علامہ اقبال کی شاعری غفلت میں سوئی ہوئی قوم کو جگانے والا پیغام

o آج 9؍نومبر ہے اس دن تاریخ کی عظیم الشان شخصیت داعی اسلام ،مفکر اسلام ،حکیم الامت ،شاعرِ مشرق ،ڈاکٹر سرمحمد علامہ اقبال کا یوم ولادت ہے اسلئے آج پوری دنیا میں اقبال ڈے منایا جاتا ہے
آپ علامہ اقبال کی شخصیت کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ (اقبال کو نہ قوم سمجھی نہ انگریز سمجھا ۔قوم سمجھتی تو کبھی غلام نہ رہتی اور انگریز سمجھ لیتا تو اقبال بستر مرگ پر نہ مرتا بلکہ پھانسی کے پھندے پر مرتا۔)
علامہ اقبال کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھاجاتاہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔
علامہ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگرکیا۔وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے ۔شاعری میں ان کابنیادی رجحان تصوف اوراحیائے امت اسلام کی طرف تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی دور کی شاعری حب وطن کے جذبہ سے سرشار ہے اپنے وطن ہندوستان سے ان کی والہانہ محبت اورپھر فرنگیوں کے تحت ان کی غلامی نے انہیں بہت متاثر کیا پھر قیام یورپ کے دور نے اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقا میں ایک انقلاب پیدا کردیا یہاں سے ان کی فکر میں وسعت اوردل میں ایک عالمگیر اخوت کاجذبہ پیداہوگیا جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسی عالمگیر جمعیت کاتصور ڈھونڈنے لگے جس میں سب کے لیے اخوت وہمدردی اور عدل وانصاف ہو اوریہ تصور انہیں اسلامی تعلیمات میں نظر آیا۔
ڈاکٹر محمد علامہ اقبال 9؍ نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے اور وہ ابتدائی مدرسے سے لیکر کالج تک کئی بار اول آئے ۔1897ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا اور عربی کے مضمون میں سونے کا میڈل حاصل کیا۔1899ء میں انہوں نے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ایم اے کرنے کے بعد علامہ اقبال کچھ عرصے کیلئے گورنمنٹ کالج میں معلم ہوگئے لیکن پھر جلد ہی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ سے بیرسٹری کی سندلی اور جرمنی کی ایک یونیورسٹی ہائڈل برگ سے فلسفے میں ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی۔یورپ سے واپس آنے کے بعد علامہ اقبال نے لاہور میں وکالت شروع کردی عرصہ دراز تک یہی ان کا ذریعہ معاش رہا۔اس دوران انہوں نے ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا۔
علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعہ خاص طو ر سے نوجوانوں میں خود اعتمادی ہمت وحوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی اسی لئے انہوں نے فلسفہ خودی کی کا سہارا ہے علامہ اقبال کا نظریہ تھا کہ خودی انسان کی انفرادی زندگی کی اعلیٰ ترین صورت کا نام ہے یعنی غیرت مندی اور خودداری کے ذریعہ انسان اپنی زندگی کو اس طرح بنا اور سنوار سکتا ہے کہ اسے اپنے آپ پر فخر ہو اور وہ دوسروں کی نظر میں بھی قدرومنزلت پائے۔ خودی نام ہے خود پر بھروسہ کرنے کا۔ خودی نام ہے خود اعتمادی کا۔ خودی نام ہے اپنی اصل قدروقیمت کو پہچاننے کا۔ خودی نام ہے اْس جدوجہد کاجس میں انسان دوسروں پر تکیہ کئے بغیر اپنی کوششوں سے کامیابی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ خودی دوسروں پر تکیہ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ خودی، خود پر اعتماد کرنے کا نام ہے۔ اقبال کا مشہور شعر ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مرا طریق امیر ی نہیں فقیر ی ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبال کو کامل یقین تھا کہ اس کرہ ارض کا انسان فلسفہ خودی پر عمل کرلے تو ایسی ایسی بلندیوں کو چھوسکتا ہے کہ جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ یہی فلسفہ تھا کہ اقبال نے احساس خودی کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ہر وہ شخص جو ان کی شاعری پڑھ رہا ہے یا سن رہا ہے اس تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ اگر کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہو تو خودی کو اپنا زیور بنالو۔ اقبال کا کہنا تھا کہ اگر خودی موجود ہے تو انسان فقیری میں بھی شہنشاہی کرسکتا ہے اورگہرے سے گہرے دریا کو عبور کرسکتا ہے۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجب نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ اقبال کا پیغام یا زندگی کا فلسفہ کیا ہے تو آپ بلا جھجک جواب دے سکتے ہیں کہ اقبال کا پیغام خودی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر فلسفہ خودی کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ایک پرندہ بار ہا ذکر کیا ہے ۔اس پرندہ کا نام ہے شاہین ۔شاہین ایک سفید رنگ کا شکاری پرندہ اعلیٰ قسم کا بلند پروازباز ہے۔ اقبال نے کوشش جدوجہد اور زندگی میں حرکت اور عمل کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے شاہین کو بطور مثال پیش کیا کہ جس طرح شاہین نامی پرندہ ہمیشہ محو پرواز رہتا ہے۔کبھی آشیانہ نہیں بناتا بالکل اسی طرح انسان کو بھی حرکت و عمل پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ اشعار ذہن نشین کیجئے جن میں اقبال نے شاہین کو حرکت و عمل کے سب سے بڑے نمونے کے طور پر پیش کیا ہے
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
پرندوں کی دْنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ اپنا
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال نے خود اپنی ایک تحریر میں شاہین کو علامت کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ بتائی ہیشاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں خوددار اور غیرت مند ہے کہ کسی اور کے ذریعہ مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔بلند پرواز ہے خلوت پسند ہے اوراس کی نگاہ بہت تیز ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ کیا پیغام دیا ہے۔
علامہ اقبال مسلمان قوم کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک شغر تک ایک دیکھنا چاہتے تھے ۔علامہ اقبال چاہتے تھے کہ ملت اسلامیہ کاجب ایک خدا ایک نبی ہے ایک کتاب ہے لیکن یہ آپس میں بکھر ے ہوئے کیوں
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
علامہ اقبال ہمارے آبا واجداد کی تعلیمات پرغور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔کیونکہ مسلمانوں میں زوال کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ اپنے اسلاف کی میراث ٹھکرا ئے آرہے ہیں ۔کیونکہ جو قومیں اپنے اسلاف کو فراموش کردیتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔
حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثورایہ سے زمین نے آسماں سے ہم کودی مارا
علامہ اقبال نے ہمارے بزرگوں کی کتابوں کو جب یورپ یونیورسٹی میں دیکھا تو پریشان ہوگئے کیونکہ یورپ والے ان کتابوں کو Researchکرکے دنیا کے سامنے نئے نئے دریافتیں پیش کررہے ہیں۔
وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباکی
جو دیکھا اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے زیپارا
علامہ اقبال اس بات سے اچھی طرح واقف ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز قرآن میں ہے ۔اسلئے انہوں نے مسلمانوں کو قرآن سے قریب ہونے کی تلقین کی۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
ناظرین علامہ اقبال کا نام تو سب لیتے ہیں عقیدت کادم تو سب بھرتے ہیں لیکن ان کے پیغام کاپاس ولحاظ کسی کو نہیں۔آج جب قوم فرقہ واریت قومیت وصوبائیت تعصب وعصبیت اور افتراق وانتشار کاشکار ہے
یوم اقبال ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ آپس کی نفرتوں کی محبت میں بدل دو اورمتحد ہوجاؤ۔وقتی فائدے سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے لیے سوچو۔کہیں فرقہ واریت ہے اورکہیں ذاتیں یہ زمانے میں پنپنے کی باتیں نہیں ہیں۔رنگ وخوں کے بتوں کوپاش پاش کرکے ملک میں گم ہوجاؤ۔اپنی اپنی ڈیڑہ اینچ کی مسجد یں اوردکانی سجا کرنہ بیٹھو ۔
ہم کو چاہئے کہ ہم شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھیں سمجھیں جانیں اور دوسروں تک پیغام کو پہنچاکر لوگوں کو متحد کریں اور خاص نوجوانوں میں نئی امنگ آرزو پیدا کریں۔

 
MD Mushahid Hussain
About the Author: MD Mushahid Hussain Read More Articles by MD Mushahid Hussain: 19 Articles with 27005 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.