اقبالؒ کا پیغام کیا ہوا۔۔؟
(Syed Arif Saeed Bukhari, )
9 نومبر کا دن ہمارے قومی شاعر، فلسفی اور شاعر
مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کا یوم پیدائش ہے، ہم روایتی طور پر ہرسال حکیم
الا مت کا یہ دن انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں،مختلف تقریبات اور
محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔آپ 9 نومبر، 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے
۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا خواب دیکھا جسے قائد اعظمؒ میں
عملی تعبیر دی ۔علامہ اقبالؒ کا سارا کلام ، اس کا ایک ایک مصرعہ مسلم اُمہ
خاص طور سے نوجوانوں کے لئے ایک پیغام ہے۔ان کی نظر میں نوجوان ہی کسی قوم
کے لئے سر مایہ ہوتے ہیں کیونکہ مستقل کی باگ دوڑ انہیں نے سنبھالنا ہوتی
ہے ۔نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے وہ کہتے ہیں
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔
ظاہر ہے کہ نوجوان جب تک بیدار نہیں ہوں گے ،اپنے حقوق و فرائض کا ادراک
نہیں کریں گے ،کبھی قوموں کی برداری میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکتے ۔ذہنی
غلام اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں ۔اور نہ ہی کمزور لوگ طاقتور کا مقابلہ
کر سکتے ہیں۔موجودہ دور میں نوجوانوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ،اس
لئے انہیں کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے
کلام کے ذریعے نوجوان نسل کواپنے اندر خودی کو مضبوط کرنے کا درس دیا ہے
۔اپنے اس شعر میں وہ واضح طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جس قوم کے
نوجوان پُرعزم ،باحوصلہ اور خوددار ہوں گے ،وہاں ملک وملت کی بقاء و
استحکام کیلئے کسی تلوار یا ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑ سکتی ۔
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی۔۔
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
علامہ اقبال ؒکی یہ آرزو تھی کہ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، ایک کامل
انسان اورایک مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندرموجزن ہو، اپنی اس
آرزو کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
پاکستان کی آبادی 70فیصدنوجوانوں پر مشتمل ہے،یہ ہمارا مستقبل ہیں۔لیکن ملک
کی معاشی و اقتصادی مخدوش صورتحال کی بدولت ہمارے نوجوانوں کی اکثریت
مایوسی کا شکارہے اور ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ گذشتہ75 برسوں میں ہم پر مسلط
ہونے والی کسی بھی حکومت نے ہماری نوجوان نسل کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش
ہی نہیں کی ۔ ہماری قیادت بھی اپنے مفادات کی جنگ میں الجھی رہتی ہے ،ہم
نوجوان نسل کی تربیت و رہنمائی کرکے انہیں ملک کا کارآمد شہری بنانے کی
بجائے انہیں مزید مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے
کہ علامہ کا کلام ہم صرف اپنی تقریروں ، جلسے، جلوسوں اور تقریبات میں
سنانے کی حد تک یاد رکھتے ہیں ۔عملی طور پر ہم علامہ اقبالؒ کے کسی پیغام
کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔۔ علامہ اقبال ؒاپنے دور کے بزرگوں سے بہت
مایوس تھے کیونکہ وہ پرانی روایات سے جوڑے ہوئے تھے ،وہ خود کو حالات کے
مطابق تبدیل کرنے پر راضی نہ تھے ،اس وقت کی دقیانوسی سوچ نے ہمیں آگے
بڑھنے سے روک رکھا تھا توان حالات میں علامہ اقبال ؒنے بزرگ نسل سے مخاطب
ہو کر یہ کہا تھا
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا۔۔۔
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
علامہ اقبالؒ کی خواہش تھی کہ مسلم نوجوان شاہین جیسے خود داراور غیرت مند
پرندہ کی ماننداپنا مقام پیدا کرے ،شاہین کی پہچان یہ ہے کہ وہ دوسروں کا
مارا ہوا شکار نہیں کھاتا،وہ اپنا آشیانہ نہیں بناتا ہے ،خلوت پسند اور
تیزنگاہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ چاہتے تھے کہ وہ سب خصوصیات نوجوانوں میں
بھی پیدا ہو جائیں تاکہ ہم ایک مثالی قوم تشکیل دے سکیں۔ علامہ اقبالؒ نے
ایک جگہ فرمایا ’’میں بزرگوں سے نااُمید ہو ں آنے والے دور کی بات کہنا
چاہتا ہوں ،جوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا ،اﷲ تعالیٰ آسان کر دے تاکہ
میرے شعروں کی حکمت اور دانائی ان کے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ کامل
انسان بن جائیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا-
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
آج ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا تقاضا ہے کہ ہم اقبال ؒ کا تذکرہ ہم
سال میں دودن تک محدود نہ رکھیں بلکہ فکر اقبالؒ کو اپنے قومی نظام تعلیم
کا عملی حصہ بنائیں،اور علامہ اقبالؒ کے پیغام کی روشنی میں ان کی تربیت
کااہتمام کریں۔ہمیں یہ بات اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ کرلینا
ہو گی کہ ہم مذہب اسلام اور اپنی تہذیب و ثقافت سے منسلک رہ کر ہی خود کو
محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔آج کے دن ہمیں اس بات کا سچے دل سے عہد کرنا ہوگا کہ
ہم علامہ اقبالؒ کے پیغام کو اس کی اصل روح کے مطابق سمجھے کی ہر ممکن کوشش
کریں گے ۔ پاکستان کے مستقبل کا انحصار نوجوان نسل پر ہے، نوجوانوں کو خواب
غفلت سے بیدار ہونا ہوگا ،انہیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو شعوری
طور پر تیار کرناہوگا ، قوم کی راہنمائی کرناہوگی ۔
|
|