’’چینی مافیا ‘‘اور مہنگائی
(Syed Arif Saeed Bukhari, )
ساٹھ کی دہائی میں فیلڈ مارشل محمدایوب خان کی قیادت میں
پاکستان نے بے پناہ ترقی کی ،زراعت اور صنعت کو وسعت دی گئی ،تربیلہ اور
منگلاجیسے بڑے ڈیم بنائے گئے ،جو آج بھی ملکی ضروریات پوری کر رہے ہیں ۔ملکی
ترقی کا پہیہ اس وقت جام ہو کر رہ گیا جب امریکن سی آئی اے نے ملک کے اس
وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیلڈ مارشل صدرجنرل ایوب خان کے
خلاف کھڑا کردیا ۔اور بھٹو نے ’’چینی ‘‘کے ایشو پر ساری قوم کو ’’ایوب کتا
ہائے ہائے ‘‘پر لگا دیا ۔قوم نے روٹی کپڑا اور مکان کے لالچ میں بھٹوکو
اپنا نجات دہندہ سمجھا ۔اس وقت لالچ میں آکر لوگ یہ بھول گئے کہ ’’روٹی
کپڑا اور مکان ‘‘دینے والی اﷲ کی ذات ہے ۔۔بندہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتا ۔اس
وقت چینی کے نرخوں میں محض 2آنے سیر کا اضافہ ہوا تھا ۔عوام سکھ چین کی
زندگی گذار رہے تھے کہ اچانک بھٹو نے ’’ایوب کتا ہائے ہائے ‘‘کے نعرے کے
ساتھ قوم کا سکھ چین تباہ کر ڈالا ۔ایوب خان کے ساتھیوں کو ’’چینی چور ‘‘
کہا گیا ہے ۔یوں اس تحریک کے نتیجے میں احتجاج اس قدر بڑھا کہ کمیٹی چوک ،راولپنڈی
میں ایک عوامی مظاہرے کے دوران فائرنگ سے ایک نوجوان کی جان چلی گئی ۔اس
ایک نوجوان کی جان جانے کے واقعے نے ایوب خان کو رنجیدہ کر دیا ۔اور
بالاآخر 25مارچ 1969ء کی طوفانی شب فیلڈ مارشل نے ریڈیو پاکستان سے اپنی
نشری تقریر میں اقتدار سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔ان کی آخری تقریر ان
کی حب الوطنی اور عوام سے محبت کے جذبات سے لبریز تھی ۔ان کا کہنا تھا
کہ’’میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں ملک کی تباہی و بردبادی کی کارروائی پر
صدر بنا بیٹھا رہوں ‘‘۔فیلڈ مارشل جیسا لیڈر ان کے جانے کے بعد قوم کو میسر
نہ آسکا۔ایوب خان نے اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا
۔جو عیاش انسان تھا ،لیکن تمام تر خرابیوں کے باوجود ان کے دور ِحکومت میں
کسی قسم کی کوئی مہنگائی نہ ہوئی ۔عوام کا سکون برباد نہ ہوا ، پاکستان کی
بدقسمتی کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ملکی تاریخ میں سب سے
پہلے اور آخری سویلین مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر رہے ۔اور جب تک وہ اس عہدے پر
فائز رہے ،کسی ایک بھی چیز کی قیمت نہ بڑھی ۔لیکن جونہی انہوں نے وزیر اعظم
کا عہدہ سنبھالا،مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ۔ان کے دور میں چینی اور
گھی کا ریٹ 3.75روپے تک پہنچ گیا ،یہی چینی راشن کارڈز پر جیالوں کے ذریعے
کنٹرول ریٹ پر ایک یا دو چھٹانک فی کس کے حساب سے دی جاتی ۔محکمہ خوراک اس
دور میں شادی بیاہ ، ماتم وغیرہ کی صورت میں چینی کے پرمٹ جاری کرتا تھا ۔حکیموں
،دواساز کمپنیوں ، مٹھائی فروشوں و دیگر چینی سے اشیاء بنانے والوں کو بھی
کوٹہ سسٹم کے تحت پرمٹ ایشو کئے جاتے ۔اس دھندہ میں محکمہ خوراک والے اور
جیالے لاکھ پتی بن گئے جبکہ غریب چینی کے لیے خوار ہوتا رہا ۔اس وقت یہی
چینی بلیک میں16سے 20روپے سیر ملا کرتی تھی ۔’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘کے
حصول کے لئے ایک بندے کو’’ناخدا‘‘ سمجھنے کی سزا قوم کو مہنگائی کے عذاب کی
صورت ملی ۔․
خداہی ملا اور نہ وصال صنم
کے مصداق عوام کو روٹی ملی اور نہ تن پر کپڑا باقی بچا ،رہائش کے لیے مکان
تو مکان ،دفن کے لیے اڑھائی گز زمین بھی خریدنے کی سکت نہ رہی ۔جنرل ضیاء
الحق کے دور میں مہنگائی پر کنٹرول رہا کیونکہ اس وقت روس کے خلاف امریکہ
کی جنگ کے عوض پاکستان کو ڈالروں کی صورت امداد ملتی رہی ۔اور یہ ڈالر
مارکیٹ میں ہونے کی وجہ سے معیشت مستحکم رہی ۔
نواز شریف اور شہباز شریف کے ادوار میں بھی مہنگائی زیادہ بے لگام نہیں
ہوئی ،البتہ صدر آصف علی زرداری کے دور میں چینی کا نرخ یکدم 70روپے
سے125روپے کلوتک پہنچا دیا گیا تھا ۔چینی مافیا نے صدر زرداری کے زیر سایہ
بھی خوب مال کمایا ،لیکن وہ کمال ہوشیاری سے چند ہی دنوں میں چینی اپنی اصل
