ملک میں ضروریات زندگی کی چیزیں پہلے سے مہنگی ہونے کے
باوجود حکومت کی جانب سے گزشتہ بیس دنوں کے دوران دو مرتبہ گھی کی قیمتوں
میں اضافہ ہوا، اور پھرکچھ دنوں بعدکئی بار بجلی اور پھرایک مہینے کے اندر
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو مرتبہ اضافے نے ہر غریب آدمی کے ہوش
اڑادیئے ۔اس مہنگائی کے طوفان نے ہراوسط آمدنی والے شخص کو اس سوچ پر مجبور
کردیا کہ اوسط آمدن میں مہنگی بجلی کا بل اد اکرنا، اشیاء خوردونوش یعنی
گھی اور مہنگا آٹا خریدنا ،دالیں ،چینی ،صابن ،چائے ، بچوں کی سکول فیس ادا
کرنا، ڈاکٹر کی فیس ، مہنگی ادویات اوردیگر ضروریات زندگی کی چیزیں خریدنا
کیسے ممکن ہوگا؟اب کیا ہوگا ؟
اسی سوچ نے پی ٹی آئی ورکرز سمیت دیگر اوسط آمدنی والے لوگوں کو حکومت
کیخلاف سوشل میڈیا اور عام محفلوں میں برا بھلا کہنے پر مجبور کر دیا
۔حکومت کی جانب سے ہوشربا مہنگائی پر عوامی ردعمل نے تھکی ہوئی اپوزیشن کو
بھی جگا دیا اور انکی تھکی ہوئی جان میں بھی جان ڈالی دی ۔اپوزیشن جماعتوں
نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی تاخیر کے حکومت کیخلاف مختلف مراحل
میں احتجاج کا اعلان کیا ۔اب گزشتہ ہفتے سے ملک میں مختلف جماعتوں کی جانب
سے الگ الگ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ، پی ڈی ایم نے الگ ،جبکہ پی ڈی ایم کے
سربراہ مولانافضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی نے الگ احتجاج کا اعلان
کردیاہے ، اسطرح جماعت اسلامی سلو فلائٹ لیکر احتجاج کررہی ہے جبکہ
پیپلزپارٹی نے بھی تنہا احتجاج کا سلسلہ شروع کردیاہے ۔ ایک ہفتہ گزرنے کے
باوجود 8 سے زائد جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم سمیت کسی بھی اپوزیشن جماعت
نے کوئی ایسا احتجا ج یا جلسہ نہیں کیا جس سے حکومت دباؤ میں آجائے یا خود
و ہ جماعت مطمئن ہوجائے اور یہی حال دیکھ کر عوام بھی اس کو سیاسی جماعتوں
کے مفادکے کھیل کا حصہ سمجھ کر احتجاج اور ریلیوں سے اپنے آپ کو دور رکھتے
ہیں کیونکہ کہ ان کو پتہ ہے کہ جب ان کے سر پر آتاہے تو یہ لوگ نکل آتے ہیں
اور جب عوام کا مسئلہ ہوتاہے تو یہ لوگ اپنے مفادات کا سودا کرکے خاموش
ہوجاتے ہیں اسلئے عوام کو اس اپوزیشن سے کوئی امید ہے اورنہ حکومت کو ان سے
کوئی خوف ۔ اسلئے اپوزیشن نہ حکومت کیلئے کوئی مسئلہ ہے اور نہ عوام کیلئے
کوئی امید کی کرن ۔ہاں اگر مسئلہ ہے تو اس حکومت کی کارکردگی اس حکومت
کیلئے بھی مسئلہ ہے اور عوام کیلئے بھی ، کیونکہ اس حکومت کی معاشی
پالیسیوں نے اس ملک کی معیشت اور غریب عوام کا جینا محال کردیاہے ، پہلے
روز سے معیشت اس حکومت کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے اور تین سال گزرنے کے
باوجود ابھی تک خود حکومت کو معاشی پالیسی کی سمجھ نہیں آئی ۔اسد عمر کے
تاخیر سے آئی ایم ایف جانے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرانے کے
فیصلے سے لیکرحفیظ شیخ کے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے سے شوکت ترین کے
پچھلے 6 مہینوں میں ہوشربا مہنگائی کے دورتک حکومت کی کوئی سنجیدہ اور
کامیاب پالیسی نظر نہیں آرہی حالانکہ وزیراعظم سمیت تمام وزراء کو خوب
معلوم تھا کہ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معیشت کی خراب صورتحال ہے مگرتین
سال گزرنے کے باوجود حکومت نے اس کو جس طریقے سے ڈیل کیا ہے اور حکومتی
وزراء نے جس قدر غیر سنجیدگی سے اس حوالے سے بیانات دیئے ہیں اس سے ظاہر
ہورہاہے کہ حکومت نے اسکو سنجیدگی اور چیلنج کے طورپر لیا ہی نہیں ۔اقتدا ر
میں آنے کے بعد جب روپیہ کی قدر گرا دی گئی تووزیراعظم عمران خان نے کہا کہ
ان کو تو ٹی وی سے پتہ چلا کہ روپے کی قدرمیں کمی ہوئی ہے حالانکہ حکومت کے
سربراہ کو یہ پتہ نہ ہو کہ روپے کی قدرکیوں گری ہے ، قیمت گرنے سے ملکی
معیشت ، ملک میں اشیا ء خورد نوش کی قیمتوں پر کتنا خراب اثر پڑے گا ، جبکہ
ملک کے وزیراعظم اس سے بے خبر ہوں تو یہ غیر سنجیدگی نہیں تو اورکیاہے؟
۔اسطرح جب آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد پاکستان کو قرض کی پہلی قسط مل گئی ا
ور حکومت نے آئی ایف کی شرائط پر پٹرولیم مصنوعات سمیت بجلی اور اشیا ء
خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا تو جب
