جمعہ نامہ : کتاب الٰہی اور رسول اللہ ﷺ کا باہمی تعلق

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ سے یہ اعلان کروادیا کہ:’’ آپ کہہ دیجیے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ،میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں ،آپ کہہ دیجیے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے سو کیا تم غور نہیں کرتے ‘‘۔ کسی مافوق البشر مخلوق سے عوام الناس کی جو توقعات ہوتی ہیں ان کی تردید فرمانے کے بعد یہ حکم بھی دیا کہ :’’آپ فرمادیجیے میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ،مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا،میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘۔ اپنے رسول معظم ؐ کاایسا سادہ اور دوٹوک تعارف تو رب کائنات ہی پیش فرماسکتاہے ۔

بدقسمتی سے آج بھی دنیا کی ایک بڑی آبادی قرآن پاک کو نعوذ باللہ محمدﷺ کا کلام سمجھتی ہے اورآپؐ کو دین اسلام کا موجد مانتی ہے حالانکہ اس کتاب مقدس کے اندر اس بہتان کے خلاف بے شمار شواہد و دلائل موجود ہیں۔ مثلاً ارشاد باری تعالی ہے :’’اوراگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ‘‘۔ کوئی مصنف اپنی کتاب میں خود اپنے خلاف ایسی بات کیوں لکھے گا ؟ فرمانِ ربانی ہے:’’اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشوں کی پیروی کرلی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو اللہ کے عذاب سے آپ کو کوئی حمایتی ملےگا اور نہ بچانے والا ‘‘۔ یہ الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے کلام کو نبی ٔ کریمﷺ نے من و عن بندگان خدا تک پہنچا نے کا حق بحسن و خوبی ادا کردیا ۔

ارشادربانی ہے :’’اے رسول جوکچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیے ،اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہ کی اور آپ کو اللہ تعالی لوگوں سے بچا لےگا ،بیشک اللہ تعالی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔ کوئی شخص خود اپنے بارے میں یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس دعوت کو نہیں پہنچایا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا ؟ اس سے آگے بڑھ کر قرآن حکیم میں تو یہ سرزنش بھی موجود ہے کہ :’’وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑلیا ( اس لیے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا ۔تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی‘‘ ۔ ان آیات کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی منکر حق قرآن مقدس کے کتاب الٰہی ہو نے کا انکار کرے تو یہ اس کی سراسر ہٹ دھرمی ہوگی۔

ماہِ ربیع الاول میں نبی کریم ﷺ کے تئیں والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا ہے ساتھ غیر مسلمین کو بھی سیرت رسول ﷺ سے متعارف کرانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ایسے میں آفتابِ رسالت کا یہ پہلو بھی پیش کیا جانا چاہیے :’’ آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالی پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالی پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں سو ان کی اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ‘‘۔ اس طرح نہ صرف نبیٔ کریم ﷺ کا صحیح تعارف کا حق ادا ہوگا بلکہ عامتہ الناس میں قرآن حکیم اور محمد ﷺ کے حوالے سے جو عظیم غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ بھی دور ہوگی ۔ دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری مؤثر ا نداز میں اداکرنے کے لیے یہ حکمتِ عملی اہم ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.