قیمت یعنی 72روپے کلو پر واپس لے آئے تھے۔اس عمل سے عوام بھی خوش اور چینی
مافیا میں راضی رہا۔جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی مہنگائی کا جن کنٹرول
میں رہا ۔نواز دور میں تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان نے
اپنی کنٹینر سیاست میں نواز شریف کو للکارا اور باربار یہ بات دہرائی کہ
اگر ملک میں مہنگائی ہوتو سمجھوکہ ’’ وزیر اعظم چور ‘‘ہے ۔بعد ازاں مقتدر
قوتوں نے ’’برین واشنگ‘‘کے ذریعے قوم کو یہ باور کروا دیا کہ چور اور
لٹیروں کا احتساب کرنے کیلئے عمران خان سے بہتر کوئی لیڈر نہیں ،اس ’’برین
واشنگ ‘‘کا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے ناسمجھ نونہالوں اور نوجوانوں نے اپنے
والدین اور عزیز و اقارب کو بھی مجبور کیاکہ وہ عمران خان کو ووٹ دیں ۔یوں
عمران خان کووزیر اعظم کی صورت ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کر لیا ۔عمران خان
نے اپنی تین سالہ کارکردگی سے نوجوانوں کو مایوس کیا ۔۔اور وہ کچھ ایسا ’’ڈیلور‘‘
نہ کر سکے کہ جس نے نوجوانوں کی امیدیں پوری ہو سکتیں ۔اُلٹا مہنگائی میں
باربار اضافہ کرکے وزیر اعظم عمران خان نے لوگوں کا سکون تک چھین لیا ہے ۔
دیکھا جائے تو مہنگائی کی وجہ سے ڈالرز ،سونا اور پیٹرول کا کاروبار کرنے
والوں کی موجیں لگ گئی ہیں ،ہاؤسنگ کے کاروبار والے ، مکانوں، دکانوں کے
کرایوں پر نظام زندگی چلانے والے ،بیرونی ممالک کی آمدن والے اور کماؤ
سیٹوں پر براجمان افراد کی آمدن بڑھ گئی ہے ،موجودہ مہنگائی سے سب سے زیادہ
سفید پوش ،محدود آمدن والے تنخواہ دار افراد زندہ درگور ہو چکے ہیں ۔کیونکہ
سرکاری یا نجی سیکٹر میں آج بھی لوگوں کو 10سے 20ہزار روپے ہی ماہانہ
تنخواہ مل رہی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد کے زیرکفالت افراد کی اوسط
تعداد 8سے10 نفوس پر مشتمل ہے ۔وزیر اعظم اور پاکستان کے ماہرین معاشیات
ایک لمحے کو اگر یہ بتا دیں کہ محدود آمدن والا اپنا نظام زندگی کس طرح
چلائے تو اُن کی عنایت ہو گی ۔محدود آمدن والا مکان کا کرایہ ادا کرے ،یوٹیلٹی
بلز ادا کرے ،اپنے زیر کفالت افراد کی ضروریات پوری کرے ۔بچوں کو تعلیم
دلائے ،انہیں سکول آنے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ مہیا ء کرے ،روزانہ تین وقت کی
خوراک پوری کرے ،آخر کیا کیا ذمہ داری پوری کرے ۔وزیر اعظم عمران خان کو ان
باتوں کا ادراک نہیں ہوسکتا کیونکہ انہیں اپنی سب ضروریات گھر کی دہلیز پر
مل جاتی ہیں ۔لیکن غریب نے تو کام کرکے ہی کھاناہوتا ہے ۔
مہنگائی کا جن یوں تو سبھی کچھ چاٹ رہا ہے ،لیکن چینی ، گھی اور پیٹرول
سمیت ضرورت کی ہر چیز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سراسر ظلم ہے ۔ایسا نظر
آتا ہے کہ ’’جیسی روح ویسے فرشتے ‘‘کے مصداق ہم لوگ خود جیسے تھے ،ہمیں
وزیر اعظم بھی ایساہی میسر آیا ہے ۔’’چینی مافیا ‘‘ایک بار پھر عمران خان
کی حکومت کو ختم کرکے ’’اوپن ویزے‘‘کے ذریعے انہیں فرار کی راہ پرڈالنا
چاہتا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان سے میں آخری بار یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر
حکومت کا اتنا ہی شوق تھا تو پہلے سیاست اور حکومت کے نشیب و فراز سے آگاہی
حاصل کر لیتے ۔انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ماضی میں جتنے بھی
حکمرانوں کو نکال باہر کیاگیا ۔وہ سبھی کسی نہ کسی کی بیساکھیوں کے سہارے
ہی برسراقتدار آئے تھے ۔لیکن جب لانے والوں کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو
وہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ یہ سب
باتیں ہمیں اس وقت سمجھ آتی ہیں جب ادارے ہماراشکنجہ کستے ہیں ۔موجودہ
حکومت بھی نزع کے عالم میں پریشان اور مضطرب ہے ۔عمران خان کو خود مافیا نے
گھیر رکھا ہے ۔اور وہ اپنے خطابات میں ایسی ایسی باتیں کرنے لگے ہیں کہ جو
ہماری جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہیں،لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن
لیں ، کیونکہ طوفان کسی بھی وقت سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|