اس حوالے سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ سے پوچھا گیا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول
کرنے میں ناکام کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ کوئی مہنگائی نہیں ،منڈی
میں ٹماٹر 17 روپے فی کلو ہیں جبکہ اس وقت ملک بھر میں ٹماٹر کی قیمت 220
روپے فی کلو سے زیادہ تھی جبکہ آپ کے مشیر خزانہ جو معاشی پالیسی ان کے
ہاتھ میں ہو اور وہ ملک میں مہنگائی سے لاعلم ہو تو یہ غیر سنجیدگی نہیں تو
کیا ہے؟ جب خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیر اطلاعات سے ٹماٹر کی مہنگی
قیمتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے عوام کو ٹماٹر کی جگہ دہی
کے استعمال کا مشورہ دیا اسطرح جب حکومتی نااہلی کیوجہ سے مارکیٹ سے آٹا
غائب ہوگیا اور صوبے میں آٹا مہنگا ہوگیا تو وزیر موصوف نے اسمبلی کے فلور
پر سرخ آٹے کے فوائدبیان کردیئے جبکہ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے کہاکہ
عوام کچھ مدت کیلئے دو کی بجائے ایک روٹی پر اکتفا کریں۔حکومتی وزراء کے اس
قسم کے بیانات کو حکومت کی غیرسنجیدگی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے ۔جب
حکومت کی ناکام معاشی پالیسی کا سلسلہ جاری رہا اور مسلسل اشیاء خورد ونوش
کی قیمتوں میں اصافے سے متعلق اس وقت کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس
عاشق اعوان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ 20 کلو مٹر کی بوری 5 رپے فی
کلو فروخت کی جارہی ہے ، ایک اور وزیر علی امین گنڈا پور سے آلو اورگندم کی
قیمت کے حوالے سے دریافت کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ زیادہ مہنگائی سے تو
ہمارے کسانوں کو زیادہ آمدنی ہوتی ہے یہ تو ہمارا فائدہ ہورہاہے اور اب حال
ہی میں موصوف نے حالیہ مہنگائی کی لہر میں عوام کو ایک کپ چائے میں چینی کے
100 دانے کی بجائے 91 دانے ڈالنے کا علاج بتادیا ہے ۔اسی طرح حال ہی میں
سٹیٹ بنک کے گورنر رضاباقر نے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے 4 فیصد اوورسیز
پاکستانیوں کو فائدہ پہنچنے کی منطق بتاتے ہوئے سب کو حیران کردیا ہے ۔ جب
آپ کے مرکزی بینک کے گورنر ڈالر کی قیمت بڑھنے سے 96 فیصد عوام کو مہنگائی
کے رحم وکرم پرچھوڑ کر 4 فیصد اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ڈالر کی قیمت کے
فوائد گنوانا شروع کریں توسمجھو کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ ہماری حکومت
معیشت کی بہتری کیلئے کتنی سنجیدہ ہے اور حکومت کیلئے یہ کتنا بڑا چیلنج ہے
؟آج عوام کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے اخراجات پورا کرنا ہے ،ان کیلئے سب سے
بڑا مسئلہ مہنگائی ہے ، ہر کوئی اس سوچ میں ہے کہ کس طرح اوسط آمدنی میں
اپنے تمام اخراجات پورا کرینگے ۔ عوام کا اپوزیشن چور ہے یا حکومت ، تقریر
کون اچھا کرتاہے اور سمارٹ کون ہے ؟ عوام کا اس سے کوئی سروکار نہیں بس ان
کا سب سے بڑا مسئلہ اپنی آمدنی میں اخراجات پورا کرناہے۔حکومت تین سال سے
عوام کے اس مسئلے کے حل میں مسلسل ناکام ہے اور اپنی اس ناکامی کا بوجھ
پچھلی حکومتوں پر ڈال رہی ہے ۔عوام دو سال بعد حکومت سے پچھلی حکومت کی
کارکردگی کے بارے میں نہیں بلکہ حکومت کی اپنی کارکردگی کے بارے میں
اورعوام کے ریلیف کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں پوچھیں گے
لہٰذا حکومت اپوزیشن کا راگ الاپنا بند کرے اور ملکی خراب معاشی صورتحال پر
سنجیدگی اختیا ر کرکے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ حل کرائے کیونکہ اگر عمران
خان کی حکومت معاشی مشکلات حل کرنے میں ناکام رہی تو یہ ان کی ٹیم کا پہلا
اور آخری چانس ہوگا کیونکہ عوام نے 2018 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ دوپارٹی
سسٹم میں تیسرے کو آزمانے کیلئے ووٹ دیا اور اگر یہ ناکام رہا تواسٹیبلشمنٹ
اور عوام پھر کبھی بھی اس قسم کا تجربہ نہیں کرینگے ۔لہٰذا حکومتی وزراء
اورمعاشی ٹیم غیر سنجیدگی چھوڑ کر کارکردگی پر فوکس رکھیں اور عوام کو
مہنگائی کے فوائد کی بجائے ان کو ریلیف دینے اور ا پنے مستقبل کے بارے میں
ذراسوچ بچار کریں تو یہ ملک اور ان دونوں کیلئے اچھا ہوگا۔
|