14نومبر شہدائے منگ اور ان کے مشن کی یاددہانی کا دن
ہے۔دھرتی کے عظیم سپوتوں نے189سال قبل1832ء کو آج کے دن منگ، آزاد کشمیر کے
مقام پرگلاب سنگھ کی غاصب حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کیااوراپنی زندہ
کھالیں کھینچوائیں مگرغلامی قبول نہ کی۔جس درخت پر انہیں لٹکایا گیا وہ آج
بھی موجود ہے۔ قوم کے کل پر اپنا آج قربان کرنے والوں کے مشن پر چلنے والی
قومیں آزاد، باوقار اور زندہ رہتی ہیں۔ مگر اب شہداء کوصرف سیاسی نعروں،
کاغذی بیانات، اپنے اقتدار، مفادات اور مراعات کی حد تک یادکیا جاتا ہے۔جب
کہ یہ اقتدار، یہ جاہ و جلال شہداء کی قربانیوں کی دین ہے۔ اﷲ پاک 1832کی
تحریک حریت کے شہدائے منگ سردار جموں خان، سردار شمس خان، سردارملی خان،
سردارسبز علی خان، سردارمستانہ خان، سردارباز خان، سرداربنگلش خان، سردار
محمد یار خان،سردار دولت خان، سردار عمرو خان،سردار آسیر خان،سردار پرجوں
خان، سردار مرادو خان، سردار مرید خان، سردار راجولی خان، سردارملکوں خان
سمیت تمام شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے۔
منگ میں ہی 1947میں لفٹننٹ افسر خان اور کرنل شیر خان سمیت 55جانبازوں نے
ڈوگرہ سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت پائی اور غلامی کے زنجیروں کو توڑ
دیا۔1965اور1971ء میں بھی پونچھ دھرتی کے صف شکن مجاہدین مختلف محازوں پر
دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہداء کے مشن پر چلنے کے دعویدار تحریک
کے نام پر سیر و تفریح اور عیش و عشرت کی زندگی پر یقین رکھیں مگر وہ شہداء
کا مشن ناکام نہیں کر سکتے ۔ شہدائے منگ کا دن 14نومبر گزرجاتا ہے۔ مگرآزاد
کشمیرمیں تحریک آزادی کے دعویدارخواب خرگوش میں سوئے رہتے ہیں۔ کسی جگہ سے
شہداء کی یاد میں کسی تقریب کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوتی۔ اس بارے کبھی
کوئی بیان نظر سے گزرتا ہے۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ اخبارات سیکڑوں کی
تعداد میں بیانات سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہاں انوسٹی گیشن کے بجائے شہ سرخیاں
بھی بیانات پر مبنی ہوتی ہیں۔ کوئی ایک اپنی پسند یا مفاد کی خبر جاری کرے
تو تمام اخبارات اپنے کریڈٹ سے نکتہ بہ نکتہ وہی خبر شائع کر دیتے ہیں۔ پتہ
ہی نہیں چلتا کہ یہ خبر کس کی اختراع ہے اور کہاں سے جاری ہوئی۔یہاں کے
عوام بلا شبہ آزادی پسند، ہمدرد اور مخلص ہیں۔ مگر انہیں فکر معاش میں
پھنسا دیا گیا ہے۔ فیکٹری، صنعت ، پیداواری یونٹس، زرعی پیداوار کا فقدان
ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جو کھیتی باڑی کر سکتے ہیں،جن کی زمین سونا اگل
سکتی ہے، ان کی اکثریت اپنی زمینیں بنجر چھوڑ کر راجہ بازار میں بار برداری
کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں شہدائے منگ جیسے ایام آتے ہیں اور نکل جاتے
ہیں لیکن کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ میڈیا بھی ان ایام کو اہمیت نہیں دیتا۔
کہتے ہیں کہ یہ نومبر1832 تھا جب سکھوؤں کے مظالم کے خلاف کشمیری اٹھ کھڑے
ہوئے۔ پونچھ کے لوگ شروع سے بہادر اور جفاکش گزرے ہیں۔ کبھی یہ لوگ بھی
دیگر کی طرح آزادی پسند اور دلیر تھے۔ کبھی یہ غلامی کو قبول نہ کرنے کا
عزم رکھتے تھے۔ لوگ سکھوؤں کے مظالم کے خلاف یہ سینہ سپر ہو گئے۔ اس تحریک
کی کمان اس وقت شمس الدین مجاہد کے ہاتھ میں تھی۔ وہ کسی کی فنڈنگ کے
انتظار میں نہیں رہے اور نہ ہی کسی این جی او کا سہارا لیا۔ انھوں نے چندے
بھی وصول نہیں کئے۔ وہ سکھوؤں کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی آڑ
