آج ہی تیس دن پابند رہنے کے بعد اظہار رائے کی آزادی ملی
ہے فیس بک نے پانچ بار پابند کیا ۔یہ کیسی کتاب ہے جہاں آپ اپنے خیالات کا
اظہار نہیں کر سکتے جو پابندیاں وہ لگاتے ہیں اور کمیونٹی کے جو رولز ان کے
ہیں وہ ہمارے لئے قبول تو نہیں ہیں لیکن کیا کیا جائے ہم آمین کہتے ہیں ہم
قانونی طور پر ان کی جانب سے لگی شرایط کو من و عن مانتے ہیں ۔وہ ہمارے
کیمرے تک رسائی بھی رکھتے ہیں ہماری باتیں بھی سنتے ہیں ہمیں ایک دوسرے کے
ساتھ رابطے کی مفت سہولت کے بدلے ہماری پرائیویسی خفیہ نہیں رہتی ۔سنا ہے
ڈیٹا بیچا بھی جاتا ہے ۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات گردن حاظر ہے ہم
گلے شکوے تو کرتے رہیں گے مگر متبادل نہیں دے سکتے۔آج ایک مہینہ ہو گیا ہے
مجھے بھی فیس بک نے کھڈے لگا دیا تھا خود ہی کھول دیتے ہیں اور باندھ بھی
خود ہی دیتے ہیں ۔اسد دوران ٹویٹر پر گزارا کیا وہ دنیا کوئی اور دنیا ہے ۔
آج نقاش پاکستان کی پیدائش کا دن ہے ۔چوہدری رحمت علی کی باتیں کرنے کا دن
۔ابھی ان کی تصویر لگائی تو کسی نے سوال کر دیا کہ الیکشن سے پہلے عمران
خان نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا جسد خاکی پاکستان لایا جائے گا آپ پی ٹی آئی
کے ہیں آپ نے کیا کیا ہے ۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے لیڈروں کو قوموں برادریوں میں تقسیم کر کے
رکھ دیا ہے چوہدری رحمت علی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔لیاقت علی خان کو
کراچی کے مہاجروں نے اپنا نجات دہندہ قرار دیا قائد اعظم کواپنا کہہ کر
تاثر دیا کہ ہمارے بابے نے آپ کو آزادی دی ہے ۔علامہ اقبال کو پنجاب میں
بسنے والے کشمیریوں نے جپھی ڈال دی آرائیوں نے جنرل ضیاء الحق کو پکڑ رکھا
ہے ۔گویا ہمارے قومی لیڈران کو قوموں اور قبیلوں کے لیڈر بنا کر رکھ دیا ہے
اسلام آباد کے گجروں نے 2018 کے انتحابات سے پہلے عمران خان کو ایک بڑی
تقریب میں بلایا اور ایک تحریری معاہدے پر دستخط کروائے ۔اسد عمر بھی اس
میں شامل تھے گجروں نے اسلام آباد کی تینوں سیٹیں پی ٹی آئی کو دے دیں ۔پی
ٹی آئی راولپنڈی سے بھی کامیاب ہوئی ملک ابرار گجر اکثریت کے حلقے سے عامر
کیانی سے جیت گئے عجیب ماحول بن گیا تھا گجروں نے اپنا سب کچھ پی ٹی آئی کی
جھولی میں اس وجہ سے ڈال دیا کہ اب چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان آ
رہا ہے ۔میں خود بھی اسی بخار میں مبتلا کبھی انجنیر ارشد داد اور کبھی علی
نواز اعوان کے پاس گیا ۔ اور تو اور صدر مملکت سے دوبار ملاقات میں انہیں
یاد دہانی کرائی ۔
اگر حق کی بات کریں تو چوہدری رحمت علی 16 نومبر 1897 کو گڑھ شنکر مشرقی
پنجاب میں چوہدری شاہ محمد گجر کے ہاں پیدا تو ضرور ہوئے لیکن انہوں نے
اپنی پوری زندگی میں کبھی گجر گجر نہیں کھیلا ۔عمران خان نے بڑی کھری بات
کی تھی کہ وہ ایک صدی آگے سوچتے تھے ۔کیوں نہیں جب حضرت قائد اعظم جن پر
جان دا ہو وہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کر رہے تھے اس وقت سچا پنجابی گجر
