تبلیغی اجتماع
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
دین اسلام کی دنیا بھر میں تبلیغ و اشاعت کے لئے
سالانہ اجتماع ہر سال رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے ۔ بلاشبہ حج کے بعد یہ
عالم اسلام کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ذہن میں
تبلیغ اسلام کی فکرلیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شہروں ، قصبوں،
دیہاتوں اور بیابانوں سے شرکت کرتے ہیں۔ منتظمین تبلیغی جماعت نے عوام کے
بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے مرحلے
میں اجتماع 4 نومبر سے شروع ہے ہوکر 7 نومبر تک ، اور دوسرے حصے کا اجتماع
جمعرات 11 نومبر سے شروع ہوکر 14 نومبر جاری ہے۔ مبلغین اسلام کے اجتماع
رائے ونڈ میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ
بندیاں سب خاک میں مل جاتے ہیں یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و
محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی،
رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور
سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے انسانوں کی ہدایت کے لئے دعا، اور تبلیغ کے
موثر طریقہ کار پر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔ بلاشبہ دین اسلام اور خالق
کائنات اﷲ تعالیٰ کی عبادت طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے
ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی اور سب سے بہترین کام ہے ۔ ظاہر
ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی زمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر
عمل بھی کریں گے، نیک بنیں گے اور اپنے اعمال وکردار سے دین حق کی سچائی کو
ثابت کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انبیاء علیہم السلام کو
بھیجا ،جنہوں نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب
گالم گلوچ سے نہیں دیے بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ
تبلیغ سر انجام دیا۔
خاتم النبین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں
جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے، اور احساس
رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے
لگیں۔ اور اب محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،
اب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ اور دین اسلام کی
تبلیغ کاکام آپ کے اور ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذمہ ہے جو کہ
ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ تبلیغ اسلام کاکام ہرزمانے میں جاری رہا اور
موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی ۔ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ و سلم کو اﷲ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’(اے نبی) آپ کہہ
دیجیے یہ میرا راستہ ہے ،میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ ،میں اور
میرے ساتھی بھی۔ اﷲ پاک ہے اورشرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘
(سورۃیوسف:108 )۔ یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ
میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو
اﷲ کی طرف دعوت دے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور
ہونے چاہیے جونیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے
رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ‘‘ (سورۃ آل عمران:104 )۔
فرداً فرداً سارے ہی مسلمان ان احکامِ قرآن کے مخاطب ہیں اور ان کا فرض
بنتا ہے کہ اﷲ کی طرف بلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، دین اسلام دعوت کو لے کر
پوری دنیا پر چھاجائیں، اور غیر مسلم لوگوں کو اﷲ کی بندگی واطاعت کی طرف
بلائیں۔ امت مسلمہ کو دیکھ کر دنیا کو یہ معلوم ہوناچاہئے کہ اس دنیا میں
بسنے والے انسانوں کی زندگی کا مقصد کیاہے ؟ اور انسانیت کے لیے حقیقی راہِ
نجات کیاہے ؟ اس گواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا حق ادا کیا ، پوری زندگی اﷲ کا پیغام انسانوں تک
پہنچاتے رہے اسی طرح اس کا حق ادا کیا جائے اور پوری زندگی اس مشن کوزندہ
اور قائم رکھاجائے ۔ شرح وتفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم
مسلمانوں کوروزمحشر اﷲ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اﷲ
تیرے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کوجو ہدایت ملی تھی، ہم
مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اے اﷲ!
ترے آخری نبی جناب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہم کوجو دین حق ملا
تھا، ہم نے اسے من وعن پوری دنیا تک پہنچادیا اور اسے قبول کرنے کی عام
دعوت دی۔
ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کاکام نہیں کیا اور اﷲ کے بندوں تک
دین حق کاپیغام لے کرنہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو
آخرت میں اﷲ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے ؟ آخری خطبہ میں بھی
آپ صلی اﷲ عیہ وسلم نے پورے مجمع سے گواہی لی تھی کہ تم سب اس بات کے گواہ
رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو زمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کردیا ہے ۔
اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ زمہ داری ہم
مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔غور کیجیے ! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب
کرکے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو!تم سب گواہ رہنا کہ اﷲ تعالیٰ نے بحیثیت
امت مسلمہ ہم پرتبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ زمہ داری ہم نے ادا
کردی ہے ۔ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بہنیں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اﷲ
صرف ہمارا معبود ہے ، قرآن مجید صرف ہماری کتاب ہے اور آخری نبی حضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم صرف ہم مسلمانوں کے نبی اور رسول ہیں۔جبکہ یہ بہت بڑی غلط
فہمی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں ہے بلکہ یہ
پوری انسانیت کا دین ہے اور اس دین کو اپنانے والے مسلمان کہلاتے ہیں۔دنیا
کا ہر انسان اس کا مخاطب ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو
اس دین سے متعارف کروائیں اور ان کو اسلام اختیار کرنے کی دعوت دیں۔
|
|