دہلی اور اسلام آباد میں افغانستان کانفرنس

امریکی اور نیٹو انخلاء کے بعدافغانستان میں مداخلت اور پاکستان دشمنی کے لئے بھارت مسلسل سفارتی حربے آزما رہا ہے۔ وہ دنیاکو گمراہ کرنا چاہتا ہے کہ خطے میں اس کا اثر و رسوخ اور کابل معاملات میں دلچسپی اب بھی قائم ہے۔ بدھ کو اسی مقصد کے لئے نئی دہلی میں افغانستان پر کانفرنس ہو رہی ہے جس میں سات ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر شرکت کر رہے ہیں ۔ جن میں وسط ایشیائی ریاستوں سمیت روس اور ایران بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور چین نے دہلی کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔بھارت کی افغانستان امن سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف اپنی مفادپرستی پر مبنی سرمایہ کاری کا رونا رو رہا ہے۔دہلی کانفرنس کے برعکس جمعرات کو افغانستان پر اسلام آباد میں کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں افغانستان ، امریکہ، روس، چین شرکت کر رہے ہیں۔

طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی ایک اعلٰی سطحی وفد کے ہمراہ اس وقت اسلام آباد پہنچے جب دہلی میں افغانستان پر کانفرنس ہو رہی تھی۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد طالبان کے وزیرِ خارجہ کایہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔طالبان حکومت کے قائم مقام ترجمان وزارتِ خارجہ عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات سمیت معیشت، راہداری تجارت، مہاجرین اور پاک افغان سرحد کے آر پار لوگوں کی نقل و حرکت کے معاملات زیر بحث آئیں گے۔اگر چہ پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا، لیکن پاکستان نے اسلام آباد میں افغانستان کا سفارتخانہ کھولنے اور عملے کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔انہوں نے ہی امیر خان متقی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔پاکستان چاہتا تھا کہ اسلام آباد میں افغان مشن میں سفارت کاروں کی تعیناتی ہو تا کہ سفارتی مشن کے امور مناسب طریقے سے چلائے جا سکیں۔طالبان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ پاکستان کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ٹرائیکا پلس کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔ اجلاس میں امریکہ، چین، روس اور پاکستان کے افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے شرکت کریں گے۔پاکستان کے اجلاس سے ایک روز پہلے بدھ کو بھارت نے افغانستان سے متعلق ایک سیکیورٹی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں روس، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان اور قازقستان کے قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔ بھارت نے پاکستان کو بھی دعوت دی تھی، لیکن پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد چین بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔افغانستان سے متعلق یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ بھی یورپ اور ایشیا کے دورے پر ہیں۔وہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ ایک بریفنگ کے دوران تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ وہ دورے کے دوران پاکستان، روس اور بھارت جائیں گے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ وہ دورہ پاکستان کے دوران افغانستان سے متعلق ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے جس میں پاکستان، روس اور چین کے سفارت کار بھی شرکت کریں گے۔ تھامس ویسٹ افغانستان کے بارے میں اتحادیوں اور شراکت داروں سے تبادلہ خیال کے لئے یورپ اور ایشیا کے دورے پر ہیں۔ تھامس ویسٹ فی الوقت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچ رہے۔ وہ طالبان سے ایک ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی توقع کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی دیکھیں گے کہ سفارتی سطح پر کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔

اگر چہ چین نے بھارت کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق مذاکرات میں شرکت سے انکارپاکستان کے انکار کے چند دنوں بعد کیاتا ہم چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے مذاکرات کے شیڈول کو وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کے لیے مذاکرات میں شرکت کرنا دشوار ہے۔ بھارت کی میزبانی میں 10 نومبر کو افغانستان پر دہلی ریجنل سیکیورٹی ڈائیلاگ کی صدارت بھارتی قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت دوول کررہے ہیں۔پاکستان نے دہلی کانفرنس میں شرکت سے انکار کی معقول وجہ بیان کی ۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ ایک اسپائلر پیس میکر نہیں بن سکتا ہے۔انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقو ق کی بدترین خلاف ورزیوں اور خطے میں نئی دہلی کے توسیع پسندانہ عزائم سے متعلق عالمی برادری کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا۔ بھارت کے رویئے اور نظریئے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ تبدیل نہیں ہوا، اس کے بغیر خطے میں امن آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔بدقسمتی سے دنیا نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں اور بھارت کے حوالے سے اتنی بات نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے اور افغانستان سے اختلاف پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔افغانستان میں امن پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ لیکن افغانستان میں بد امنی اور سیاسی خلفشار بھارت کے مفاد میں ہے کیوں کہ وہ اسے پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے افغانستان کی سرزمین ہمیشہ پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ افغانوں کو ہمیشہ مشتعل کیا۔ افغانستان میں نئی دہلی نے ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں افغانوں کو اسلام آباد کے خلاف بھڑکانے کا کام کیا۔ طالبان کی واپسی کے بعد بھارت اور اس کے سر پرست خطے میں اپنا اثر ختم ہوتا دیکھ کر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ افغان عوام بھارت کے عزائم سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے اب بھارت کو افغانستان میں سازشیں کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556182 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More