دنیا کو بتا رہا ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ہندوؤں سے الگ ہو جائیں
۔یہ بات 1915 میں کی گئی ۔جدہ میں ڈاکٹر انیس الرحمن نے مجھ پر جملہ کسا کہ
18 سال کا لڑکا کیا نظریہ دے گا ۔جس کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا سر اگر
سترہ سال کا محمد اب قاسم یہاں طائف سے جا کر سندھ فتح کر سکتا ہے تو کیا
پنجابی گجر ایک سوچ اور فکر نہیں دے سکتا ۔بات پھر گجر ازم کی جانب جا رہی
ہے جو سچی بات ہے میں نہیں چاہتا لیکن کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ چوہدری
رحمت علی نے شمال مغربی علاقوں میں گجرستان بنانے کی بات کی ہے ۔وہ مرد
درویش جس نے NOW OR NEVER لکھا مطالبہ کیا لوگوں کو اس وقت پاکستان پر متفق
کیا جب قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اس مطالبے سے واقف بھی نہیں تھے چوہدری
رحمت علی نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے تعلیم حاصل کی۔ لاہور میں رہ کر وہ
متشدد ہندو ذہنیت سے واقف ہوئے ۔مسلم پانی ہندو ہوٹل اور تو ہندو کمرشل
بینک مسلم کمرشل بینک جو گرچہ بعد میں بنے لیکن دو قومی نظرئیے کی بنیاد
انہی رویوں کی وجہ سے بنی ۔جو بہت بعد میں پاکستان کی شکل میں سامنے آئی ۔
میں دیکھتا کہ مسلمان کیسے زندگی بسر کرتے کرکٹر محمد شامی کا حشر دیکھ لیا
۔اج ہند کے مسلمان زندہ تو ہیں لیکن سچ ہوچھیں ڈر کے زندہ ہیں سہمے رہتے
ہیں ۔پاکاتان کرکٹ میچ جیتے تو ان کی شامت آ جاتی ہے
علامہ اقبال کو تو تاریخ کے غلط بیانیوں نے خالق نظریہ ء پاکستان قرار دیا
۔وہ ہند کے اندر رہ کر آزادی کی بات کرتے تھے
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے اور پا بگل بھی
انہی پابندیوں میں رہ کر حاصل آزادی کو تو کر لے
وہ ہند کے اندر ایک ریاست کا مطالبہ کرتے تھے
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن سار جہاں ہمارا
مسلم نشاط ء ثانیہ کے علمبردار علامہ اقبال سب کچھ تھے خالق نظریہ ء
پاکستان نہ تھے یہ ہم نے ان پر تھوپ دیا
عالم اسلام کے ہیرو علامہ اقبال آج بھی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں
یہ سچ ہے اور سب کو اب پون صدی بعد بول ہی دینا چاہئے جبکہ چوہدری رحمت علی
تو ایک بڑی ہجرت کی تجویز دے رہے تھے اتنی بڑی ہجرت کے عوض وہ دریائوں کے
سوتے اور پورے کشمیر کا مطالبہ کر رہے تھے ۔مشرقی پاکستان کے لیے وہ الگ
ریاست کا مطالبہ کرتے رہے جس کا نام بانگستان تجویز کیا ۔ہند کے اندر مسلم
ریاستوں کو مختلف نام دئیے ۔آپ لفظ پ ا ک س تان پر غور کریں ۔
پنجاب سے پ افغان سے الف اور س سے سندھ تان بلوچستان سے لیا ۔نقاش پاکستان
کو علم تھا کہ بنگالیوں کے لیے الگ دیش ہونا درکار ہے آخر بن ہی گیا جو آج
بھی دو قومی نظرئیے کا دفاع کرتا نظر آتا ہے ۔اندرا گاندھی نے پاکستان توڑا
تو کہا دو قومی نظریہ میں نے خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے جس کے جواب میں