میں سیر و تفریح اور شاپنگ کے لئے بھی دنیا کی سیر کو نہیں نکلے۔ بلکہ وہ
مخلص مجاہد تھے۔ گھر سے کھایا، زاد راہ لیا اور اﷲ کی رضا کے لئے نکل پڑے۔
کسی پر احسان نہیں جتایا۔ قربانی کا صلہ بھی نہیں مانگا۔ کریڈٹ بھی نہیں
لیا۔اپنی آباد کاری، بچوں کا روشن مستقبل بھی سامنے نہ رکھا۔ دفاتر،
کوٹھیاں اور گاڑیاں بھی طلب نہ کیں۔ یہ تھے شہید ملی خان اور سبز علی خان
جیسے عظیم فرزندان کشمیر۔ جب کشمیری رنجیت سنگھ کے خلاف میدان میں آئے تو
اس وقت بھی ضمیر فروش موجود تھے۔ لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ گلاب سنگھ کو اس
جدوجہد کو کچلنے کا ٹاسک ملا۔ وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل تھا۔ گلاب
سنگھ کی فوج نے پونچھی عوام کا قتل عام شروع کر دیا جس طرح آج بھارتی فوج
مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی میں مصروف ہے۔
فاشسٹ نریندر مودی سے امریکی سینیٹرز ملاقاتیں کر رہے ہیں۔مودی کشمیر اور
بھارت میں اپنی ریاستی دہشتگردی دنیا سے اوجھل رکھنے میں مصروف ہے۔ کبھی
گلاب سنگھ کو بھی کشمیریوں کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ۔اس نے نوجوانوں کو
پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے۔ گردنیں اڑا دیں۔ سر قلم کر کے لٹکا دیئے۔
گھر جلا دیئے۔ کھیت کھلیان نذر آتش کر دیئے۔ لوٹ مار کی۔ لیکن بدترین مظالم
کے باوجود وہ جدوجہد کو کچلنے میں ناکام ہو گیا۔ منگ میں سردار ملی خان اور
سبز علی خان کی زندہ کھالیں کھینچ لیں۔ یہ دردناک مناظرتھے، کھالیں کھینچنے
کے بعد ڈوگرہ اور سکھ فوج نے ان نوجوانوں کی لاشیں لٹکا دیں۔ وہ درخت آج
بھی موجود ہے۔ یہاں پر اب یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ راولپنڈی سازش کیس میں
منگ کے ہی کرنل خان محمد خان کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نے تحریک آزادی کی
جنگ لڑی، عالمی جنگ دوم میں بھی شرکت کی۔ پونچھ کے حکمران سردار شمس خان نے
سکھ راج اور مظالم کے خلاف بغاوت کی تو افسوس کے ساتھ کہتے ہیں سردار نور
خان نے غداری کرتے ہوئے انہیں مہاراجہ کے حوالے کر دیا۔
تحریک آزادی میں سدھن اور ملدیال ہی نہیں بلکہ ہر کسی نے قربانیاں پیش کیں۔
آج ان عظیم شہداء کے مشن پر چلنے کا وقت ہے مگر یہاں اقتدار کے لئے لوگوں
کو علاقوں اور برادریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لوگ ظاہری اور باطنی طور پر
متصادم ہیں۔ ایک کشمکش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا داری کے لئے ہی لوگ آپس
میں سلام و دعا کرتے ہیں۔ ورنہ خلوص، دردمندی جیسے ناپید ہو رہی ہے۔ زاتی
مفاد، کرسی، اقتدار، مراعات مشن بن جائے تو کیا ہو گا۔ شہدائے منگ کی طرح
وہ بھی تھے جنھوں نے آزادی کے لئے، اتحاد اور اتفاق کے لئے خود کو قربان کر
دیا۔ ہم آج سب کو اپنے مفاد پر قربان کر رہے ہیں۔ نئی نسل تعلیم یافتہ
ہے۔تعلیم کے ساتھ شعوری تربیت بھی دی جائے توتوقع کی جا سکتی ہے کہ یہ زات،
برداری، قبیلوں، علاقوں اور لسانی، ازموں کے بت پاش کر دے گی جو زمانہ
جاہلیت کی یادگاریں اور نشانیا ں ہیں۔ اسلاف اور بزرگوں کی اعلیٰ خدمات اور
قربانیوں پر فخر کرنے یا اکڑنے کے بجائے وہ قومیں تاریخ میں نام پیدا کرتی
ہیں جو ہر وقت کچھ مثبت کر گزرنے اور تاریخ کو رقم کرنے میں یقین رکھتی
ہیں۔شہداے منگ اور شہدائے کشمیر کا خون رائیگان نہیں جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے
کہ آج کون ان کے مشن پر چلنے کا شعوری اورعملی عزم رکھتا ہے۔
|