میں انصاف کی فتح عوام کی کامیابی اور حکومت کی بہت بڑی شکست ہوگی۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|