مرار جی ڈیسائی نے کہا تھا آپ نے اپنے بارڈر پر ایک نہیں دو مسلمان ملک بنا
لئے
اندرا نے پاکستان تو توڑا مگر اس کا غرور سکھوں نے اس کی جان لے کر توڑا
اور ثابت کیا ہندوؤں کے ساتھ کوئی بھی نہیں رہ سکتا ۔
چوہدری رحمت علی پاکستان بننے کے بعد یہاں آئے لیکن افسوس ہے کہ ان کے
پیچھے سرکاری درندے لگ گئے اور انہیں مجبورا پاکستان چھوڑنا پڑا
بہت سے لوگوں کا خیال تھا ذہین دلیر اور دبنگ رحمت علی ان کے لیے زحمت بن
جائے گا
پھر وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا وہ 1953 میں بیمار ہو گئے
لوگ کہتے ہیں مزاریوں کے استاد کی حیثیت سے انہوں ریاست کے مالکان نے پیسے
دئے ۔ان کی جد وجہد پر سادہ الفاظ میں کسی نے نہیں لکھا کہ جیتے جی ان کے
ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا ۔بیماری کے دنوں میں ان کے پاس علاج کے لیے
پیسے نہیں تھے ۔جس حکومت نے مسخروں پر دولت لٹائی بڑے بڑے سیاست دانوں کے
علاج پر پاکستان کا پیسہ خرچ کیا وہ شخص حالت فقیری میں 3 فروری 1953 میں
اللہ کو پیارا ہو گیا ۔کئے دن لاش سرد خانے میں پڑی رہی انہیں مصری طلباء
نے امانتاً دفن کیا آج تک وہ دفن ہیں
بہت سے لوگوں نے ان کا جسد خاکی لانے کی کوشش کی چوہدری شجاعت حسین کے دور
میں ایسا لگا کہ ان کی ڈیڈ باڈی پاکستان آ جائے گی مگر لاہور کے ایک بڑے
اخبار نویس نے مزاحمت کی ۔حالنکہ ضیاء شاہد الطاف حسین قریشی مجیب الرحمان
شامی ان کی خدمات کے معترف تھے حتی کہ حمید نظامی نے انہیں ایک قومی ہیرو
قرار دیا تھا ۔
میرا بڑا طویل مکالمہ جناب مجید نظامی سے ہوا لیکن انہوں نے سوچ رکھا تھا
کہ وہ جیتے جی ان کی ڈیڈ باڈی پاکستان نہیں آنے دیں گے اب دونوں جنت میں
بیٹھے سوچ رہے ہوں گے کہ کاش ہم ایک ہی بلد میں مدفون ہوتے ۔
صدر مملکت ڈاکٹر علوی بہت مہربان ہیں میں نے دو بار ان سے اس موضوع پر بات
کی لیکن افسوس کہ جناب صدر وعدہ کرنے کے باوجود پورا نہ کر سکے ۔انجنیئر
ارشد داد نے میرے سامنے علی نواز اعوان اور اسد عمر کو یاد دہانی کرائی
لیکن شنوائی نہیں ہوئی
میں نے علی محمد خان سے بھی بات کی وہ تو ان کے معتقد نکلے لیکن سچ ہوچھیں
عمران خان کے دستخطوں سے مزین ایک تحریر بار بار یاد دلاتی ہے کہ اگر آپ کے
دور میں چوہدری رحمت علی کی باڈی نہیں آ سکی تو پھر کبھی نہیں آ سکے گی ۔
چوہدری صاحب کے لیے آواز اٹھانے والے صرف گجر کیوں؟
کیا اس پاکستان کے بائیس کروڑ عوام آزادی کا سانس نہیں لے رہے ؟ ہم سب کی
مشترکہ ذمے داری ہے
آج نوید افتخار کھانے کے لیے تاشفین صفدر اور عامر کیانی کے ہاں جا رہا ہے
میری ان سے بھی اپیل ہے کہ جناب عامر کیا نی صاحب اللہ نے آپ کو سرفراز کیا
آپ صاف ستھرے بن کر نیب سے نکلے میں آپ کو اپنے قائد کی وہ تحریر بھیج رہا
ہوں اس پر عمل کروائیے گا ۔
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو نہیں بھولتیں اگر جمال الدین افغانی کی قبر منتقل
ہو سکتی ہے تو چوہدری رحمت علی کی کیوں نہیں ؟
ہے جتنا بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
|